تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     19-05-2014

معاہدۂ عمرانی میں تبدیلی کیوں؟

پاکستانی ریاست کی موجودہ شکل و صورت برصغیر پاک وہند کے مسلمان معاشرے کی ڈیڑھ سو سالہ علمی، سماجی اور سیاسی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ متحدہ ہندوستان کے بکھرے ہوئے مذہبی گروہ سے ایک ریاست میں منظم ہونے تک کی کئی منزلیں طے کرنے کے بعد آج یہ کہا جاسکتا ہے کہ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں نے 1947ء میں جس ریاست کا خواب دیکھا تھا اس کا دستاویزی خاکہ 1973ء کے دستور کی صورت میں تیار کرلیا گیا ہے۔ یہ دستور گزشتہ اکتالیس برسوں میں نافذ بھی رہا اور معطل بھی لیکن اس کی ایک خوبی بہرحال ماننی پڑے گی کہ اس پر اعتراض کرنے والے، اس کو توڑنے والے اور حتیٰ کہ اس کو تسلیم نہ کرنے والے بھی اپنی تمام کوششوں کے باوجود اس کا کوئی ایسا متبادل پیش نہیںکرسکے جسے معاشرے کے تمام طبقات متفقہ طور پر قبول کرلیں۔ اس میں ہونے والی ترامیم پر ایک سرسری سی نظرڈالیں تو معلوم ہوجاتا ہے کہ آٹھویں ترمیم سے لے کر انیسویں ترمیم تک جو تغیرات بھی اس میں ہوئے، ان کا رخ آگے کی طرف نہیں بلکہ پیچھے کی جانب رہا ہے، یعنی جب کبھی بزورِ بازو اسے تبدیل کیا گیا بعد میں آنے والوں نے اسے اصل شکل میں بحال کردیا۔کسی دستورکی اس سے بڑی خوبی کیا ہوگی کہ بار بارکی کوششوں کے باوجود یہ اسی شکل میں آجاتا ہے جواس کے بنانے والوں نے پہلے دن سے اس کے لیے سوچ رکھی تھی۔ ہمارے دستور کی یہ خاصیت شاید ہی کسی دوسرے دستور میں ہو کہ اپنی معطلی کے زمانے میں بھی ریاستی مشینری کو قانونی بنیاد یہی فراہم کرتا رہا ہے۔گویا دستور شکن عناصر نے بھی اسے اتنا ہی توڑا جتنا وہ اپنے مقاصد کے لیے ضروری سمجھتے تھے اوراپنی غیر معمولی قوت کے باوجود بھی اسے ریاست میں قانونی ماخذکے طور پر قبول کیے رکھا۔ دنیا کی دستوری تاریخ کا یہ معمولی واقعہ نہیں ہے کہ تین بار ٹوٹنے کے بعد بھی ایک آئینی دستاویزکو یہ تقدیس حاصل ہوکہ معاشرے کے تمام طبقات اسی کے مقررکردہ دائرے میں رہتے ہوئے اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔ پاکستان کے دستوری تجربے نے یہ ثابت کردیا ہے کہ1973ء کا آئین محض ریاستی کاروبار چلانے کا طریق کار ہی فراہم نہیںکرتا بلکہ اس کی حیثیت ایک معاہدۂ عمرانی کی ہے جس میں اس قوم کے دینی، سماجی اور سیاسی تصورات سمو دیے گئے ہیں۔۔
کسی بھی عمرانی معاہدے میں تبدیلی کی ضرورت اس وقت محسوس ہوتی ہے جب کوئی بڑا طبقہ یہ مطالبہ کرے کہ ملک میں رائج نظام ان کے حقوق کے تحفظ میں ناکام ہوگیا ہے۔ حق تو یہ ہے کہ اپنی تمام ترکمزوری کے باوجود پاکستانی ریاست نے 1973ء کے بعد سے ایسی صورت پیدا نہیں ہونے دی جس کے نتیجے میں کوئی بڑا طبقہ ریاستی نظم سے ٹوٹ جائے۔ بلوچستان کی صورت حال کوکوئی شخص اگر ریاست ٹوٹنے کے عمل سے تعبیرکرتا ہے تو اس کی دلیل پر صرف خاموشی ہی اختیار کی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہلاء کے ساتھ اسی طرزِ عمل کی ہدایت کی ہے۔ بیس کروڑ انسانوں کے اس ملک میں چند لاکھ افراد پر مشتمل کوئی بھی گروہ ایسا نہیں جو یہ کہہ سکے کہ اس کے حقوق کسی نسلی، جغرافیائی یا مذہبی بنیاد پرغصب کیے جارہے ہیں اور وہ اس نظام سے ہٹ کر کسی دوسری راہ پر چلنے میں اپنی نجات سمجھتا ہے۔البتہ اس معاہدۂ عمرانی کے بہت سے طے شدہ نکات پر عمل نہ کرنے سے پیچیدگیاں پیدا ہوئی ہیں اور ملک کے اندرکئی تضادات ابھرکر سامنے آرہے ہیں۔
بے عملی کی ایک مثال دستورکا آرٹیکل 140-A ہے۔ اس کے مطابق ملک کے تمام صوبوں پر لازم ہے کہ وہ بلدیاتی نظام وضع کرکے مالی اورانتظامی اختیارات نچلی سطح تک منتقل کریں۔ صوبائی اسمبلیوں نے کسی بھی قابل قبول وجہ کے بغیر بلدیاتی اداروں کے قیام سے پہلو تہی کی تو اس کے نتیجے میں جو سوال اٹھے ان سے یوں لگا کہ شاید ملک کے مختلف علاقوں کے لوگ اس صوبائی تقسیم پر راضی نہیں ہیں جو انہیں دستور مہیا کرتا ہے۔ ہزارہ میں صوبے کا مطالبہ، جنوبی پنجاب کی پنجاب سے علیحدگی کا تقاضا، کراچی کے حالات اور بلوچستان میں بے چینی درحقیقت اسی ایک شق کو نظر اندازکرنے کے نتائج ہیں۔ آج بھی صوبائی حکومتیں نیک نیتی سے آرٹیکل 140-A پر عمل کرنا شروع کردیں توعام آدمی کا اس نظام پراعتماد بڑھ جائے گا۔
140-Aکی طرح دستور کا آرٹیکل 251 ہے جس کے تحت اردوکو 1988ء میں پاکستان کی سرکاری زبان بننا تھا۔ چھبیس برس گزرنے کے باوجود انگریزی زبان اپنائے رکھنے کے بھیانک نتائج آج ہم اپنے معاشرے میں نظریاتی تقسیم کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ انگریزی زبان کی وجہ سے پورے ملک میں ایک ایسا طبقاتی نظام تعلیم وجود میں آچکا ہے جس میں ایک طبقے کا طالب علم دوسرے طبقے کے طالب علم سے نہ صرف دور رہتا ہے بلکہ ان کے درمیان دشمنی پیدا ہورہی ہے۔ انگریزی تعلیم یافتہ نوجوان کے لیے مدرسے میں اردو اور عربی زبان میںکتابیں پڑھنے والا طالب علم دہشت گرد اور بنیاد پرست ہے جبکہ مدرسے والے کے لیے یونیورسٹی والا فاسق وفاجر ۔ اسی طبقاتی نظام کے بطن سے انتہا پسندی اور دہشت گردی نے جنم لیا جس پر جزوی طور پر قابو پاکرہم خودکو کامیاب قرار دے رہے ہیں لیکن یہ بھول رہے ہیں کہ اس وقت پاکستان کی یونیورسٹیوں اور مدارس میں دس دس لاکھ نوجوان زیر تعلیم ہیں۔ زبان کے فرق کی وجہ سے ان دونوں تعلیمی دھاروں سے نکلنے والوں کے علمی ماخذ، روایات اور خیالات میں کسی یکسانیت کی امید تو دور کی بات ، پُر امن بقائے باہمی کے امکانات بھی معدوم ہوتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان کے ریاستی نظام میں اوپرکی سطح پر سوائے سپریم کورٹ کے عزت مآب جج جسٹس جواد ایس خواجہ کے کوئی دوسرا شخص ایسا نہیں جو انگریزی سے پیدا ہونے والی ان پیچیدگیوں کو سمجھ کر اردو کے فروغ کی شعوری کوشش کررہا ہو۔ جسٹس خواجہ نے سپریم کورٹ میں اردو میں فیصلے لکھنے کی جو رسم ڈالی ہے اس سے موہوم سی امید بندھی ہے کہ شاید آئندہ کسی وقت اس معاملے کی نزاکت کو سمجھ کر کوئی اس طرف توجہ کرلے۔
پاکستان جس معاہدۂ عمرانی کی بنیاد پرکھڑا ہے اس کا تحریر ی اظہار 1973ء کا دستور ہے اور اس دستورکی افادیت سے معاشرے کے کسی حصے کو انکار بھی نہیں، لیکن یہ طے ہے کہ اس دستورکے تابع اداروں کی بری کارکردگی بعض اوقات ایسے سوالات اٹھا دیتی ہے جو بظاہر دستوری نوعیت کے ہوتے ہیں ، لیکن اصل میں یہ دستور پر عمل سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امن و امان سے لے کر ابلاغ و بیان تک کا کوئی مسئلہ جیسے ہی سرکاری کارندوں کے ہاتھ میں آتا ہے، وہ بحران بن جاتا ہے لیکن یہ مسئلہ افراد کی قابلیت سے جڑا ہے، اس کا معاہدۂ عمرانی سے کوئی لینا دینا نہیں جسے تبدیل کرنے کی بحث ایک فاضل دانشور نے نجانے کیوں شروع کرنے کی کوشش کی ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved