تاریخ میں پہلی مرتبہ ‘آزاد بھارت اورپاکستان میں جنم لینے والے ‘ وزرائے اعظم برسراقتدار آئے ہیں۔ نوازشریف اور نریندر مودی‘ دونوں آزادی کے بعد پیدا ہوئے۔ غلامی کی تاریخ ‘ان کے لئے صرف کتابوں اور بزرگوں کی کہانیوں میں ہے۔ عملاً نہ انہوں نے غلامی کا دور دیکھا‘ نہ وہ کشمکش دیکھی‘ جس کے نتیجے میں برصغیر تقسیم ہوا اور نہ ہی اس تاریخی خونریزی کا مشاہدہ کیا‘ جس میں سے گزر کے‘ دونوں قوموں نے آزاد زندگی کا آغاز کیا۔گویا اقتدار پہلی مرتبہ غلامی کے دور میں پروان چڑھنے والی نسل سے‘ آزادی کے دور میں پیدا ہونے والی نسل کو منتقل ہوا۔ اس تبدیلی کا پہلا فرق مودی کے وزیراعظم نامزد ہوتے ہی‘ سامنے آ گیا۔ اتفاق دیکھئے کہ 21ویں صدی میں نوازشریف نے بھی وزیراعظم نامزد ہوتے ہی‘ خواہش ظاہر کی کہ بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ ان کی تقریب حلف برداری میں شریک ہوں۔ بھارتی وزیراعظم یہ دعوت قبول نہ کر سکے۔ان کا ماضی زنجیر بن گیا۔ خیرسگالی کے جس جذبے کے تحت‘ نوازشریف نے‘ بھارتی وزیراعظم کو دعوت دینے کا فیصلہ کیا تھا‘ اسے آگے بڑھانے میں ناکام رہے۔ ہمارے ریاستی ڈھانچے نے جن حالات میں نشوونما پائی تھی‘ ان کے اندر‘ طاقت کے کئی مراکز پیدا ہو چکے تھے۔ وہ ان کی مزاحمت پر غالب نہ آ سکے۔
نریندر مودی نے بھی نوازشریف ہی کی طرح‘ پارلیمنٹ میں وزیراعظم نامزد ہوتے ہی ‘ سارک ممالک کے رہنمائوں کو اپنی حلف برداری کی تقریب میں مدعو کر لیا۔ ''اکنامک ٹائمز آف انڈیا‘‘ کے مطابق مودی نے بھی یہ فیصلہ‘ کسی سے پوچھے بغیر‘ خود کیا ہے۔ نہ پارٹی سے منظوری لی گئی اور نہ ہی وزارت خارجہ سے پوچھا گیا۔ یہاں وضاحت کرتا چلوں کہ سارک تنظیم کے ارکان کی تعداد اب 7سے بڑھ کر 8 ہو چکی ہے۔ نیا شامل ہونے والا ملک افغانستان ہے۔ مودی کو اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کے لیے مکمل اختیارات حاصل ہوں گے۔ آزادی کے بعد‘ بھارت میں جو ریاستی تشکیلات ہوئی ہیں یا اداروں نے جس طرح نشوونما پائی ہے‘ اس میں ہر ادارے کو وہ اختیارات مکمل طور سے حاصل ہوتے ہیں‘ جو آئین نے انہیں تفویض کر رکھے ہیں۔ منموہن سنگھ اپنی ناقص حکومتی کارکردگی کی وجہ سے‘ اپوزیشن کے شدید دبائو میں آ چکے تھے۔ انہیں نوازشریف کی دعوت قبول کرنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ مودی کو ایسی کوئی مجبوری نہیں ہے۔ وہ اپنے فیصلے پر آزادی سے عمل کریں گے۔ پاکستانی ریاست کے اندر اداروں کی نشوونمامیں رکاوٹیں پڑتی رہیں۔ وہ اپنی کارکردگی میںغلامانہ اثرات سے باہر نہیں نکل پائے۔ اس لئے نوازشریف مشاورت کے بعد ہی دعوت قبول کر سکیں گے۔ اگر انہیں کسی اور کو نامزد کرنا پڑا‘ تو بدقسمتی کی بات ہو گی۔ جنوبی ایشیا میں مودی کا دور شروع ہو گیا ہے۔ وہ اپنی تہذیب وتاریخ سے جڑے ہوئے ہیں۔ نئے دور کے تقاضوں سے واقف ہی نہیں‘ بلکہ بطور سیاستدان ‘وہ نئے تقاضوں کی پیداوار ہیں۔ کانگریسی قیادت ہمیشہ متذبذب رہی۔ نہ وہ نظریاتی طور پہ واضح تھی اور نہ ہی اپنے سیاسی نظریات کو ‘ اپنی تہذیب اور تاریخ سے جوڑنے میں کامیاب ہو سکی۔ معاشرہ مذہبی مزاج کا تھا اور لیڈرشپ مغرب زدہ سیکولرمزاج کی۔ ان تضادات کا تصادم‘ کانگریسی
قیادت کوعوام کے تاریخی اور روحانی تصورات سے ہم آہنگ نہ کر پایا۔ کانگریسی قیادت باطنی کشمکش کی وجہ سے عوام کے ساتھ قومی آرزوئوں اور خو ابوں سے ہم آہنگ نہ ہو سکی۔ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے‘ کانگریس نے صنعت و معیشت کو بہت ترقی دی۔ اس کی معاشی پالیسیاں بھی بری نہیں تھیں۔ یہ انہی کا نتیجہ ہے کہ آج بھارت میں دنیا کا سب سے بڑا متوسط طبقہ تیار ہو چکا ہے۔ کثرت آبادی کی وجہ سے غریبوں کی حالت نہیں بدلی۔ ممکنہ حد تک ان کی زندگی میں بھی تھوڑی بہت تبدیلی آ گئی ہے۔ عجیب بات ہے کہ جو متوسط طبقہ کانگریس نے بڑی محنت سے تیار کیا‘ اسی نے حالیہ انتخابات میں کانگریس کو شکست دلانے میں نمایاںکردار ادا کیا۔کانگریس والے بہت تعلیم یافتہ اور سمجھ دار لوگ ہیں۔ یقینا وہ شکست کے اسباب کا جائزہ لیتے ہوئے‘ یہ بھی دیکھیں گے کہ جس طبقے کو‘ طاقت اور تقویت دے کر انہوں نے معاشرے کا معاشی انجن بنایا‘ وہی ان کے زوال کا سبب کیوں بن گیا؟ مودی‘ کانگریس کے 67سالہ دور میں ترقی کی موجودہ منز ل تک پہنچانے والے تاریخی عمل کا ڈرائیور کیوں بن گیا؟ اوراس کا سیدھا سا جواب دو نعروں میں موجود ہے‘ جنہیں دونوں ہاتھوں پر رکھ کر مودی نے تاریخی انتخابی مہم چلائی۔ اس کی پارٹی بی جے پی پر روایت پسندی اور مذہبیت کی گہری چھاپ تھی۔ اگر پارٹی اپنے نام پر ووٹ مانگتی‘ تو نہیں جیت سکتی تھی۔ وہ بھی اپنے دور اقتدار میں عوام کی تائید و حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی۔ بی جے پی کو انتخابی مہم میں اپنے ماضی کا حساب دینا پڑتا۔ وہ بہت ہی شاطر اور انسانی نفسیات کا ماہر شخص یا گروپ تھا‘ جس نے اس باریکی کو سمجھا اور کانگریس کی شکست کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس نے انتخابی علامت کے طور پر مودی کے نام اور تصویر کو سب سے نمایاں رکھا۔ بی جے پی کا نام بھی پس منظر میں چلا گیا اور پرانے چہرے بھی۔ کارکردگی کے لئے اس نے گجرات میں اپنے دور اقتدار کی مثالیں پیش کیں‘ جو بھارت کی دیگر صوبائی حکومتوں میں دوسروں سے بہتر تھیں۔ کرپشن کو ٹارگٹ کیا‘ جس سے مڈل کلاس تنگ آ چکی تھی اور اپنے آپ کو قیادت کے لئے پیش کیا اور پوری انتخابی مہم کے دوران حریفوں پر اتنے شدید حملے کئے کہ وہ گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کے سانحے کا فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے۔ان کی سیاسی نشوونما ‘ آر ایس ایس اور جن سنگھ کے سائے میں ہوئی ہے۔یہ جماعت ہندوازم کی اجتماعی‘ نسلی اور تمدنی تمنائوں کی ترجمان ہے۔ مودی اپنی عملی سیاست میں آر ایس ایس کی جدید پروڈکٹ ہیں۔ اپنی اس شناخت پر وہ فخر کرتے ہیں۔ انتخابی کامیابی حاصل کرنے کے بعد‘ انہوں نے آر ایس ایس کے ساتھ اپنے رشتے کی گہرائی کا ثبوت بنارس جا کر فراہم کیا۔ وہ کاشی وشواناتھ مندر میں پوجا کے لئے گئے اور گنگا کے کنارے پر آرتی اتاری۔ یہ پہلا موقع تھا کہ بھارت کے کسی وزیراعظم نے عوام کے ہجوم اور ٹیلیویژن کیمروں کے سامنے جا کر یہ مذہبی رسومات ادا کیں۔ کانگریس کے جتنے ہندو وزرائے اعظم آئے‘ وہ عملی زندگی میں بے شک پوجا کرتے رہے‘ لیکن اپنی سیاسی اور سرکاری حیثیت کے ساتھ حقیقی روپ میں سامنے آنے سے گریز کرتے رہے۔ میں نے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ مودی کے دور میں بھارت ہندو جمہوریہ بن جائے گا۔ اس میں کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ بھارت ہندو جمہوریہ پہلے ہی دن سے ہے اور اسی طرح کی جمہوریہ ہے‘ جیسے پاکستان اسلامی جمہوریہ کہلاتا ہے۔ برصغیر میں اسلام اور ہندوازم دونوں ہی اقتدار میں آنے کے مذہبی راستے ہیں۔ ضروری نہیں کہ پنڈت اور ملا‘ دانستہ اقتدار کی سیاست میں حصہ لیں۔ ایسا کر بھی لیں‘ تو یقینی کامیابی نہیں ملتی۔ ان کی طاقت ‘ان رسومات میں ہے‘ جنہیں مذہبی تقدس کا درجہ دیا جا چکا ہے۔ یہ دونوں طبقے ‘ مذہبی تمدن اور رسومات کی طاقت استعمال کرتے ہوئے‘ معاشرتی حیثیت حاصل کرتے ہیں اور اس کے بعد گاڈفادر بن کر‘ پس چلمن حکومت کرتے ہیں۔ مذہب کے نام پر یہ دونوں طبقے معاشرے میں بالادستی حاصل کر لیتے ہیں۔ پاکستان میں ہم نے بہت پہلے اپنے ملک کو اسلامی جمہوریہ پاکستان قرار دے کر ملائوں کی بالادستی مان لی تھی۔ میں نہیں جانتا کہ بھارت میں پنڈت کی بالادستی قائم ہونے کا رسمی اعلان کب ہو گا؟ لیکن عملی طور پر بھارت اب ہندو جمہوریہ میں بدلنا شروع ہو جائے گا۔ آر ایس ایس‘ ہمارے ملائوں کی طرح پس پردہ رہ کر حکومت کرے گی۔ جس طرح یہاں ملا حضرات‘ براہ راست حکومتی عہدے حاصل کر لیتے ہیں‘ بھارت میں بھی ایسا ہو جائے گا اور یہ جو کچھ ہو گا برصغیر کے مخصوص حالات کے تاریخی جبر کے تحت ہو گا۔
ہم نے مسلمانوں کی اکثریتی طاقت کے تحت جو نظام تشکیل دیا ہے‘ اس میں حکومتی احکامات سے زیادہ ملائوں کے احکامات موثر ثابت ہوتے ہیں۔ بھارتی پنڈت کویہ سہولت میسر نہیں تھی۔ بی جے پی کی گزشتہ حکومت چلانے والے لیڈروں نے بھی‘ پنڈت یعنی آر ایس ایس کو کھل کھیلنے کے مواقع نہیں دیئے تھے۔ مگر اب اسے یہ مواقع حاصل ہونے لگیں گے۔ اس عمل کے دوران بہت بڑے پیمانے پر سماجی اتھل پتھل دیکھنے میں آئے گی۔ مسلمانوں میں ہندو انتہاپسندوں کا خوف اور ہندوئوں میں ہندوتوا کی جیت سے پیدا ہونے والا تکبر‘ کیا نتائج پیدا کرتے ہیں؟ ان کے بارے میں صرف اندازے لگانا ہی ممکن ہے۔ لیکن بھارت کے سرمایہ دار طبقے نے‘ متوسط طبقے کی طاقت اور میڈیا کو استعمال کر کے‘ جس طرح بی جے پی کو اقتدار دلایا ہے‘ وہ مذہبی انتہاپسندی کو تخریبی اور منفی طاقت بننے کی اجازت نہیں دے گا۔ بھارتی سرمایہ دار ‘ پنڈت اور ملا کو قابو میں رکھنے کے دیرینہ طور طریقے مدتوں سے جانتے ہیں۔ ہمارے نو دولتیے اور ناجائز ذرائع سے سماجی بالادستی حاصل کرنے والے طبقے‘ بھارتی سماج میں آنے والی تبدیلیوں سے بہت کچھ سیکھیں گے۔ میں نے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ مودی کے دو چہرے ہوں گے۔ ایک چہرہ بھارت کے اندر‘ جس سے ہمیں کوئی غرض نہیں رکھنا چاہیے اور ایک چہرہ بیرونی مسلمانوں کے لئے‘ جس سے ہمارا واسطہ رہے گا۔ہم اس حقیقت کو قبول کر یں یا رد کریں‘ بدل نہیں پائے گی۔ اگر ہم نے بھارت کے اندرونی معاملات کو قبل از تقسیم کے ذہن سے دیکھا‘ تو نہ جانے کیا کیا دیکھنا پڑے گا؟