خبریں تو بہت ہیں لیکن صرف دو تین ہی شرمسار کرنے کے لیے کافی ہیں ( جس کی امید نہیں)۔ پہلی خبر کے مطابق 13 مئی کو حکومت نے خدا خدا کر کے سٹیل مل کے پہلے بیل آئوٹ پیکیج کے لیے 18 ارب روپے کی منظوری دے دی ، جس کے مطا بق مل کے ہزاروں ملازمین کی فروری اور مارچ کی تنخواہوں کی ادائیگیوں کے لیے چار ارب بیس کروڑ روپے کی پہلی قسط اگلے ہفتے انتظامیہ کے حوالے کر دی جائے گی ۔۔۔۔دوسری خبر کے مطا بق رحیم یار خان میں ایک شخص نے روٹی کھلانے کے لیے آٹا مانگنے پر بیوی کے بازو اور ٹانگیں توڑ دیں ۔جواب میں بیوی کے بھائیوں نے اس کی آنکھ نکال دی۔ اس شخص کو گزشتہ ماہ کی تنخواہ ابھی نہیں ملی تھی جس سے گھر میں فاقوں کی نوبت آ گئی تھی۔ بیوی بھوک سے چیختے چلاتے بچوں کی آوازیں برداشت نہ کرتے ہوئے خاوند سے، کہیں سے آٹا لانے کے لیے جھگڑنے لگی۔خاوند نے بیوی کی چیخ وپکار کے طعنوں پرطیش میں آ کر اُسے ڈنڈے سے اس وحشیانہ طریقے سے پیٹا کہ اس کی دونوں ٹانگیں اور بازو جگہ جگہ سے ٹوٹ گئے اور وہ ہمیشہ کے لیے معذورہو گئی۔ جواب میں بیوی کے بھائیوں نے اس کی ایک آنکھ نکال دی۔ سٹیل مل کراچی کے ہزاروں ملازمین کو فروری سے اپریل تک کی تین ماہ کی ابھی تک تنخواہیں فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے ادا نہیں کی گئیں۔ اگر بیل آئوٹ پیکیج کی پہلی قسط اگلے ہفتے مل گئی تو امید ہے کہ انہیں 25 مئی تک فروری اور مارچ کی تنخواہیں ادا کر دی جائیں گی۔ تیسری خبر یہ ہے کہ فیصل آباد کے محلہ رسول پورہ کے تنویر نے بھائی کی تنخواہ میں سے دو سو روپے خود رکھ لیے،جس پر ماں نے اُسے ڈانٹا اور دو سو روپے واپس کرنے کا کہا تو اس نے غصے میں آ کر ماں اور بہن کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔
رحیم یارخان کے مزدور بشیر احمد کے گھر میں صرف ایک ماہ کی تنخواہ نہ ملنے پر فاقوں سے روتے پیٹتے سات بچوں کی ماں مٹھی بھر آٹا مانگنے کے جرم میں ہمیشہ کے لیے معذور کر دی گئی۔اگر ہم دوسروں کے دُکھ اور تکلیف کا احساس کرنے سے عاری نہیں، تو تھوڑی دیر کے لیے سوچیں کہ جس کے بازو اور ٹانگوں کی ہڈیاں چورا کر دی گئی ہوں وہ کس قسم کی تکلیف سے گزر رہا ہوگا اور اس خاتون کا جرم کیا تھا؟ وہ اپنے بھوک سے بے تاب چھوٹے چھوٹے بچوں کے لیے '' مدر ڈے‘‘ کی مناسبت سے تھوڑے سے آٹے کا تقاضا کر رہی تھی ۔۔۔۔۔مل کے ملازمین کی وہ ہزاروں مائیں جن کے گھروں میں تین ماہ سے تنخواہیں نہیں پہنچیں وہ کس کرب اور مصیبت سے گزر رہی ہوں گی۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کا اندازہ نہ مجھے ہے نہ ان لاکھوں گھرانوں کو جو ہزاروں روپے صرف ایک وقت کے کھانوں پر لٹانے کے لیے رحیم یار خان اور کراچی کے بڑے
بڑے ہوٹلوں اور ریستورانوں میں جانے کے عادی ہیں، نہ ہی بڑے بڑے فارم ہائوسوں میں پر تعیش دعوتیں دینے والوں کو اور نہ ہی ہمارے کسی ایک حکمران کو۔تھوڑی دیر کے لیے ہی سوچئے کہ اگر مل کے تین ہزار ملازمین فرض کر لیے جائیں تو تین ہزار مائیں بچوں کی فاقہ کشی کو کس طرح برداشت کررہی ہوں گی؟ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ کراچی اور رحیم یار خان کے حالات زندگی میں بہت فرق ہے۔اگر تین ہزار مائوں کے بچے سکول جاتے ہیں تو ان کی فیسوںاور کتابوں کے اخراجات کیسے پورے ہوتے ہوں گے؟ اگر ان میں سے کسی گھرانے میں کوئی بیمار پڑ جائے تو اس کا علاج کیسے ہوتا ہو گا؟ اگر کسی کے کپڑے بوسیدہ ہونے پر پھٹ گئے ہوں گے تو اسے کیا پہناتے ہوں گے؟ یہ تین ہزار گھرانے ہر ماہ اپنے بجلی،پانی اور گیس کے بل کس طرح ادا کرتے ہوں گے؟۔ عابد شیر علی صاحب آپ یہ تو کہہ دیتے ہیں کہ کراچی کے لوگ بجلی کے بل ادا نہیں کرتے لیکن جناب والا آپ ان کی ہر ماہ کی مزدوری کی ادائیگی کیوں نہیں کرتے؟ قصور وار آپ ہیں یا وہ؟ بجلی چور وہ ہیں جنہیں تین تین ماہ کی تنخواہیں نہیں دی جاتیں یا وہ جو انہیں تین تین ماہ کی تنخواہیں ادا نہیں کرتے؟ذرا سوچئے کہ جس گھرانے کو تین ماہ تک تنخواہ نہیں ملتی اگر اس دوران کسی ایسے گھر میں کوئی انتقال کر جائے اسے کہاں اور کس طرح دفنایا گیا ہو گا؟ میں یہ سوالات خود سے اور آپ سے بھی کر رہا ہوں اس لیے کہ ہم میں سے ہو سکتا ہے کہ کسی ایک کا دل ان کی حالت زار کے بارے میں سوچ کر لمحہ بھرکے لیے بھر آئے۔ اب کون نہیں جانتا کہ کراچی میں کوئی قبر پچیس ہزار روپے سے کم میں بنتی ہی نہیں۔ اوپر سے یہ '' بیوقوف‘‘ لوگ ضد کرنے لگتے ہیں کہ مرنے والے کا گھر چونکہ کراچی میں ہے۔ اس کے بیوی بچے، بھائی بہن، ماں باپ سب کراچی میں رہتے ہیںاس لیے ہم اسے کراچی سے کہاں لے کر جائیں۔ ان نادانوں کو سمجھایا جاتا ہے کہ دیکھو لاش کا کوئی وطن نہیں ہوتا ۔اسے جہاں دفنا دو گے،جہاں بہا دو گے یا جہاں دبا دو گے جہاں پھینک دو گے وہی اس کا وطن ہے،لیکن یہ لوگ اتنی سی بات بھی سمجھتے ہی نہیں۔
مسلم لیگ نواز کی حکومت آنے سے پہلے پاکستان میں ہر طرف غریبوں کی بھر مار تھی جو موجو دہ حکمرانوں کے دلوں کو
انتخابات سے پہلے سخت پریشان کر رہی تھی ۔اپنے اقتدار کی مدت کا ایک سال پورا ہونے سے چند دن پہلے انہوں نے پاکستان سے غربت کا خاتمہ کرنے کا سنہری کارنامہ سر انجام دے دیا۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بزعم خویش غربت کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے حکم جاری کیا ہے کہ1.65 ڈالر روزانہ کمانے والے کی بجائے اب2 ڈالر ( دوسو روپے) روزانہ کمانے والوں کو غریب شمار کیا جائے۔ یہ خوش خبری سن کر یقیناآپ سب خوش ہو گئے ہوں گے کہ اﷲ نے ہمیں کتنے انسان دوست حاکم '' عطا‘‘ کر دیے ہیں جنہوں نے غربت کا خاتمہ کرتے ہوئے اب چھ ہزار سے ایک سوروپے زائد ماہانہ کمانے والوں کو غریبوں کی بد بو دار گلیوں سے نکال کر امراء کی صف میںملا دیا ہے۔ اگر لوگ عوامی حکومت کے اس کارنامے پر بھی خوش نہیں ہو رہے تو ان کی مرضی۔ آپ خود ہی سوچئے کہ اگر مزدوروں، چوکیدار وں، خاکروبوںاور کلرکوں کا شمار امرا میں شمار ہونے لگے تو اس سے زیا دہ ان سب کی عزت افزائی اور کیا ہو سکتی ہے۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی طرف سے 6ہزار روپے ماہانہ کمانے والے کو غربت کی فہرست سے نکال کر امیروں میں شامل کئے جانے والے سنہری اعلانات پر ہی شاید یورپ کے ایک دانشور نے کہا تھا: مدبر سیاستدان، بھیڑوں کی اون اتار کر کام میں لاتے ہیں لیکن ہمارے سیاستدان اون کے ساتھ کھال بھی اتار لیتے ہیں۔ پاکستانی وہی بھیڑیں ہیں جن کی اون کے ساتھ ساتھ کھال بھی اتاری جا رہی ہے...!