جن کو اپنی عزت کا پاس ہوتا ہے‘ وہ ہر اقدام کرنے سے پہلے درجنوں مرتبہ سوچتے ہیں۔ بھارت کے نئے منتخب وزیراعظم‘ مسلمانوں کے بارے میں‘ جس لہجے‘ الفاظ اور القاب میں بات کرتے ہیں‘ وہ انتہائی توہین آمیز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے ممتاز اور سمجھدار مسلمان لیڈر‘ اسے منہ لگانے سے گریز کرتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ خود کو مخاطب کیے جانے کا فائدہ اٹھا کر‘ جواب میں وہ کوئی نہ کوئی گھٹیا بات کہہ سکتے ہیں۔ جب مودی سے کسی نے گجرات میںیہ پوچھا کہ ''کیا انہیں اپنی حکومت میں‘ مسلمانوں کا خون بہانے اور ان کے گھر جلانے پر کوئی افسوس ہے؟‘‘ اس پر مودی نے جواب دیا تھا ''اگر آپ کار میں بیٹھے سڑک پر جا رہے ہیں اور ایک کتا نیچے آ کر کچلا جائے‘ تو اس پر افسوس کس بات کا؟‘‘ مودی کا یہ تبصرہ شائع ہوا‘ تو پورے بھارت کی مہذب آبادی‘ بالخصوص مسلمانوں کو بہت دکھ پہنچا، لیکن جب میڈیا نے‘ مودی سے اس بات کی تصدیق کرنے کو کہا‘ تو انہوں نے انکار کرنے کے بجائے‘ مختلف تاویلات بیان کرنا شروع کر دیں۔ یہ واقعہ تو مجھے آج تک نہیں بھولتا ‘ جب ایک جلسہ عام میںسٹیج پر مسلمانوں کا ایک وفد ان سے ملنے آیا۔ وفد کی قیادت کرنے والے مولانا صاحب نے‘ اپنی جیب سے ایک سفید ٹوپی نکال کر مودی کو پیش کر کے فرمائش کی کہ وہ اسے پہن لیں۔ ایسی ٹوپی بھارتی مسلمان عموماً نماز پڑھتے وقت پہنتے ہیں۔ مودی نے وہ ٹوپی ہاتھ میں پکڑے رکھی اور تحفہ پیش کرنے والے مولانا سے عذر کیا اور ٹوپی انہیں واپس کر دی۔ یہ منظر ٹی وی کے تمام چینلز پر نشر ہوا اور بار بار دکھایا جاتا رہا۔ یہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے لئے مودی کا واضح پیغام تھا کہ مجھ سے کوئی خوش فہمی نہ رکھے۔ مسلم دشمنی کے معاملے میںمیرا رویہ نہیں بدلے گا۔
حالیہ انتخابات میںمودی کو فیصلہ سازی پر مکمل اختیار رہا۔ بی جے پی کا سیاسی کلچر تھا کہ اس میں فیصلہ سازی کا اختیار‘ اجتماعی قیادت استعمال کرتی تھی۔ واجپائی اور ایڈوانی جیسے لیڈروں کے دور میں بھی فرد واحد کو لیڈر کے طور سے پیش نہیں کیا جاتا تھا۔ ایک طرح کی کونسل آف ایلڈرز تھی‘ جو تمام اہم فیصلے کیا کرتی۔ خصوصاً انتخابی منشور‘ سٹریٹجی اور امیدواروں کے انتخاب جیسے فیصلے درجہ بدرجہ مشاورت کے بعد ہوا کرتے۔ اس مرتبہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ یوں لگتا ہے کہ کہیں سے حکم آیا۔ چند لیڈروں نے مودی کو امیدوار بنانے کا فیصلہ کیا اور راج ناتھ نے‘ جو سینئر لیڈروں میں شمار نہیں ہوتے‘ پریس کانفرنس میں اعلان کر دیا کہ پارٹی کی طرف سے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی ہوں گے۔ کئی سینئر لیڈروں کے لئے یہ اعلان غیرمتوقع اور اچانک تھا۔ ایڈوانی سمیت کئی ناراض بھی ہوئے، مگر یہ فیصلہ نہ بدلا گیااور ایک ایک کر کے‘ تمام سینئر لیڈروں کو غیرروایتی فیصلہ تسلیم کرنا پڑا۔ مودی نے امیدواری کا اعلان ہوتے ہی‘ انتخابی مہم کے تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لے لئے۔ یہاں تک کہ سینئرترین لیڈروں کے لئے انتخابی حلقوں کا فیصلہ بھی مودی اور ان کے قریبی دوستوں نے کیا۔ جسونت سنگھ جو پارٹی قیادت کے سینئرترین بزرگوں میں شمارہوتے ہیں۔ الیکشن لڑنے کے خواہش مند تھے۔ انہیں ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا گیا۔ وہ اپنے طور سے امیدوار بنے اور ہار گئے۔ مرلی منوہر جوشی نے جہاں سے ٹکٹ مانگا تھا‘ نہیں دیا گیا اور جس حلقے سے انہیںٹکٹ دیا گیا‘ وہ آخری دم تک کامیابی کے بارے میں مشکوک رہے۔ ایڈوانی صاحب کے ساتھ بھی یہی گزری۔ یہ دونوں بزرگ‘ مودی کے نام پر کامیاب ہو گئے۔ رواج کے مطابق اس بار ووٹ پارٹی کے نام پر نہیں‘ مودی کے نام پر مانگے گئے۔ بھارت کی تاریخ میں جب بی جے پی کو پہلی بار اکثریت حاصل ہوئی‘ اس وقت کہا گیا تھا کہ بی جے پی کی لہر چلی ،لیکن اس بار بی جے پی کا نام غائب تھا۔ مقبولیت کی رو کو‘ بی جے پی کی بجائے‘ مودی کی لہر قرار دیا گیا۔ بی جے پی نے ماضی میں بیشترانتخابی کامیابیاں شمالی بھارت میںحاصل کیں، لیکن اس مرتبہ اسے جنوبی بھارت کے اندر بھی قابل ذکر کامیابی حاصل ہوئی۔ بنگال‘ آندھرا اور تامل ناڈو جیسی ریاستوں میں ‘ بی جے پی نے پہلی مرتبہ انتخابی کامیابیاں دیکھیں۔ ٹکٹوں کے اصل فیصلے ‘ بی جے پی کی قیادت نے نہیں کئے۔ یہ فیصلے آر ایس ایس اور بجرنگ دل کے لیڈروں کی مشاورت سے کیے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ دوچار کو چھوڑ کر جیتنے والے تمام امیدوار ہندو ہیں۔ ان دنوں وزارتوں کے فیصلے بھی آر ایس ایس اور بجرنگ دل کے لیڈر کر رہے ہیں۔ آج‘ مودی ‘ ایڈوانی اور منوہرجوشی کے گھر گئے۔ قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ آر ایس ایس انہیں غیراہم وزارتیں دینا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ان دونوں کو منانے کے لئے مودی کو ان کے گھروں پر جانا پڑاتاکہ انہیں ‘ اپنے لئے مخصوص کی گئیں وزارتیں قبول کرنے پر آمادہ کیا جائے۔ جو مسلمان‘ ماضی میں بی جے پی کے سرکردہ لیڈر سمجھے جاتے تھے‘ اس بار انتخابی مہم میں کہیں نظر نہیں آئے۔ سید مختار عباس نقوی پارٹی کے نائب صدر اور راجیہ سبھا کے ممبر ہیں۔ بی جے پی کے پاس لوک سبھا میں کوئی مسلمان نہیں۔ ان کی وزارت پکی ہے ۔ بی جے پی سے تعلق رکھنے والے وہی ایک مسلمان تھے جو مودی کی جیت پر گلے میں ڈھول ڈالے بجاتے اور ناچتے ہوئے نظر آئے۔ بی جے پی کی بیشتر یونین کابینائوں کے رہنے والے‘ شاہنواز حسین کو‘ بہار سے ٹکٹ دیا گیا‘ جہاں بی جے پی کا زور نہیں تھا۔ وہ ہار گئے۔
بھارتی مسلمان کہہ رہے ہیں کہ مسلم لیگ نے ‘مسلم قومیت کی بنیاد پر پاکستان حاصل کر کے‘ بھارت کو ہندو ملک بننے کا موقع دیا، لیکن موجودہ صورتحال سے یہ نتیجہ اخذ کرنا‘ جذباتیت کے سوا کچھ نہیں۔مسلم لیگ‘ پاکستان بنا کر برصغیر کے کم از کم 40کروڑ مسلمانوں کے لئے 2 مسلم اکثریتی ملک حاصل کرنے میں ضرور کامیاب رہی۔ خدانخواستہ پاکستان نہ بنتا‘ تو بھارت پھر بھی ہندومملکت بن کے رہتا۔ آزادی کے دن تک کانگریس نے‘ صرف مسلمانوں کو فریب دینے کے لئے سیکولرازم کا نام استعمال کیا۔ آزادی حاصل ہوتے ہی‘ بھارت میں فوری طور پر مسلمانوں کو بھارتی قوم کے مرکزی دھارے سے نکالنے کا عمل شروع ہو گیا تھا۔ آج عملاً مسلمانوں کو کونے میں لگایا جا چکا ہے۔ زیادہ تر انتہائی غربت اور پسماندگی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ شہروں میں ان کی آبادیاں ہر طرح کی سہولت سے محروم ہیں۔ چند ہفتے پہلے یو پی کے شہر مظفرنگر میں مسلمانوں پر بلاوجہ حملے کر کے‘ انہیں خون میں نہلا دیا گیا۔ وہ گھروں سے نکل کر شدید سردی کے موسم میں‘ کھلے کھیتوں کے اندر‘ بچوں اور عورتوں کے ساتھ‘ بے مہر موسم کی سختیاں برداشت کرتے رہے۔تکلیف دہ بات یہ تھی کہ وہاں کی دونوں صوبائی پارٹیاں‘ جن کی قیادت نچلی ذات کے ہندو لیڈروں ملائم سنگھ اور مایا وتی کے پاس ہے‘ ان میں سے بھی کوئی ان بے بس اور لاچار مسلمانوں کا حال تک پوچھنے نہیں آیا۔ ان دونوں لیڈروں کی پارٹیاں ‘ مسلمانوں کے ووٹ حاصل کر کے‘ صوبے کے اندر باری باری اقتدار میں آئیں۔ بے بس‘ بے سہارا اور بے سروسامان مسلمانوں کے کیمپ میں‘ ان دونوں میں سے کوئی ان کی حالت زار دیکھنے کے لئے نہیں آیا، جس پر پورے صوبے کے مسلمانوں میں شدید غم و غصہ پیدا ہوا۔ غالباً ان لیڈروں کی بے حسی کا نتیجہ ہے کہ اس بار مسلمانوں نے اپنے ووٹ بی جے پی کو دیئے۔ یو پی کے مسلمان ‘ کانگریس ‘ مایاوتی اور ملائم سنگھ‘ تینوں کے لگائے ہوئے فریبوں اور زخموں سے نڈھال ہیں۔ کچھ احتجاجاً ووٹ ڈالنے کے لئے ہی نہیں گئے اور کچھ نے انتقاماً اپنا ووٹ بی جے پی کو دے دیا۔ بی جے پی کے ٹکٹ پر شاید ہی کوئی مسلمان الیکشن نہیں جیت سکاہو۔ یو پی کے مسلمان اپنے تمام لیڈروں سے بری طرح مایوس ہوئے ہیں۔ مودی‘ نجی محفلوں میں اسے ہندوتوا کی کامیابی قرار دیتے ہیں۔ عوام کے لئے وہ اپنا موقف یوں بیان کرتے ہیں کہ ''میری حکومت کا رہنما اصول ملک کا آئین ہو گا۔‘‘ کسی کو اس بات پر یقین نہیں۔ سب یہ سمجھتے ہیں کہ بی جے پی‘ آر ایس ایس سے لے کر‘حالیہ الیکشن تک 89 برس کی جدوجہد کو منزل سے ہمکنار کرنے کا سنہرا موقع ضائع نہیں کرے گی۔ نریندر مودی کا بھارت ‘ کیا ہندو جمہوریہ ہو گا؟ پاکستان کے متعصب ملّا اور بھارت کے تنگ نظر پنڈت‘ ایک دوسرے کے خلاف انتہاپسندانہ پراپیگنڈہ کر کے‘ اب تک باہمی کشیدگی کو زندہ رکھتے آئے ہیں۔مودی کا بھارت اسے منطقی انجام تک پہنچانے کی بھرپور کوشش کرے گا۔