تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     21-05-2014

پاک چین دوستی

میں اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق ‘قارئین کو آنے والے حالات کے بارے میں‘ کچھ اشارے دیتا رہتا ہوں۔ کچھ درست نکلے۔ کچھ نہیں ۔ آج میں ایسے موضوع پر بات کررہا ہوں‘ جس کا ہمارے مستقبل سے گہرا تعلق ہے۔ پاک چین دوستی‘ ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہے۔ چین نے ہمیشہ حکومتوں‘ لیڈروں اور پارٹیوں میں امتیاز کئے بغیر‘ دوستی کی بنیاد عوام کو بنایا۔ چینی اپنے ملک میں پاکستانی عوام کے ہر نمائندے کا‘انتہائی محبت اور گرم جوشی سے خیرمقدم کرتے آ رہے ہیں۔ آزمائش کے ہر موقع پر‘ ہمارا ساتھ دیتے ہیں۔ 1965ء میں‘وہ اپنی سلامتی کو دائو پر لگا کر‘ ہمارے ساتھ کھڑے ہو گئے تھے۔یاد رہے‘ اس وقت تک پاکستان‘ امریکہ کا فوجی اتحادی تھا۔ یہ فوجی اتحاد ''کمیونسٹ خطرے‘‘ کے خلاف تھا اور چین کمیونسٹ تھا۔(اب پتہ نہیں)۔ ہمارے اتحادی امریکہ نے‘ اس جنگ میں ہم سے منہ موڑ لیا تھا اور چین‘ جس کے خلاف ہم امریکہ کے فوجی اتحادی تھے‘ اس نے امریکہ کو رنگ بدلتے دیکھ کر ‘ بھارت کو واضح پیغام پہنچا یا کہ اگر اس نے جنگ بند نہ کی‘ توچین کو پاکستان کی مدد کے لئے‘ میدان میں اترنا پڑے گا۔ چینیوں کی ڈپلومیسی بہت گہری‘ مستقل اور بے لاگ ہوتی ہے۔ نوجوان نسل کی خاطر میں‘ وہ دلچسپ واقعہ دہرا رہا ہوں‘جس میں چین نے بھارت کو‘ جنگ میں کودنے کا کھلا پیغام دیا تھا۔ جنگ جاری تھی۔ اچانک چینیوں نے بھارت سے کہا ‘ ہماری 400 (غالباً ایسی ہی کوئی تعداد تھی) بھیڑیں ‘ آپ نے ہتھیائی ہیں۔ ہماریں بھیڑیں واپس کریں۔ بھارتیوں نے انکار کیا۔ چینی اصرار کرتے رہے۔ چین کا تقاضا بڑھتا رہا۔بھارتیوں نے 500 بھیڑیں اکٹھی کر کے‘ دلی میں چینی سفارتخانے کے سامنے کھڑی کرکے کہا ''آپ کی جتنی بھیڑیں چوری ہوئی ہیں۔ گن کر لے لیں۔‘‘ دو چینی سفارتکار باہر آئے۔ بھیڑیں دیکھیں ۔ واپس جا کر اندر سے پیغام بھیجا ''یہ بھیڑیں ہماری نہیں۔ ہمیں وہ بھیڑیں دو‘ جو تم لوگوں نے اٹھائی ہیں۔‘‘بھارت نے پیغام سمجھ لیا اور چینیوں کو جواب دیا ''ہم جنگ بندی پر تیار ہیں۔‘‘ اس کے ساتھ ہی جنگ بندی کے مقصد سے‘ عالمی طاقتوں کے ساتھ رابطے شروع کر دیئے گئے۔ 
جنگ کے بعد ‘چین کے نائب وزیراعظم (نام غالباً چن ژی تھا) پاکستان کے خیرسگالی دورے پر تشریف لائے۔ نئی نسل‘ بے نظیربھٹو شہیدکے پاکستان واپسی پر ہونے والے استقبال کو‘ لاہور کی تاریخ کا سب سے بڑا استقبال سمجھتی ہے۔ میں نے خود بھی اپنے کالم میں بی بی کے استقبال کو مثالی قرار دیا تھا۔ مخالفین استقبال کو معمولی قرار دینے کے لئے‘ اسی طرح کی باتیں کر رہے تھے‘ جیسے 11مئی کو‘ عمران خان کے جلوسوں اور جلسے کوناکام قرار دیاگیا۔ ایک نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ''عوام کی سردمہری دیکھ کر۔ عمران کا رنگ اڑا ہوا تھا۔‘‘ حقیقت میں رنگ کہیں اور اڑے ہوئے تھے۔ بہرحال 65ء کی جنگ کے بعد‘ لاہور کا سب سے بڑا تاریخی استقبال‘ چین کے نائب وزیراعظم کے دورے کے موقع پر ہوا۔پاکستانیوں کی وہ محبت‘ جوش‘ ولولہ اور شکرگزاری‘ دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے۔ چین نے‘ پاکستانیوں سے کہا تھا'' آپ ڈٹے رہو۔بھارت کو ہمارا پیغام پہنچ گیا ہے۔ جنگ بندی کی شرائط عزت و وقار سے طے کرنا۔ کم 
ہمتی کی ضرورت نہیں۔‘‘ ہماری لیڈرشپ اس قدر گھبرائی ہوئی تھی کہ امریکہ اور بھارت نے جو کچھ کہا‘ اسے بلاتامل قبول کر لیا۔ امریکیوں اور بھارتیوں نے ‘جنگ بندی کے غیرمساوی معاہدے پر تاشقند میں دستخط کرائے۔ ان دنوں چین اور سوویت یونین میں شدید محاذ آرائی تھی۔ سوویت یونین‘ بھارت کا‘ ہم‘ امریکہ کے اتحادی تھے۔ ہمارے اتحادی امریکہ نے‘ جنگ بندی کی شرائط میں ہماری مدد کرنے کے بجائے‘ ہمیں سوویت یونین کا راستہ دکھا دیا۔ چینی لیڈروں نے یقینا محسوس کیا ہو گا کہ ''ہم نے تو اپنے خلاف فوجی معاہدے میں شریک‘ پاکستان کی خاطر جنگ میں کودنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ پاکستانی لیڈر جنگ بندی کے مذاکرات کرنے‘سوویت یونین پہنچ گئے‘ جس کے ساتھ کچھ ہی عرصہ پہلے ہماری سرحدی جھڑپیں ہو چکی ہیں۔‘‘ چینی اپنے دوستوں کے ساتھ گلے شکوے کرنے کے عادی نہیں۔ حد یہ ہے کہ انہوں نے تب بھی گلہ نہیں کیا‘ جب پی آئی اے کے جہاز میں ‘ چین کی جاسوسی کے لئے نصب کئے گئے کیمرے پکڑے گئے تھے۔ پاکستان پہلا ملک تھا‘ جس کے مسافر طیاروں کو‘ چین نے اپنے ملک کی فضائوں میں پروازوں کی اجازت دی تھی۔
1971ء میں مشرقی پاکستان کی منتخب قیادت کے ساتھ‘ اسلام آباد کا تنازعہ شروع ہوا‘ تو چین دنیا کی واحد بڑی طاقت تھی‘ جس نے کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا۔ چینی لیڈر درپردہ ہمارے حکمرانوں کو سمجھاتے رہے کہ'' آپ مسئلے کا سیاسی حل تلاش کریں۔‘‘ مشورے کے جواب میں‘ ہماری حکومت نے مغربی پاکستان کے منتخب لیڈر‘ ذوالفقار علی بھٹو کو چین سے‘ اسلحہ مانگنے بھیج دیا۔ چینیوں نے پوچھا ''آپ کتنا عرصہ لڑ سکتے ہیں؟‘‘ پاکستانی وفد نے جواب دیا ''ہم تین چار ہفتے تک جنگ لڑ لیں گے۔‘‘ چینی میزبانوں نے پوچھا ''اس کے بعد کیا کریں گے؟‘‘ ہمارے وفد نے جواب دیا ''اس دوران اقوام متحدہ یا عالمی طاقتیں ‘ جنگ بندی کرا دیں گی۔‘‘ میزبانوں نے جواب دیا ''اگر آپ کو بھارت کے ساتھ ہی جنگ بندی کرنا ہے‘ تو اپنے عوام سے کر لیں۔ ملک کی آزادی خطرے میں ڈالنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ اس کے باوجود ہم باز نہ آئے۔ چینیوں کے دوستانہ مشورے کو نظرانداز کرتے ہوئے‘ بھارت کو حملہ کرنے کا بہانہ مہیا کر دیا۔ چینیوں نے اس کے باوجود شیخ مجیب کے ناجائز مطالبات کے خلاف ‘ ہمارا ساتھ دیا۔ اقوام متحدہ کے اندر ‘ بنگلہ دیش کا راستہ تب تک روکے رکھا‘ جب تک شیخ مجیب نے ہمارے مطالبے کے مطابق‘ اپنی شرائط میں نرمی پیدا نہ کی۔ یہ پس منظر میں نے اس لئے بیان کیا ہے کہ 90ء کے عشرے میں ‘ پاکستان سے تربیت یافتہ دہشت گردوں نے ‘چین میں کارروائیاں شروع کر دیں۔ چین کئی سال تک ڈپلومیسی کی زبان میں اپنی شکایت ‘ پاکستانی حکومت کو پہنچاتا رہا۔ ہم سمجھ پائے یا نہیں؟ چینیوں سے ہم نے یہی کہا ''ہم آپ کی شکایت 
دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔‘‘ دہشت گرد پھر بھی جاتے رہے۔ چین نے طویل سوچ بچار کے بعد‘ آخر کار کہا ''آپ کے ہاں سے تربیت پائے ہوئے دہشت گرد‘ ہمارے ملک کے اندر کارروائیاںکر رہے ہیں۔‘‘ ہم نے پھر جائزہ لینے کا وعدہ کیا۔ چینیوں کے ہر استفسار پر ہم نے بتایا ''ہم ابھی تک تلاش کر رہے ہیں۔‘‘ چین خاموش رہا۔ چند روز کے بعد‘ اس نے پوری تفصیل سے ان دہشت گردوں کی فہرست‘ پاکستان کے حوالے کر دی‘ جو اس وقت ہمارے ملک میں زیرتربیت تھے۔ پاکستان میں متعدد حکومتیں بدلیں۔ چین کا دوستانہ استفسار جاری رہا۔اس نے کسی قسم کی تلخی کا اظہار کئے بغیر‘ معمول کا تعاون برقرار رکھا۔لال مسجد کے مجاہدین نے‘ اسلام آباد میں مقیم‘ چینی خواتین و حضرات کو اغوا کر کے‘ انہیں ''اسلام کی برکات اور انسان دوستی‘‘ کا سبق پڑھانا شروع کیا۔ چین کے مطالبات کے باوجود‘ حکومت پاکستان چینی مہمانوں کو بازیاب کرانے میں ناکام رہی‘ چین نے اپنی روایتی ڈپلومیسی برقرار رکھتے ہوئے‘ شائستگی سے دریافت کیا ''اگر ہمارے شہریوں کو بازیاب کرانے میں آپ کو مشکل پیش آ رہی ہے‘ تو ہمیں اجازت دیجئے۔ ہم اپنے شہریوں کو بازیاب کرا لیتے ہیں۔‘‘ جس پر حکومت پاکستان نے لال مسجد کے مولویوں سے ''مذاکرات‘‘ کر کے‘ چینیوں کو بازیاب کرا لیا۔ پاکستان میں تربیت پائے ہوئے دہشت گرد‘ چین میں مسلسل تباہ کاری کرتے رہے اورپاکستان میں ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنے والے چینیوں کو اغوا کیا جاتا رہا۔ قتل کیا جاتا رہا۔ ہراساں کیا جاتا رہا۔ چینی جان پر کھیل کر‘ آج بھی ہمارے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے لئے کام کر رہے ہیں۔ میں نے آج کے اخبار میں‘ دو خبریں پڑھنے کے بعد فیصلہ کیا کہ ‘پاک چین تعلقات میں پیدا ہونے والے نئے امکانات قارئین کے سامنے رکھوں۔ ایک خبرچینی سیاح کے اغوا کی ہے اور دوسری چین سے منگوائے گئے‘ تین ریلوے انجنوں کے بارے میں ہے‘ جو پہلے ہی آزمائشی سفر‘ میں ناکام ہو گئے۔چینی انجنوں کی کہانی بڑی پراسرار ہے۔ بیشک تجارت میں چین والے ڈنڈی مارتے ہیں‘ لیکن ہمارے لوگ بھی کم نہیں۔ بلاشبہ امریکہ اور جرمنی‘ عمدہ کوالٹی کے ریلوے انجن تیار کرتے ہیں‘ لیکن وہ بے حد مہنگے ہیں۔ چین کے انجن سستے بھی ہوتے ہیں اور وہاں سے ہمیں سپیئرپارٹس اور دیکھ بھال کی سہولتیں بھی ملتی ہیں۔ لیکن چین کے ساتھ‘ انجن منگوانے کے جتنے بھی سودے ہوئے‘ ان کا نتیجہ اچھا نہیں نکلا۔ پہلے ایک دو ناکام تجربے ‘ ہم دونوں کے لئے کافی تھے۔ چین اپنے انجنوں کی ناکامی کے بعد یا تو ہمیں آزمودہ اور معیاری انجن فراہم کرتا‘ یا ہم خریداری سے باز آجاتے۔ دونوں کام کیوں نہ ہوئے؟ چین کا اندرونی ریلوے نیٹ ورک دنیا کے بڑے اور بہترین نیٹ ورکس میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں آتے ہی اس کے انجن خراب کیوں ہو جاتے ہیں؟سننے میں آیا ہے کہ چین کی کمپنیاں‘ خریداروں کو ''بھاری اطمینان‘‘ دلاتی ہیں‘ لیکن ان کے تیارکردہ انجن‘ پاکستان میں آ کر ناکارہ ہو جاتے ہیں۔ پاک امریکہ ''دوستی‘‘ آزمودہ ہے۔ یہاں بلیک واٹر یا متبادل ایجنسی کی جڑیں‘ بہت گہری ہیں۔ امریکہ‘ روس اور چین کا تجارتی حریف ہے۔ وہ ان کے مال کو ناکارہ ثابت کرنے کے لئے‘ کوئی بھی حد پار کر سکتا ہے۔ مجھے چینی انجنوں کی ناکامی میں ‘ پاک امریکہ ''دوستی‘‘ کے اثرات کارفرما نظر آ رہے ہیں۔ آج کے کالم کو صرف تمہید جانئے۔یہ کن وجوہ کی بنا پر لکھا گیا؟ کل پیش کروں گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved