دوست ناراض ہوں گے لیکن پھر کہتا ہوں کہ ایک نئی پارٹی۔ یا‘کپتان انقلاب سے پہلے اپنی پارٹی کے جرائم پیشہ لوگوں سے نمٹ کر دکھائے ؎
بدل دیا نہ اگر آدمی نے دنیا کو
تو جان لو کہ یہاں آدمی کی خیر نہیں
عسکری بجٹ میں اضافہ کیے بغیر چارہ بھی نہیں اور اضافہ ممکن بھی نہیں۔ ملک کا میزانیہ بھی گھر کی طرح ہوتا ہے۔ جتنی آمدن‘ اتنا خرچ۔ قرض لیا جا سکتا ہے‘ عامی تو کیا پیمبر لیا کرتے‘ مگر تابہ کے؟
سیدنا بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہ مدینہ کی وہ رات بہت ہی بھاری تھی۔ ایک یہودی سے سرکارؐ نے قرض لیا تھا اور بلالؓ کو رہن رکھ کر۔ بیچ میں شب تھی اور صبح اگر ادائیگی نہ ہوتی تو باقی زندگی اس کی غلامی میں گزرتی۔ کبھی وہ سوچتے کہ فرار ہو کر صحرا میں چلے جائیں مگر کیسے جا سکیں؟ سرکارؐ کو امتحان میں ڈال کر۔ پھر اپنے بخت پہ حیران کہ محمدﷺ کے طفیل جو آزادی ملی تھی‘ وہ اب تمام ہوتی ہے۔ کل سے پھر وہی سیاہ شب و روز۔ ایسا نہیں کہ رحمتِ تمامؐ کو یاد نہ دلایا ہو۔ سرگوشی کی تو ارشاد کیا کہ معاملہ نمٹا دیا جائے گا۔ کیسے؟ مگر کیسے؟ گھر کا چولہا نہ جلا تھا۔ اتنے بہت سے درہم و دینار کیسے فراہم ہوں گے۔
سحر ہوئی۔ ایک قافلہ اترا۔ مال و اسباب سے لدے اونٹ۔ بلالؓ کو بلایا گیا۔ فرمایا: لے جائو اور کچھ زیادہ اسے دینا کہ بہت دن اس نے انتظار کیا۔
اکرام الضیوف‘ مہمانوں کا احترام و اکرام۔ ارشاد کیا تھا: جو وقت ان کے ساتھ بسر ہو‘ وہ زندگی میں شمار نہ ہوگا۔ جو ان پر خرچ کیا جائے‘ اس کا حساب نہ لیا جائے گا۔
کتاب میں یہ لکھا تھا۔ فان مع العسر یسراً‘ ان مع العسر یسرا۔ بے شک‘ تنگ دستی کے ساتھ آسانی۔ بے شک تنگ
دستی کے ساتھ کشادگی۔ اللہ نے زندگی کو آزمائش کے لیے پیدا کیا ''تاکہ میں دیکھوں کہ تم میں سے کون حسنِ عمل پہ قائم ہوا‘‘ اصلِ اصول واضح کردیا تھا۔ معیشت میں اعتدال۔ اسراف اور نہ بخل۔ قرآن کریم کی اولین آیت سے آشکار کیا کہ ''وہ کتاب‘ جس میں شک کا رتی برابر بھی جواز نہیں‘ قندیل ان کے لیے بنے گی‘ جو بن دیکھے معبود پہ ایمان لاتے ہیں‘ کامل ایمان‘ نماز قائم کرتے ہیں اور جو رزق ہم نے دیا ہے‘ اس میں سے خرچ کرتے ہیں‘‘۔ دوسروں کو خوش دلی سے عطا کرتے ہیں۔ کہا: اسراف کار ابلیس ہے‘ فرمان یہ اترا کہ کھلے اور چھپے دن رات جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں‘ ان کا مقام و مرتبہ اولیا کے برابر ہے۔ لاخوف علیہم ولاھم یحزنون۔ غم اور خوف سے وہ آزاد کر دیئے جائیں گے‘ اسی دنیا میں۔ پوچھا: وہ کون سا دینار ہے‘ جو ہزاروں دینار پہ بھاری ہے۔ پھر ارشاد کیا: اگر کسی کے پاس دو دینار ہوں اور ان میں سے ایک عطیہ کردے۔
جہاد کی تیاری کے ہنگام سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لدے ہوئے اونٹ نذر کیے تو بشارت دی‘ آج کے بعد وہ کچھ بھی کریں‘ کوئی نقصان ہرگز نہیں پہنچے گا۔ وہ غنی کہلائے۔ ابدالآباد تک عثمان غنی! ہمیشہ کے فیاض اور جب رمضان المبارک کی اولین سویر جاگ اٹھتی تو آپؐ ہوا کی مانند سخاوت فرماتے۔ یہی ان کے ورثا کا شعار تھا۔ سیدنا امام حسنؓ تو ایسے تھے کہ سلطنت ہی بخش دی۔ امام حسینؓ کا طریق بھی تھا کہ کبھی کوئی خالی ہاتھ واپس نہ جاتا۔ سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے بتایا کہ جو بکرا ذبح کیا تھا‘ اس کا صرف ایک دست ہی بچ رہا ہے۔ فرمایا: نہیں‘ عائشہ‘ وہ بچ گیا (جو بانٹ دیا گیا)۔ امیر المومنینؓ فرمایا کرتے: سور کی ہڈی کی مانند دنیا
کوڑھیوں کے ہاتھ میں ہے۔ فرزند نے امیر معاویہؓ سے آ کر کچھ قبول کیا تو خلقِ خدا میں بانٹنے کے لیے‘ دو لاکھ دینار سالانہ۔
مدینہ منورہ پہ دولت ٹوٹ ٹوٹ کر برسنے لگی تو ایسا ایک وقت بھی آیا کہ سب کو بخش دینے کے باوجود بچ رہا۔ سیدنا علی ابن ابی طالبؓ کا مشورہ تو اب بھی یہی تھا کہ باقی ماندہ بھی بہا دیا جائے۔ بادل جس طرح کچھ بچا نہیں رکھتا۔ فاروق اعظمؓ نے مگر یہ سوال کیا: شاہانِ عجم ایسے میں کیا کرتے ہیں۔ پھر خزانے کی عمارت بنائی‘ کاغذ جلد کیے گئے‘ منشی مقرر ہوئے اور ایک ایک درہم کا حساب رقم ہونے لگا۔ ارشاد کیا: عراق کے دلدلی راستوں پر اگر کوئی خچر پھسل کے گر پڑا تو اندیشہ ہے کہ عمرؓ سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
اہرام مصر کے نواح میں فسطاط شہر سے ‘ جہاں بھاری بھر کم عمرو بن العاص براجمان تھے‘ ٹیکس کی جمع شدہ رقوم اکثر تاخیر سے موصول ہوتیں‘ ہر بار تخمینے سے کم۔ امیر المومنین تنبیہ کے خط لکھا کرتے۔ جواب میں مگر دیناروں کے تھیلے نہیں‘ دلائل کے انبار موصول ہوتے۔ ایک دن ناراضی سے لکھوایا: ہمیشہ تاخیر‘ ہمیشہ کم۔ جواب ملا: ''عمر! تم مجھے جانتے ہو‘ میں تمہیں جانتا ہوں‘ تم میرے باپ کو جانتے ہو‘ میں تمہارے باپ کو جانتا ہوں‘ مجھے اس طرح کے خط نہ لکھا کرو‘‘۔
کمال یہ ہے کہ اس شخص نے پھر کبھی نہ لکھا‘ جس کے رعب سے زمین کانپ اٹھتی تھی‘ اور منصب پہ باقی رکھا۔ دلیل یہ تھی کہ اہل مصر‘ صدیوں سے اہلِ روم کے غلام چلے آتے ہیں‘ بھوکے‘ ننگے‘ بیچارے‘ نیل میں طغیانی آ جائے تو چہار سمت بربادی۔ ان کا حق فائق ہے۔
ٹیکس میں نرمی کا سوال تھا ہی نہیں۔ ابوہریرہؓ غالباً بحرین سے آئے تو سب کچھ دھرا لیا کہ آپ اگر گورنر نہ ہوتے تو تحائف کہاں سے ملتے‘ کاروبار کیسے کر سکتے۔ عمرو بن العاصؓ کو عمر بھر ملال رہا کہ کاروبار کی اجازت ہی عطا نہ کی۔ گورنروں کے لیے حکم یہ تھا کہ دن کی روشنی میں جائیں۔ سبکدوشی کے بعد‘ دن کی روشنی میں واپس آئیں تاکہ ان کا مال و اسباب سب آنک لیں۔ ایک ذرا سی شکایت بھی ملتی تو فوراً طلب کیے جاتے۔ عدالتی امور میں وہ مداخلت کر سکتے اور نہ جنگی مہمات میں۔
ادھر اپنا حال یہ تھا: ایک بچی کو دیکھا تو کہا: جانی پہچانی سی شکل ہے‘ بتایا گیا: آپ کی پوتی ہے امیر المومنین‘ قحط کے مہ و سال نے چہرے کی زیبائی چھین لی۔ پانچ سال کا قحط۔ ایک ایک دن بِتانا مشکل تھا۔ لاکھوں ہی مر گئے ہوتے مگر ایک ایک کو بچا لیا گیا۔ ان کے پیشرو اقتدار کی صبح اپنی دکان کو روانہ ہوئے تو روک دیئے گئے کہ حاکم کو یہ زیبا نہیں۔ وظیفہ مقرر کرنے کا فیصلہ ہوا تو رسول اکرمؐ کے جانشین نے خود ہی طے کردیا: ایک عام مزدور کے برابر۔ فاروق اعظمؓ نے خاندان کو آزمائش میں ڈالے رکھا۔ عثمان غنیؓ کے پاس بہت تھا۔ شہادت سے قبل یہ فرمایا: عمر بھر اچھا کھایا‘ اچھا پہنا لیکن اب یہ دو بکریاں رہ گئیں۔ علیؓ تو بے نیاز ہی رہے‘ اب بھی ویسے ہی بے نیاز۔
بارہ سو برس بیت چکے تو ابراہام لنکن کو دیکھا گیا کہ اپنا جوتا خود پالش کرتے ہیں۔ جنرل منٹگمری ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہا کرتے۔ چرچل اور ڈیگال بھی رئیس نہ تھے۔ ادھر میاں محمد نواز شریف ہیں کہ سرمایہ کسی ایک مارکیٹ میں سما نہیں سکتا۔ وہی کیا‘ ان کے وزیر خزانہ کا۔ جناب زرداری کا اور چودھری نثار کے نزدیک مجرم اس کا دوست عمران خان ہے۔
ڈاکٹر شعیب سڈل نے صدر آصف علی زرداری سے کہا: دو ہزار ا رب کی جگہ‘ اگلے سال چار ہزار ارب لے لیجیے۔ صرف بیس پچیس آدمی گرفتار کرنا ہوں گے۔ نام سن کر وہ کانپ اٹھے۔
9فیصد ٹیکس وصول ہوتا ہے۔ کسی کا کاروبار مجروح کیے بغیر 18 فیصد آسانی سے ممکن ہے۔ ہر غریب کا چولہا روشن۔ ہر بچہ تعلیم یافتہ‘ ہر مریض کی دوا‘ ہر مفلس کو قبا۔ میاں محمد نوازشریف ہرگز نہ کریں گے اور نہ زرداری صاحب یا ان کے فرزند ارجمند۔ کپتان کر سکتا ہے‘ لیکن اس سے پہلے اپنی پارٹی میں احتساب اسے کرنا ہوگا۔
نہیں‘ جناب‘ ان کے بس کا نہیں۔ فوج کا بجٹ ہی کیا‘ پوری قوم کے مستقبل کا انحصار‘ ان سے نجات میں ہے۔
دوست ناراض ہوں گے لیکن پھر کہتا ہوں کہ ایک نئی پارٹی۔ یا‘کپتان انقلاب سے پہلے اپنی پارٹی کے جرائم پیشہ لوگوں سے نمٹ کر دکھائے ؎
بدل دیا نہ اگر آدمی نے دنیا کو
تو جان لو کہ یہاں آدمی کی خیر نہیں
پس تحریر: ڈاکٹر عمر سیف نے خود مان لیا کہ وہ نادرا کے چیئرمین بنائے جا رہے ہیں۔ انٹرویو سے پہلے ہی۔ اس کے بعد کیا عرض کیجیے؟ رہی ان کے والد گرامی کی پریشانی تو یہ ناچیز ان سے معافی کا خواستگار ہے۔ خود ڈاکٹر عمر سیف سے بھی۔ وہ بھی ازراہ کرم اس ملک کو اب معاف کردیں۔