تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     22-05-2014

دیوانِ منصور

کیا دیوانِ منصور کی اشاعت ادب کے آسمان پر ایک ستارے کی نمود ہے؟ کون جانتا ہے‘ کون کہہ سکتا ہے۔ ہم ایک عجیب دنیا میں بستے ہیں۔ 
منصور آفاق سرتاپا شاعر ہے۔ اندر باہر‘ ظاہر باطن‘ شاعر ہی شاعر۔ وہ دورِ جاہلیت کے عرب شعرا کی یاد دلاتا لیکن بیچ میں حضرت سلطان باہوؒ کھڑے ہیں۔ ہم اسے مدحتِ سرکارؐ میں دیکھتے ہیں۔ گمان یہ ہے‘ دعا اور امید یہ ہے کہ رحمت اللعالمینؐ کے نور کی ایک کرن امتی پر اتر آئی ہو۔ 
فیض احمد فیضؔ کے نقال احمد فراز کو بہت سے لوگ عظیم شاعر تسلیم کرتے ہیں‘ حتیٰ کہ منصور آفاق بھی۔ اظہار الحق حتیٰ کہ ظفر اقبال کو اس سے کم پڑھا جاتا ہے۔ کیا یہ ماتم کی جا نہیں کہ خورشید رضوی کے قاری کم ہیں۔ آدمی حیران رہ جاتا ہے کہ مجید امجد سے کتنے کم لوگ آشنا ہیں۔ یاللعجب! میر تقی میر کو پڑھنے والے بھی کم ہیں۔ 
ابھی ابھی کتاب چھپ کر آئی ہے۔ انتخاب نہیں ''دیوانِ منصور‘‘ کے پہلے پانچ اوراق سے جلدی میں چنے گئے یہ چند شعر ہیں۔ 
جتنے موتی گرے آنکھ سے جتنا تیرا خسارا ہوا 
دست بستہ تجھے کہہ رہے ہیں وہ سارا ہمارا ہوا 
آگرا زندہ شمشان میں لکڑیوں کا دھواں دیکھ کر 
اک مسافر پرندہ کئی سرد راتوں کا مارا ہوا 
ہم نے دیکھا اسے بہتے سپنے کے عرشے پہ کچھ دیر تک 
پھر اچانک چہکتے سمندر کا خالی کنارا ہوا 
جا رہا ہے یونہی بس یونہی منزلیں پشت پر باندھ کر 
اک سفر زاد اپنے ہی نقشِ قدم پر اتارا ہوا 
زندگی اک جُوا خانہ ہے جس کی فٹ پاتھ پر اپنا دل 
اک پرانا جواری مسلسل کئی دن کا ہارا ہوا 
٭٭٭ 
دہکتے ہونٹ اسے چھونے کو مچلتے تھے 
سیہ گلابوں کی جیسی ہے قسم ایسا تھا 
کسی کا پائوں اٹھا رہ گیا کسی کا ہاتھ 
تمام شہر تھا ساکت‘ طلسم ایسا تھا 
٭٭٭ 
نگار خانے سے اس نے بھی رنگ لینے تھے 
مجھے بھی شام کا کچھ اہتمام کرنا تھا 
اسے بھی عارض و لب کے دیئے جلانے تھے 
مجھے بھی چاند سے کوئی کلام کرنا تھا 
مراقبہ کسی بگلے کا دیکھنا تھا مجھے 
کنارِ آبِ رواں کچھ خرام کرنا تھا 
گلی کے لڑکوں کو سچائیاں بتانی تھیں 
کوئی چراغ اندھیروں میں عام کرنا تھا 
یہ کیا کہ بہتا چلا جا رہا ہوں گلیوں میں 
کہیں تو غم کا مجھے اختتام کرنا تھا 
٭٭٭ 
یہ الگ اس مرتبہ بھی پشت پر خنجر لگا 
یہ الگ پھر زخم پچھلے زخم کے اندر لگا 
مجھ سے لپٹی جا رہی ہے اک حسیں آکاس بیل 
یاد کے برسوں پرانے پیڑ کو کینسر لگا 
بند کر دے روشنی کا آخری امکان بھی 
روزنِ دیوار کو مٹی سے بھر‘ پتھر لگا 
کیا بلندی بخش دی بس ایک لمحے نے اسے 
جیسے ہی سجدے سے اٹھا‘ آسماں سے سر لگا 
٭٭٭ 
ہم میں رہتا ہے کوئی شخص ہمارے جیسا 
آئینہ دیکھیں تو لگتا ہے تمہارے جیسا 
بجھ بجھا جاتا ہے یہ بجھتی ہوئی رات کے ساتھ 
دل ہمارا بھی ہے قسمت کے ستارے جیسا 
شام کا وقت فقط بھاری نہیں ہے ہم پر 
پھول کا چہرہ بھی ہے درد کے مارے جیسا 
لے گئی ساتھ اڑا کر جسے ساحل کی ہوا 
ایک دن تھا کسی بچے کے غبارے جیسا 
شکر ہے ہم نے کما لی تھی اداسی ورنہ 
ہے محبت میں منافع تو خسارے جیسا 
کشتیاں بیچ میں چلتی ہی نہیں ہیں منصور 
اک تعلق ہے کنارے سے کنارے جیسا 
٭٭٭ 
پابجولاں کیا مرا سورج گیا تھا 
صبح کے ماتھے پہ آ کر سج گیا تھا 
کوئی آیا تھا مجھے ملنے ملانے 
شہر اپنے آپ ہی سج دھج گیا تھا 
٭٭٭ 
میں ایک شیش محل میں قیام کرتے ہوئے 
کسی فقیر کی کٹیا کے خار و خس میں رہا 
سمندروں کے اُدھر بھی تری حکومت تھی 
سمندروں کے اِدھر بھی میں تیرے بس میں رہا 
کسی کے لمس کی آتی ہے ایک شب جس میں 
کئی برس میں مسلسل اسی برس میں رہا 
٭٭٭ 
موجوں کے آس پاس کوئی گھر بنا لیا 
بچے نے اپنے خواب کا منظر بنا لیا 
ہر شام بامِ دل پہ فروزاں کیے چراغ 
اپنا مزار اپنے ہی اندر بنا لیا 
پیچھے جو چل دیا مرے سائے کی شکل میں 
میں نے اُس ایک فرد کو لشکر بنا لیا 
شاید ہر اک جبیں کا مقدر ہے بندگی 
مسجد اگر گرائی تو مندر بنا لیا 
کھینچی پلک پلک کے برش سے سیہ لکیر 
اک دوپہر میں رات کا منظر بنا لیا 
پھر عرصۂ دراز گزارا اسی کے بیچ 
اک واہموں کا جال سا اکثر بنا لیا 
بس ایک بازگشت سنی ہے تمام عمر 
اپنا دماغ گنبدِ بے در بنا لیا 
باہر نکل رہے ہیں ستم کی سرنگ سے 
لوگوں نے اپنا راستہ مل کر بنا لیا 
منصور جس کی خاک میں افلاک دفن ہیں 
دل نے اسی دیار کو دلبر بنا لیا 
٭٭٭ 
اس جانمازِ خاک کے اوپر بنا ہوا 
ہوتا تھا آسماں کا کوئی در بنا ہوا 
دیوار بڑھ رہی ہے مسلسل مری طرف 
اور ہے وبالِ دوش مرا سر بنا ہوا 
آگے نہ جا کہ دل کا بھروسہ نہیں کوئی 
اس وقت بھی ہے غم کا سمندر بنا ہوا 
ممکن ہے کوئی جنتِ فرضی کہیں پہ ہو 
دیکھا نہیں ہے شہر ہوا پر بنا ہوا 
ہر لمحہ ہو رہا ہے کوئی اجنبی نزول 
لگتا ہے آسماں کا ہوں دلبر بنا ہوا 
یادوں کے سبز لان میں پھولوں کے اس طرف 
اب بھی ہے آبشار کا منظر بنا ہوا 
کیا دیوانِ منصور کی اشاعت ادب کے آسمان پر ایک ستارے کی نمود ہے؟ کون جانتا ہے‘ کون کہہ سکتا ہے۔ ہم ایک عجیب دنیا میں بستے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved