تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     21-05-2014

ایک معاشرتی المیہ

خواتین سے زبردستی زیادتی ظالمانہ ،وحشیانہ اور انسانیت سوز عمل ہے اور اس میں ملوث لوگ انتہائی سفاک اور بے رحم ہوتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں ایسے واقعات آئے روز رونما ہوتے رہتے ہیں ۔ان واقعات کے نتیجے میں معاشرے میں خوف و ہراس پھیلتا ہے اور والدین اپنی بچیوں کے مستقبل کے بارے میں بے یقینی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔دیہی یاقبائلی علاقوں میں اگر کوئی اس طرح کا واقعہ رونما ہو جائے تو پورے علاقے کی خواتین کی جائز معاشرتی سرگرمیاں بھی خطرے میں پڑ جاتی ہیں ۔ان واقعات کے نتیجے میں کئی مرتبہ دشمنیوں کا بھی آغاز ہو جاتاہے ۔ کئی مرتبہ زیادتی کی وارداتوں میں ملوث لوگوںکے خاندانوں کی لڑکیوں کو انتقام کا نشانہ بننا پڑتا ہے ۔ ان تمام واقعات کے نتیجے میں معاشرے میں فساد اور انتشار کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔
کچھ عرصہ پہلے بھارت میں گینگ ریپ کا ایک واقعہ ہوا جس پر بھارت کے سیاسی و سماجی حلقوں نے بھرپور احتجاج کیا اور بی جے پی کی سینئر لیڈر ڈاکٹر سشما سوراج نے گینگ ریپ کے مرتکب ملزموں کے لیے سزائے موت کا مطالبہ کیا تاکہ اس قسم کے مجرموں کو معاشرے میں نشان عبرت بنادیا جائے اور آئندہ کسی شخص کو بھی اس طرح کا کام کرنے کی جرأت نہ ہو۔اگر سیکولر ازم یا ہندومت کے علمبردار اپنے معاشرے میں ان جرائم کی روک تھام کے لیے کڑی سزائیں تجویز کرسکتے ہیں تو پاکستان جیسے اسلامی ملک میں ایسے مجرموں کو کیوں کڑی سزائیں نہیں دی جاسکتیں۔
گینگ ریپ (اجتماعی زیادتی ) معاشرے میں موجود تشدد کی کیفیت کو واضح کر تا ہے۔ ہمارا معاشرہ بالعموم تشدد کی لپیٹ میں ہے اورلوگ بہت سے معاملات میں جارحانہ رویوںکا مظاہرہ کرتے ہیں۔اس تشدد اور جارحیت کی بنیادی وجوہ درج ذیل ہیں۔
1۔ گھریلو تشدد اور خلفشار:بچے والدین کو گھروںمیں لڑتے اور الجھتے ہوئے دیکھتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی نفسیات پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیںاور وہ دوسرے بچوں کے ساتھ تشدد اور جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ منفی رویے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پختہ ہوتے رہتے ہیں اور انسان اعتدال اور سمجھ داری کا راستہ چھوڑ کر جارحیت ،ظلم اور نفس پرستی کا خو گر ہو جاتا ہے چنانچہ اس قسم کے لوگ اجتماعی زیادتی کے جرائم میں بھی ملوث ہوجاتے ہیں ۔2۔ملازموں اور ماتحتوں کے ساتھ تشدد : کئی لوگ اپنے ملازموں اور ماتحتوں کے ساتھ بھی پُر تشدد رویہ اپناتے ہیں ۔ غریب آدمی گھر چلانے کے لیے ظلم و ستم سہنے پر مجبور رہتے ہیں۔ ان کے پاس ایسا پلیٹ فارم یا راستہ نہیں ہوتا جس کے ذریعے وہ ان مظالم کے خلاف آوازاُٹھا سکیں ۔بہت سی لڑکیاں اس تشدد کے دوران عزت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں ۔ کیس کے رپورٹ ہونے کی صورت میں عام طور پراس قسم کی لڑکیوں پر بدچلنی کا الزام لگا دیا جاتا ہے ۔بسا اوقات تشدد کے دوران ملازم اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔عام طور پر اس قسم کے مظالم کا ازالہ نہیں ہوتا اور امیر لوگ اپنے سرمائے اور اثرورسوخ کی وجہ سے قانون کی گرفت سے بچ نکلتے ہیں ۔ ملازموں پر تشدد کرنے والے لوگوں کی بے رحمی میں جہاںبتدریج اضافہ ہوتا ہے ،وہیں اس ماحول میں پرورش پانے والے بچوں کی نفسیات میں بھی جبر اور تشدد پیدا ہو جاتا ہے ۔ ایسے بچے بڑے ہو کر طبقاتی تقسیم کی وجہ سے غریب لوگوں سے نفرت کرتے ہیں اورغریب لوگوں کی آبرو ریزی کے واقعات میں بھی ملوث ہو جاتے ہیں ۔3۔جاگیر دارانہ ظلم و بربریت: ہمارے ملک کے بہت سے حصوں میں جاگیر دارانہ ظلم و بربریت پورے عروج پرہے ۔بہت سے علاقوں میں بڑے جاگیر داروںاور زمینداروں کی زور آوری کی کیفیت یہ ہے کہ پولیس بھی ان کے معاملات میں مداخلت کرنے سے گھبراتی اور کتراتی ہے۔جاگیر دار کئی مرتبہ غریب مزدوروں اور کسانوں کی خواتین کو زیادتی کانشانہ بناتے ہیں لیکن کوئی ان کو روکنے اور ٹوکنے والا نہیں ہوتا۔ اگر اس ظلم کے خلاف لڑکی کے لواحقین آواز اُٹھاتے ہیں تو ان کو انتقام کا نشانہ بننا پڑتا ہے ۔احتجاج کو جاگیر دار کے خلاف سازش تصور کیا جاتا ہے ۔ظلم اور بربریت کے اس ماحول میں پلنے والے بچوں کی نفسیات مسخ ہو جاتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ بچے سنگین نوعیت کے اخلاقی جرائم میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ اس کے بالمقابل اللہ سے ڈرنے اور انسانیت کا درد رکھنے والے جاگیرداروں اور زمینداروں کے رویوں کی وجہ سے پورا علاقہ امن و سکون کا گہوارا بن جاتا ہے ۔4۔جعلی پیروں اور عاملوںکے مظالم :ہمارے ملک میںجعلی پیر اورعاملین کی بڑی تعداد موجود ہے یہ جعلی پیراور عامل جہاں لوگوں کے مال بٹور لیتے ہیں وہیں اپنے مریدوں کی عورتوں کی آبروریزی سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ ان پیروں کا اثرورسوخ علاقہ کے سیاستدان اور پولیس کو بھی قانون کے نفاذ سے روکے رکھتا ہے ۔ان جعلی پیروں کے حاشیہ بردار اور چیلے چانٹے بھی گھناؤنے اخلاقی جرائم کی ترویج میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں ۔5۔پر تشدد فلمیں :ہمارے معاشرے میں نوجوانوں کی بڑی تعداد فارغ وقت میں پر تشدد فلمیں دیکھتی ہے۔ ان پُرتشدد فلموں کو دیکھ کر نوجوانوں میں بھی تشدد پسندانہ رجحانات پیدا ہوتے ہیں اور وہ پُر تشدد سرگرمیوں میں لطف محسوس کرتے ہیں ۔کئی مرتبہ نوجوان اکٹھے بیٹھ کر اس طرح کی فلمیں دیکھتے ہیں اور بعد ازاں مل جل کر منفی پروگرام مرتب کرتے ہیں ۔ تشدد کے علاوہ ہمارے معاشرے میں جنسی جذبات کو فروغ دینے والے اسباب بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں جن میں چند اہم درج ذیل ہیں ۔
1۔فحش فلموں اور لٹریچر کا پھیلاؤ:انٹر نیٹ اور کیبل نیٹ ورکس کے پھیلاؤسے معاشرے میں فحش فلموں اور لٹریچر کو بھی فروغ حاصل ہوا ہے ۔گندا مواد پڑھنے اور دیکھنے کی وجہ سے نوجوانوں کی سیرت اور کردار مسخ ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے جذبات کی تسکین کے لیے منفی راستوں کو اختیارکرتے ہیں۔اس قسم کے نوجوان کئی مرتبہ معصوم بچوں اور کئی مرتبہ اپنے دوستوں کے ہمراہ اجتماعی آبروریزی کے واقعات میں ملوث ہو جاتے ہیں۔2۔لڑکے لڑکیوں کے ناجائز سماجی رابطے: سماجی رابطوں کی ویب سائٹس اور موبائل فون کے وسیع پیمانے پر استعمال نے لڑکے اور لڑکیوں کے ناجائز سماجی رابطوں کو بہت آسان بنا دیا ہے۔ والدین عام طورپر اپنی اولاد کے معمولات اور مشاغل سے ناواقف ہوتے ہیں۔ وہ عام طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا بچہ کمپیوٹر پر پڑھنے میں مصروف ہے جبکہ بچہ لڑکیوں سے تعلقات استوار کرنے میں مشغول ہوتا ہے۔ ان رابطوں کے نتیجوں میں ملاقاتیں اور بعد ازاں یہ ملاقاتیں تعلقات تک جا پہنچتی ہیں۔ ان ناجائز تعلقات کے نتیجے میں کئی مرتبہ اجتماعی زیادتی کے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں ۔3۔تعلیمی اور پیشہ ورانہ اداروں میں جنسی ہراسیت :بہت سے تعلیمی اور پیشہ ور اداروں میں مرد اپنے ہمراہ کام کرنے والی اورماتحت عورتوں کو جنسی ہراسیت کا نشانہ بناتے ہیں ۔تعلیم حاصل کرنے والی اور اپنی معیشت کی گاڑی کو کھینچنے والی یہ عورتیں اپنی مجبوری اور عزت کی وجہ سے چپ سادھ لیتی ہیں،جس کی وجہ سے منفی سوچ رکھنے والے عناصرکی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ۔جنسی ہراسیت کا نشانہ بننے والی بہت سی عورتیں اپنی عزت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں ۔
ان تمام اسباب کی موجودگی میں گینگ ریپ پر قابو پانے کے لیے تین اہم تدابیر اختیار کرنا انتہائی ضروری ہے ۔سب سے پہلے تو اسلامی تعلیمات اور طرززندگی کو فروغ حاصل ہونا چاہیے۔ اگر پردے داری کو فروغ حاصل ہو اور اخلاط کی حوصلہ شکنی ہو تو عورتوں کی عزتیں محفوظ ہو سکتی ہیں ۔دوسری ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے کہ اپنی اولادوں کے معمولات پر گہری نظر رکھیںاور تیسری اور حتمی ذمہ داری حکومتوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ ان وارداتوں میں ملوث مجرموں کو کڑی اور عبرت ناک سزائیں دیں تاکہ آئندہ کسی کو ایسا کرنے کی جرأت نہ ہو ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved