تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     22-05-2014

پاک چین دوستی (آخری قسط)

پاکستان کی طرف سے چین کے ساتھ جو تعاون کیا گیا اور اسے کئی حساس معاملات میں بروقت مدد دی‘ اس کی تفصیل کالم میں نہیں دی جا سکتی۔ لیکن چینی بطور قوم ہمارے اس تعاون کو ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔ ان کے تصور دفاع میں ‘ پاکستان کی پوزیشن انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔ ایک چیز کا ذکر کالم میں کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان اور چین نے مل کر‘ ایک اتنا بڑا فیصلہ آسانی سے کر ڈالا‘ جس کے لئے عالمی جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی تھی۔ روس نے افغانستان میں قدم رکھا تو ساری دنیا میں کہرام مچ گیا کہ ''ریچھ گرم پانیوں کی طرف پیش قدمی کر رہا ہے۔‘‘ جنرل ضیا نے یہی سودا بیچ کر ‘ امریکہ اور یورپ سے بھاری اسلحہ اور دولت حاصل کی۔ کبھی آپ نے غور کیا؟ جن گرم پانیوں تک پہنچنے کے لئے‘ روسیوں نے جنگ کا خطرہ مول لیا اور برسوں تک بھاری نقصانات برداشت کرتے رہے‘ پاکستان نے وہ کام بڑے سبک طریقے سے کر دیا۔ گرم پانیوں کی اہمیت چین کے لئے روس سے بھی زیادہ تھی۔ ہم نے گوادر پورٹ پر چین کواتنی صفائی سے رسائی دی کہ دنیا میں کسی نے بھی اس طرف دھیان نہیں دیا۔ صرف امریکہ اضطراب کا شکار ہے اور درپردہ سرگرمیوں کے ذریعے مسلسل اس کوشش میں ہے کہ گوادر کا منصوبہ پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکے اور چین کو وہ سہولتیں نہ ملیں‘ جو وہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ 
چینی ہمیں مسلسل یہ مشورے دیتے رہے کہ ہم شور مچائے بغیر‘ خاموشی سے گوادر کو ترقی دیتے رہیں۔ جب وہ مکمل طور پہ ایک جدید پورٹ صورت میں کام کرنے لگے اور اس کے لئے درکار انفراسٹرکچر مکمل ہو جائے تو دنیا کو خود پتہ چل جائے گا اور اس وقت تک یہ بات کسی کے اختیار میں نہیں رہے گی کہ گوادر پراجیکٹ کو ناکام بنایا جا سکے۔ پاکستانی حکومتوں نے سستی شہرت کے لئے انتہائی سٹریٹیجک اہمیت کے حامل‘ اس منصوبے کے چرچے کر دیئے۔ یہ سب کی نظر میں آ چکا ہے۔ جب سے دوسرے مرحلے کی تعمیروترقی کی تیاری شروع ہوئی ہے‘ امریکہ تیزی سے بلوچستان میں سرگرم ہو گیا ہے اور وہاں امن و امان کی صورت حال اس قدر خراب کر دی ہے کہ وہاں ترقیاتی کام کرنا دشوار ہو گیا۔ چینی ‘ دفاع کے معاملے میںانتہائی حساس ہیں۔ ہمارے سیاسی عدم استحکام اور بیرونی پالیسیوں میں غیریقینی صورت حال پر‘ وہ بھروسہ کرنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ وہ اپنے مزاج اور روایات کے مطابق متبادلات کی تلاش میں رہتے ہیں۔ چین کو معلوم ہے کہ امریکہ آسانی سے گوادر پورٹ کے فوائد حاصل نہیں کرنے دے گا۔ کئی برسوں سے درپردہ ایک عظیم منصوبے پر کام ہو رہا ہے‘ جس کے تحت چین ایک عظیم اکنامک بیلٹ تیار کرے گا‘ جسے ''نیومیری ٹائم سلک روڈ‘‘ کہا جائے گا۔ یہ بیلٹ کی شکل میں بنائی گئی‘ ایک بری اور آبی شاہراہ ہو گی‘ جو تکمیل کے بعد دنیا کا جغرافیائی ہی نہیں معاشی اور تہذیبی نقشہ بھی بدل کے رکھ دے گی۔ اس منصوبے کی ابتدا ایک سپرہائی وے سے ہو گی جو چین کے پاکستان سے ملحقہ صوبے سنکیانگ کے شہر‘ ارمچی سے شروع ہو کر وسطی ایشیا کی طرف جائے گی۔ قازقستان میں داخل ہو کر شمالی ایران میں داخل ہو گی۔ آگے ایران‘ شام اور ترکی سے گزرتے ہوئے‘ استنبول سے باسفورس پہنچے گی۔ یہاں سے بحری سلک روڈ بن جائے گی اور بلغاریہ‘ رومانیہ‘ چیک ری پبلک اور جرمنی سے گزرتی ہوئی روٹرڈیم (ہالینڈ) سے ہوتے ہوئے جنوب میں وینس پہنچے گی‘ جو کہ اٹلی کا بے مثال سمندری شہر ہے۔ اٹلی سے یہ بحری شاہراہ کی صورت اختیار کر لے گی۔ 
چین کے صوبے کونگ ڈانگ سے‘ نئی سلک روڈ کی تعمیر مشرق کی جانب شروع ہو گی اور چین کے مختلف علاقوں سے گزرتی ہوئی‘ آبنائے ملاکا میں داخل ہو گی۔ اس سے آگے یہ بحری سلک روڈ کوالالمپور سے کولکتہ پہنچے گی اور بحرہند کو پار کرتے ہوئے نیروبی تک جائے گی۔ راستے میں سری لنکا آتا ہے‘ لیکن اسے آبی شاہراہ سے منسلک نہیں کیا گیا۔ آبی شاہراہ‘ نیروبی سے افریقی ساحل کے ساتھ ساتھ بحیرہ احمر سے گزرتی ہوئی‘ بحیرہ روم میں داخل ہو جائے گی اور یونان سے وینس کے مقام پر‘ بری شاہراہ میں بدل جائے گی۔ بری اور آبی شاہراہیں مل کر‘ تین براعظموںکو ملا دیں گی۔ رابطوں کے اس طویل سلسلے میں چین کی حیثیت ''وسطی سلطنت ‘‘ کی طرح ہو جائے گی۔ چین تجارت و تہذیب و تمدن کا مرکز بن جائے گا۔ عظیم سلک روڈ‘ جہاں سے بھی گزرے گی‘ وہاں تعمیرو ترقی اور تجارتی مراکز کی ایک نئی دنیا آباد ہو جائے گی۔ اس شاہراہ سے ملحق تمام علاقے اکنامک کوآپریشن کا خطہ بن جائیں گے۔ بحرالکاہل سے بالٹک تک تعمیروترقی کی ایک ایسی لہر اٹھے گی جس کے اثرات‘ عظیم سلک روڈ کے دونوں اطراف میں سینکڑوں میل تک پھیلیں گے۔ پوری شاہراہ پر واقع ملکوں میں‘ چین نئے صنعتی شہر تعمیر کرے گا‘ مقامی آبادیوں کو جدید ہنرمندیاں سکھائے گا اور مقامی سرمایہ داروں کو صنعتیں قائم کرنے میں مدد دے گا۔ اس نیٹ ورک میں سرمایہ داری کا ایک نیا نظام جنم لے گا۔ مختلف کرنسیوں میں باہمی لین دین کے لئے کوئی نئی کرنسی ایجاد ہو گی‘ جو عظیم سلک روڈ پر واقع ملکوں میں مقامی کرنسیوں کے ساتھ لین دین میں کام آئے گی۔ یہ ایسی کرنسی ہو گی جو عظیم شاہراہ کی تعمیر کے بعد‘ وقت کے ساتھ ساتھ‘ وجود میں آنے والے ‘ نئے معاشی نظام کو مربوط کرے گی۔ سلک روڈ نہ صرف معاشی رابطوں کو پھیلا کر ایک نئی مارکیٹ پیدا کرے گی‘ اس کے ذریعے منسلک ہونے والے ملکوں کے مابین مشترکہ مفادات اور انحصار باہمی کے نئے رشتوں کو جنم دے گی۔ چینیوں نے عالمی معیشت کی تعمیرنو کے لئے‘ جدیدتصورات کی نئی دنیا تعمیر کرنے کے ان گنت منصوبے بنا رکھے ہیں۔ چین ‘ شاہراہ سے منسلک تمام ملکوں کے ساتھ دو طرفہ تہذیبی اور تجارتی رشتے بھی استوار کرے گا اور مختلف خطوں کے علاقائی بلاک بھی قائم ہوں گے۔ نئی دنیا کو ریڑھ کی ہڈی چین فراہم کرے گا اور پھر اس کے گردجو مختلف ''اجسام ‘‘تشکیل پائیں گے‘ وہ چینی فلسفے اور تصورحیات کے ساتھ نئے رشتے پیدا کریں گے۔ آپ نے غور کیا ہو گا کہ اس عظیم اور تاریخ کو نیا رخ دینے والے منصوبے بلکہ منصوبوں کے سلسلہ ہائے دراز سے‘ امن اور خوشحالی کے نئے راستے دریافت ہوں گے۔ جغرافیائی فتوحات قصہ پارینہ بن جائیں گی۔ نئے رشتوں پر مبنی نئی دنیا وجود میں آنے لگے گی۔ 
میں نہیں جانتا کہ چین کا یہ عظیم منصوبہ جس کی پہلی کڑی پاکستان کو ہونا چاہیے تھا‘ رخ کیوں بدل گیا؟چینی ایک اپنا ورلڈویو رکھتے ہیں۔ طویل مدتی منصوبہ بندیاں کرتے ہیں۔ جو کام انہیںبیس پچیس برس کے بعد کرنا ہوتا ہے‘ اس کی تیاری پہلے سے شروع کر دیتے ہیں۔ مثلاً چینیوں نے رواں صدی کے لئے اپنے جو سنگ میل بنا رکھے ہیں‘ ان کے مطابق وہ اگلے 10برس کے اندر اپنی معیشت کو سائز میں ‘ دنیا میں سب سے اوپر لے جائیں گے۔ لیکن انہیں معلوم ہے کہ صرف معیشت کے سائز میں سب سے اوپر ہو جانے کا مطلب‘ جی ڈی پی میں اضافہ نہیں۔ چین سب سے بڑی معیشت کے ساتھ جی ڈی پی میں کئی ملکوں سے پیچھے رہے گا اور ان کے منصوبے کے مطابق عام آدمی کی خوشحالی کا دور 2050ء سے پہلے پہلے شروع ہو جائے گا۔ 2050ء کے اندر چین اپنے مفادات کو سرحدوں کے باہر پھیلانا شروع کر دے گا۔ لیکن ایسا جارحیت کے ذریعے نہیں‘ معاشی اور تہذیبی ساجھے داریوں کے ذریعے کیا جائے گا۔آنے والی اس دنیا میں ہم کہاں کھڑے ہوں گے؟ مجھے یقین ہے کہ چین نے پاکستان سے مایوس ہو کر‘ عظیم سلک روڈ کے نقشے سے پاکستان کو باہر نہیں کیا۔ اگر پاکستان گوادر کے منصوبے کو چینیوں کے مشورے کے مطابق ‘ شور مچائے بغیر مکمل کر لیتا تو سلک روڈ ‘ارمچی سے پہلے پاکستان اور پھر ایران میں داخل ہوتی اور آگے کا منصوبہ وہی ہوتا‘ جس کا میں تذکرہ کر چکا ہوں۔ چینی اپنے کام جذبات سے نہیں کرتے۔ ٹھہرائو اور تدبر‘ ان کا بنیادی وصف ہے۔میں آج بھی یہ سمجھتا ہوں کہ کسی نہ کسی وقت آگے چل کرچین تعمیروترقی کے اس عظیم منصوبے میں پاکستان کو شامل ضرور کرے گا۔ صرف چند سو میل کی نئی سڑک بنا کرہم ایران سے عظیم سلک روڈ تک جا سکتے ہیں۔چین نے یقینا اس کی گنجائش رکھی ہو گی۔ پاکستان‘ چینیوں کی نظر میں‘ ان کے ملک کی سلامتی کا حصہ ہے۔ جنرل حمید گل بتاتے ہیں کہ ایک بار انہوں نے چین کے سینئر ترین دفاعی ماہر سے پوچھا تھا کہ پاک چین دوستی پر ہم کتنا اعتماد کر سکتے ہیں؟ اس نے جواب دیاہم ابھی اپنی سرحدوں سے باہر کوئی کردار ادا کرنے کو تیار نہیں۔ اگر آپ کے لئے خطرات پیدا ہوئے‘ تو ہم ہر ممکن کوشش کر کے آپ کو ان سے بچائیں گے۔ لیکن اپنے وجود کی حفاظت آپ کو خود کرنا ہو گی۔ ہم پاکستان کو اپنے تصوردفاع سے الگ نہیں کر سکتے۔ دفاعی اعتبار سے چین کے دو بازو ہیں۔ جب ہم بحرہند اور بحرالکاہل کی طرف دیکھتے ہیں تو بحرہند کی طرف پاکستان ہمارا دایاں بازو ہے اور بحرالکاہل کی طرف کوریا بائیں بازو کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہمیں اپنے دونوں بازو عزیز ہیں۔ ہم کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان دونوں میں سے کوئی بازو بھی کمزور پڑے۔ چینیوں کی نظریں آنے والی صدیوں کے اندر جھانک لیتی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم خود اپنے پائوں پر کلہاڑی نہ ماریں تو چین کی دوستی ہمارے دفاع کا بنیادی پتھر ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved