قانونِ فطرت سے مراد سبب اور مُسَبَّب، علّت اور معلول کا وہ مربوط نظام ہے، جس کے تحت اشیاء پیدا ہوتی ہیں، ارتقاپاتی ہیں اور فنا ہوتی ہیں، انگریزی میں اسےCause & Effectسے تعبیر کرتے ہیں، بعض اوقات قدرت کوبھی فطرت کے معنی میں استعمال کیا جاتاہے، حالانکہ قدرت کا حقیقی معنی فطرت سے مختلف ہے۔ ''قانونِ فطرت‘‘ کو ہم قدرت کا ''تکوینی نظام‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔
معروف سکالر جناب سرسید احمد خان ''قانونِ فطرت ‘‘ کو حاکم، فائق ، غیر مُتَبَدِّل (Unchangeable)قرار دیتے ہیں، یعنی قوانینِ فطرت میں تبدیلی ممکن نہیں ہے اور اسی اصول کے تحت وہ انبیائِ کرام علیہم السلام کے ان تمام معجزات کی، جو ''قوانینِ فطرت‘‘کے مطابق نہیں ہیں، دوراَزکارتاویلات کرتے ہیں اور اُمّت میں توارث وتواتر کے ساتھ ان کا جو مفہوم یا تعبیر چلی آرہی ہے اس کو یکسر رد کردیتے ہیں ، یعنی قوانینِ فطرت تو بدل نہیں سکتے، لہٰذا جو عقیدہ، نظریہ اور اصول، خواہ وہ قرآن وسنت کے دلائلِ قطعیہ صحیحہ سے بھی ثابت ہو،اگر وہ قوانینِ فطرت کے خلاف ہے، تو اُسے رَدّ کردیا جائے گا، اسی بنا پر انہوں نے ''معراجِ جسمانی‘‘ کا انکار کیا اور لکھا:''معراج کے متعلق جس قدر حدیثیں ہیں ،اُن میں آنحضرت ﷺ کا بجسدہٖ جبریل کا ہاتھ پکڑ کر خواہ براق پر سوار ہوکر یا پرند جانور کے گھونسلے میں بیٹھ کر جو درخت میں لٹکاہواتھا، بیت المقدس تک جانا اوروہاں سے بجسدہٖ آسمانوں پر تشریف لے جانا یا بذریعہ ایک سیڑھی کے ،جو آسمانوں تک لگی ہوئی تھی، چڑھ جانا،خلافِ قانونِ فطرت ہے اوراس لئے مُمتنعاتِ عقلی(محالِ عقلی) میں داخل ہے۔ اگرہم اُن کے راویوں کو ثِقہ اورمعتبر تصور کرلیں توبھی یہ قرار پائے گا کہ اُن کو اصل مطلب کے سمجھنے اور بیان کرنے میں غلطی ہوئی ۔
واقعات خلافِ قانون فطرت کے وقوع کا ثبوت اگرگواہانِ رُؤیت بھی گواہی دیں تو مَحالات سے ہے، اس لئے کہ اُس وقت دو دلیلیں جوایک ہی حیثیت پر مبنی ہیں، سامنے ہوتی ہیں :ایک قانونِ فطرت، جوہزاروں لاکھوں تجربوں سے جَیْلاً بعدَجیلٍ( یعنی نسل در نسل) وزماناً بعدَ زمانٍ(یعنی ہر زمانے میں) ثابت ہے اور ایک گواہانِ رُؤیت ،جن کا عادل ہونا بھی تجربہ سے ثابت ہواہے ۔پس اس کا تصفیہ کرنا ہوتا ہے کہ دونوں تجربوں میں کون سا تجربہ ترجیح کے قابل ہے :قانونِ فطرت کو غلط سمجھنا یا راوی کی سمجھ اوربیان میں سہو وغلطی کاہونا ۔کوئی ذی عقل توقانونِ فطرت پر راوی کے بیان کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ قولِ پیغمبر بلاحجت قابلِ تسلیم ہے ،مگر کلام تو اسی میں ہے کہ قول پیغمبر ہے یا نہیں ۔
اب ہم غور کرتے ہیں احادیثِ معراج پر، جن میں صاف پایاجاتاہے کہ وہ ایک واقعہ ہے جوسوتے میں آنحضرتﷺ نے دیکھاتھااور دلالت النّص سے بھی پایاجاتا ہے اورصحاح کی کسی حدیث سے نہیں پایاجاتاکہ حا لتِ بیداری میں آپ نے دیکھا اوربجسدہٖ آپ بیت المقدس اورآسمانوں پر تشریف لے گئے، بلکہ برخلاف اس کے چند حدیثوں میں سونے کی حالت پائی جاتی ہے، توہمارا اورہرذی عقل کا بلکہ ہرمسلمان کا فرض ہے کہ اُس کو ایک واقعہ خواب کا تسلیم کرے اور ابن رُشد کے قول کو صحیح سمجھے کہ اگر نقل میں کوئی بات خلافِ عقل معلوم ہوتی ہے، توخود نقل اوراُس کے مَاسَبَقَ ومالَحِقَ(یعنی سیاق وسباق، Context) پر غور کرنے سے وہ مخالفت دورہوجاتی ہے نہ یہ کہ تاویل بعیدہ اوررکیکہ(یعنی ناقابلِ یقین اور کمزور تاویلات) اوردلائل فرضی دوراَز کار سے اُس کوایسا واقعہ بنادے ،جوحقیقت کے بھی ایساہی مخالف ہوجیساکہ عقل، کے اور مذہب اسلام کی بنیادِ مستحکم کو توڑ کر ریت پر بلکہ پانی پر اُس کی بنیاد رکھے‘‘(تفسیرالقرآن، جلد:2،ص:122-123)۔
اپنے اسی اصول کے تحت جناب سر سید احمد خان نے قرآن کریم میں بیان کردہ''کلمات اللہ‘‘اور ''سنت اللہ‘‘ کے کلمات کو قانونِ فطرت قرار دیا ہے، حالانکہ قرآن مجید میں یونس:64، الاحزاب: 62اور بنی اسرائیل:77میں ان کا سیاق وسباق بالکل مختلف ہے ۔ اپنے اسی اصول کے تحت وہ معجزاتِ انبیاء کا انکار کرتے ہیں ، چنانچہ وہ لکھتے ہیں :''ان تمام سندوں سے ثابت ہے کہ حضرت مسیح کے زمانہ کے سب لوگ اور خود حواری بھی جانتے تھے اور یقین کرتے تھے کہ حضرت عیسیٰ اپنے باپ یوسف کے تخم سے پیدا ہوئے ہیں نہ کہ بغیر باپ کے ، مگر وہ حضرت مسیح کو خدا کا بیٹا روحانی اعتبار سے کہتے تھے اسی خیال سے جس سے کہ یونانی اپنے ہاں کے بزرگوں کو خدا کا بیٹا کہتے تھے، وہ مزید لکھتے ہیں:قرآن میں کہیں نہیں بیان ہوا کہ وہ بِن باپ کے پیدا ہوئے‘‘(تفسیر القرآن جلد:2،ص:24-25)۔
ان کا حوصلہ اس قدر بڑھا کہ اﷲ کی قدرت کو بھی ''قانونِ فطرت‘‘ کے تابع قرار دے دیا، چنانچہ انہوں نے لکھا:''لفظِ ''کُنْ فَیَکُوْن‘‘ جو سورۂ آل عمران میں ہے، وہ کسی امر کے ہونے پر بلا اسباب قدرتی وفطرتی کے دلالت نہیں کرتا، کیونکہ ہر شئے کے ہونے کو خدا اسی طرح فرماتا ہے''اِذَا اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْن ‘‘پس ہر شئے ''کُنْ‘‘ کے حکم سے ہمیشہ قانون قدرت اورقاعدہ فطرت کے مطابق ہوتی ہے، پس یہ الفاظ کسی طرح اس بات پر کہ حضرت مسیح کی ولادت فی الفور بلا قاعدہ فطرت اور بغیر باپ کے ہوئی تھی دلالت نہیں کرتے‘‘ (تفسیر القرآن، جلد:2،ص:28)۔
وہ قرآن کو بھی ''انسانی کلام‘‘ کے مثل تصور کرتے ہیں، وہ لکھتے ہیں:''قرآن مجید بلاشبہ کلام اللہ ہے، مگر انسانوں کی زبان اور انسانوں کے کلام کے طرز پر، پس اس کلام کو مثل ایک انسان کے کلام کے تصور کرناچاہئے اور اس سے معانی ومطالب واحکام ومقاصد اخذ کرنے اور اس سے دلیلیں قائم کرنے میں اس کو انسان کے کلام سے زیادہ کچھ رتبہ نہیں دینا چاہئے‘‘(تفسیر القرآن ، جلد:1،ص:122)۔
ہم قدرت کے تکوینی نظام میں قانونِ قدرت کو مؤثر مانتے ہیں، لیکن جمہورِ اُمّت کا اجماعی عقیدہ یہ ہے کہ قادرِ مطلق قانونِ قدرت کا اور فَاطِرُالسَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ (آسمانوں اور زمین کا پیداکرنے والا) قانون ِ فطرت کا پابند نہیں ہے۔ وہ جب چاہتا ہے قوانینِ فطرت کے برخلاف اور اس سے ماورااپنی قدرت کا ظہور فرما دیتا ہے اور اپنے ارادے اور مشیت کو نافذ کردیتا ہے اور معجزاتِ انبیائِ کرام علیہم السلام اسی کا مظہر ہیں۔مثلاً: عامِ قانونِ قدرت یہ ہے کہ ماں باپ یا مرد وزن کے اختلاط سے نسل انسانی کے توالد وتناسل کی سنتِ الٰہیہ جاری وساری ہے ، لیکن اس نے حضرت حوّا کو کسی عورت کے واسطے کے بغیر، حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام کوکسی مرد کے واسطے کے بغیر اور حضرت آدم علیہ السلام کو دونوں واسطوں کے بغیر پیدا کرکے یہ بتا دیا اس کی قدرت، اسباب وعِلَل اور قوانینِ فطرت کی محتاج نہیں ہے ، بلکہ قوانینِ فطرت اس کی مشیت کے تابع ہیں ،وہ قوانینِ فطرت کا خالق ہے مگرقوانینِ فطرت کا پابند نہیں ہے، ورنہ اس کا مجبور ہونا لازم آئے گا اور جو مجبور ہو وہ خدا نہیں ہوسکتا ؛ چنانچہ ارشاد فرمایا:''بے شک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی طرح ہے،اس کو مٹی سے بنایا، پھر اس سے فرمایا ہوجا ، سو وہ ہوگیا‘‘(آل عمران:59)۔ مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں:''یہ وہ زمانہ ہے جب سر سید مرحوم مغربی نظریات سے مرعوبیت کے سبب قرآنِ مجید کی من مانی تاویلات کررہے تھے اور مسلمانوں کا وہ طبقہ جو انگریزوں اور انگریزوں کے لائے افکار ونظریات سے مرعوب تھا ، بُری طرح اِن من مانی تاویلات کا شکار ہورہا تھا‘‘۔
''معراج النبیﷺ‘‘ کے موضوع پر کالم لکھتے ہوئے جب میں نے جناب سرسید احمد خان کے مذہبی افکار کا مطالعہ کیا تو پتا چلا کہ وہ نہ صرف یہ کہ معجزات کے منکر ہیں ، بلکہ امّت کے مسلّمہ عقائد ونظریات سے کافی حدتک منحرف ہیں ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام اور اپنے عہد کے تقاضوں کے مطابق مسلمانوں میں انگریزی اور جدید علوم کے فروغ کے حوالے سے انہوں نے جو کام کیا، وہ قابلِ تحسین ہے اور اس کے نتیجے میں مسلمانوں میں ایسی افرادی قوت تیار ہوئی جو جدیددور کے تقاضوں کے مطابق نظام کو چلانے کے قابل بنی ، لیکن ہر شخص کا حُسن وقُبح اور خوبی وخامی اپنی اپنی جگہ ہوتی ہے، نہ کوئی خیر کُل ہوتاہے اور نہ شرِّمحض، وقت کی میزان سب کا مقام خود متعین کردیتی ہے۔