تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     21-05-2014

مودی سرکار اور پاک بھارت تعلقات

بھارت کے حالیہ انتخابات میں بی جے پی کی بھاری اور واضح جیت کے بعد نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے امکانات نے جہاں اور بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے وہاں ایک یہ بھی ہے کہ اس کا پاک‘ بھارت تعلقات پر کیا اثر پڑے گا۔اگرچہ خارجہ پالیسی ان انتخابات میں کوئی بڑا ایشو نہیں تھا۔اس کے باوجود پاکستان میں اس بات کا بے چینی سے انتظار کیا جارہا ہے کہ نریندر مودی کی قیادت میں بھارتی حکومت پاکستان کے ساتھ تعلقات کے بارے میں کیا موقف اختیار کرتی ہے۔ وزیراعظم محمد نوازشریف کے مشیر برائے امورِ خارجہ سرتاج عزیز نے کچھ عرصہ پیشتر ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان، بھارت کی ہر حکومت کے ساتھ اچھے ہمسایوں جیسے تعلقات قائم کرنے کو تیار ہے اور نریندر مودی کے وزیراعظم بن جانے سے بھی پاکستان کا موقف تبدیل نہیں ہوگا۔اس طرح بھارت میں پاکستان کے ہائی کمشنر عبدالباسط نے بھی حال ہی میں ایک تقریر میں پاک‘ بھارت تعاون پر زور دیتے ہوئے امن کیلئے بات چیت کے سلسلے کو دوبارہ شروع کرنے پر زور دیا تھا۔اس کے باوجود پاکستان کے سرکاری اور غیر سرکاری حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے کہ مودی کی حکومت پاکستان کے بارے میں اور خصوصاً کشمیر اور دہشت گردی کے مسئلے پر سخت موقف اختیار کرے گی۔
نریندرمودی بھارت کے وزیراعظم اس وقت بنے ہیں جب پاک‘ بھارت تعلقات بحران کا شکار ہیں۔2008ء میں ممبئی میں دہشت گردی کے واقعات کے بعد دوڈھائی برس تک معطل رہنے والے امن مذاکرات جو2010ء میں بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ اور ان کے پاکستانی ہم منصب سید یوسف رضا گیلانی کی بھوٹان کے دارالحکومت تھمپو میں ملاقات کے بعد 2011ء میں دوبارہ شروع ہوئے تھے، گزشتہ سال کے اوائل سے اب تک معطل 
چلے آرہے ہیں۔اس تعطل کی وجہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر دونوں ملکوں کی سرحدی افواج کے درمیان آئے دن ہونے والی مسلح جھڑپیں ہیں۔کبھی کبھی یہ جھڑپیں شدید نوعیت اختیار کر جاتی ہیں جن کے نتیجے میں دونوں جانب جانی نقصان بھی ہوجاتا ہے ۔کچھ اس قسم کی صورتِ حال جنوری اور اگست2013ء میں پیدا ہوگئی تھی جب بھارت کے چند فوجی ان جھڑپوں میں ہلاک ہوگئے تھے۔بھارت میں ان ہلاکتوںپر خصوصاً میڈیا میں سخت احتجاج کیا گیا تھا۔ستمبر میں نریندر مودی کو بی جے پی نے 2014ء کے انتخابات میں وزارتِ عظمیٰ کیلئے اپنا امیدوار نامزد کیا۔یہ پوزیشن حاصل کرنے کے بعد مودی نے بھی اپنی آواز ان حلقوں کی آواز کے ساتھ ملا دی جو پاکستان کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کا مطالبہ کررہے تھے؛ بلکہ انتخابی مہم کے دوران میں مختلف مقامات پر جلسوں اور جلوسوں سے خطاب کرتے ہوئے اس مسئلے پر کانگرس کی سابق حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جو کہ ان کے بقول پاکستان کے بارے میں نرم رویہ اختیار کیے ہوئے تھی۔ لیکن مبصرین اور خود بی جے پی کے کلیدی حلقوں کا خیال ہے کہ بطور وزیراعظم نریندرمودی انتخابات کے دوران والے نریندرمودی سے مختلف ہوںگے اور پاکستان کے خلاف کسی محاذ آرائی اور مہم جوئی سے احتراز کریں گے۔ 
انتخابات کے فوراً بعد بی جے پی کے سینئر رہنمائوں اور خود نریندر مودی نے جو بیانات دیے ہیں ،ان سے بھی اس رائے کو تقویت ملتی ہے کہ مودی خارجہ پالیسی کے شعبے میں اور خصوصاً ہمسایہ ممالک جن میں پاکستان کے ساتھ چین بھی شامل ہے، پھونک پھونک کر قدم رکھیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر انہوں نے وعدے کے مطابق بھارت کو ترقی کے راستے پرگامزن کرنا ہے تو عالمی برادری خصوصاً ترقی یافتہ ممالک کی خیر سگالی جیتنا ہوگی۔ اہم ممالک‘ جن کے ساتھ بھارت کے قریبی تعلقات ہیں‘ مثلاً امریکہ،برطانیہ، روس،جاپان،یورپی یونین اور چین سمیت سبھی جنوبی ایشیا میں امن‘ استحکام اور تعاون چاہتے ہیں۔ان کا یہ بھی موقف ہے کہ خطے کا بڑا ملک ہونے کی حیثیت سے اس قسم کی فضا قائم کرنے کی سب سے زیادہ ذمہ داری بھارت پر عائد ہوتی ہے۔ اگرنریندر مودی کے بارے میں پائے جانے والے خدشات صحیح ثابت ہوتے ہیں اور پاکستان اور چین کے بارے میں جارحانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے تو اس کا فوری اور سب سے زیادہ نقصان جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام کو پہنچے گا اور غیر یقینی،عدم استحکام یا کشیدگی کی اس فضا میں بیرونی سرمایہ کاری جس کی شرح پہلے ہی کافی کم ہوچکی ہے، اور بھی نیچے گرجائے گی۔بھارت کے بارے میں مودی نے جو ویژن دیا ہے،اسے براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری کے بغیر حاصل نہیں کیاجاسکتا۔
مودی سرکار کی خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہونے والوںمیں صرف بیرونی عناصر ہی شامل نہیں،بلکہ اندرونی سطح پر بھی ایسے عوامل سرگرم ہیں جو مودی کو کسی بھی مہم جوئی سے بازرکھنے میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہوں گے۔ان میں بھارت کا خصوصاً کاروباری طبقہ قابل ذکر ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کی طرف سے بھارت کو ایم ایف این درجہ عطانہ کرنے کے باوجود گزشتہ دہائی میں دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ تجارت کے حجم میں پانچ،چھ گنا اضافہ ہوچکا ہے۔بھارت کے تاجر اور بزنس مین اس تجارت میں مزید اضافہ چاہتے ہیں؛ بلکہ صنعتکار پاکستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی کا اظہار کرچکے ہیں۔اس کیلئے دونوں ملکوں کے درمیان تاجروں، صنعتکاروں اور کاروباری لوگوں کے متعدد وفود کا تبادلہ ہوچکا ہے۔یہ وہ طبقہ ہے جو نریندرمودی کو بطور وزیراعظم آگے لایا ہے ۔بھارت کی معیشت بیرونی تجارت میں اضافے کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی۔ایک سروے کے مطابق بھارتی معیشت کی مجموعی پیداوار میں اضافہ 50فیصد تک برآمدات پر منحصر ہے۔اس لیے مودی کو سخت گیر مؤقف رکھنے والے لیڈر کی بجائے اپنے آپ کو ایک سافٹ امیج کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرنا ہوگا۔ ایسا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک نئی حکومت اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ صلح جویانہ رویہ اختیار نہ کرے۔
دوسرے ہمیں یہ بھی یادرکھنا چاہیے کہ مودی گجرات کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے علاقائی لیڈر تھے۔اب انتخابات میں کامیابی کے بعد وہ قومی لیڈر بن گئے ہیں۔قومی سطح پر پالیسی کے تقاضے، علاقائی سیاست سے مختلف ہوتے ہیں۔بھارت بڑا ملک ہی نہیں، بلکہ وفاقی ریاست بھی ہے۔ پورے ملک میں بھاری اکثریت کے ساتھ بی جے پی کی کامیابی کے باوجود بھارت کا تنوع (Diversity) ختم نہیں ہوا۔اب بھی بھارت کی سیاست میں میڈیا،سول سوسائٹی اور علاقائی پارٹیوں کی صورت میں ایسا نقطۂ نظر موجود ہے جو بی جے پی کے انتہا پسندانہ ہندو قوم پرستی کے نظریئے سے سخت اختلاف رکھتا ہے۔اندرونِ ملک ہی نہیں بلکہ خارجہ پالیسی کے شعبے میں بھی سیکولر اور جمہوری سوچ رکھنے والے یہ حلقے نریندرمودی کو کسی بھی مہم جو یا نہ اقدام سے بازرکھنے کی کوشش کریں گے۔
پاک۔بھارت تعلقات میں بہتری بلکہ دوطرفہ تنازعات کے حل کے حوالے سے مودی کی بھاری اکثریت سے کامیابی کا مثبت پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ دونوں ملکوں کے درمیان عرصہ دراز سے چلے آنے والے پیچیدہ اور مشکل مسائل کیلئے جن جرأت مندانہ اقدام کی ضرورت ہے وہ پاکستان اور بھارت میں سیاسی طور پر مضبوط حکومتیں ہی کر سکتی ہیں۔ڈاکٹر منموہن سنگھ کیلئے ایسا موقع موجود تھا لیکن لوک سبھا میں کمزور حیثیت کی وجہ سے وہ اس سے فائدہ نہ اٹھاسکے۔اس قسم کی صورت حال کا پاکستان میں پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت کو بھی سامنا تھا۔دونوں حکومتیں مخلوط تھیں اور اپنی بقا کیلئے دوسری پارٹیوں کی دست نگر تھیں۔اس لیے پاکستان میں زرداری اورہندوستان میں ڈاکٹر من موہن سنگھ کی حکومتیں دونوں ملکوں کے تعلقات میں نئی تاریخ رقم کرنے کیلئے کوئی فیصلہ کن قدم نہ اٹھا سکیں۔ لیکن اس وقت صورت حال مختلف بلکہ حوصلہ افزا ہے۔ پاکستان میں وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کی پارٹی کو قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل ہے اور وہ اپنی بقا کیلئے کسی دوسری پارٹی کی محتاج نہیں۔اس طرح بھارت میں مودی مضبوط حکومت بنانے جا رہے ہیں۔ دونوں کیلئے موقع ہے کہ وہ خطے میں دیرپا اور مستقل امن کیلئے باہمی اختلافات اور تنازعات کے حل کی جانب جرأت مندانہ قدم اٹھائیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved