تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     23-05-2014

زندگی کی مثبت ترجیحات

سہیل میرا چھوٹے بھائیوں جیسا دوست ہے۔ مرمت شدہ میرا مطلب ہے اصلاح شدہ جیالا ہے۔ ایسا روشن خیال ترقی پسند ہے جو مذہب پر پورا یقین رکھتا ہے۔ حتی الامکان (اپنے امکان کی حد تک) احکامات الٰہیہ پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ عبادات کا خیال رکھتا ہے۔ بہت سے دعویداروں سے بہتر مسلمان ہے مگر ''ترقی پسند ہے اور روشن خیال ہے‘‘ (یہ بھی اس کا اپنا دعویٰ ہے)۔ ترقی پسندی کے ساتھ اخلاقیات پر اور روشن خیالی کے ساتھ ساتھ پاکستان سے محبت پر نہ صرف یقین کامل رکھتا ہے بلکہ ان دونوں حوالوں سے بڑا جذباتی ہے۔ بھٹو کا جانثار تھا اور ابھی تک ہے مگر پیپلز پارٹی کی ہیت ترکیبی میں ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر آصف علی زرداری اور اب بلاول بھٹو زرداری تک کے درمیان ہونے والی تمام تر کیمیائی تبدیلیوں کا ناقد ہے۔ موجودہ پیپلز پارٹی سے عرصہ قبل مفرور ہو چکا ہے؛ تاہم اندر کے جیالے پن کو دار مفارقت دینا اس کے بس سے باہر ہے۔ 
آزادی صحافت اس کا خواب ہے۔ کبھی وہ خارزار صحافت کا راہی تھا۔ ایک ترقی پسند اخبار میں کام کرتا تھا۔ ایک عرصہ تک تنخواہ نہ ملنے کے باوجود اخبار سے جڑا رہا؛ تاہم جب اخباری ورکرز کا استحصال کرنے والوں میں ترقی پسندی اور قربانی کا سبق دینے والوں کو پہلی قطار میں پایا اور غریب صحافیوں کو صبر کا درس دینے والوں کو خود موج میلہ کرتے دیکھا تو مایوس ہو کر بینک کی نوکری کر لی۔ آج کل بینک کا افسر ہے‘ خوشحال ہے مگر شاید مطمئن نہیں۔ اس کے اندر جس طرح ایک جیالا پوری شدت سے چھپا ہوا ہے اسی طرح اس کے اندر ایک صحافی ابھی تک اپنی ساری سخت جانی کے ساتھ موجود ہے۔ آزادی صحافت اس کا خواب ہے مگر وہ مادر پدر آزادی کا‘ خواہ وہ صحافت کی ہی کیوں نہ ہو‘ قائل نہیں ہے۔ 
عرصہ ہوا اس سے آزادی صحافت پر بات ہوئی تو کہنے لگا۔ وہاں آپ کی آزادیٔ صحافت کی حدود ختم ہو جاتی ہیں جہاں ملکی مفاد‘ قومی سلامتی‘ مذہبی عقائد اور اخلاقیات کی حدیں شروع ہوتی ہیں۔ کہنے لگا ہر قسم کی آزادی‘ مادر پدر آزادی کے نام پر ملکی سلامتی‘ قومی مفادات‘ عوام اور اقلیتوں کے مذہبی عقائد اور اخلاقیات کی پامالی ایسے موضوعات ہیں‘ جس پر مغرب ہمیں تو شاباش دیتا ہے مگر خود ان حوالوں سے بڑا محتاط ہے۔ شخصی آزادی کا نعرہ دینے والے‘ شخصی پرائیویسی کے بارے میں خود بڑے محتاط ہیں۔ دوسروں کو آزادی صحافت کا نظریہ فروخت کرنے والوں کا خود یہ عالم ہے کہ ان کے اپنے اخبارات کے دفتروں میں ان کی خفیہ ایجنسیوں کے تنخواہ دار باقاعدہ طور پر بیٹھتے ہیں۔ مالکان کو ان ایجنٹوں کا پورا علم ہوتا ہے اور وہ اخبار کو چھپائی کے مرحلے سے پہلے کلیئر کرتے ہیں۔ یہ ایک خاص حد سے اوپر کی خبر کو بڑی خاموشی سے غائب کردیتے ہیں اور یہ سب کچھ قومی سلامتی اور ملکی وسیع تر مفاد کے نام پر کیا جاتا ہے۔ ان کو خود کبھی آزادیٔ صحافت یاد نہیں آتی مگر ہمارے سلسلے میں وہ ہمہ وقت آزادی صحافت کا ڈھنڈورا بھی پیٹتے ہیں‘ مختلف افراد کی پیٹھ بھی ٹھوکتے ہیں اور ہلا شیری بھی دیتے ہیں۔ معاملہ ان کے حسب منشا نہ ہو تو مختلف عالمی فورمز پر رولا بھی مچاتے ہیں اور ہمیں جمہوری اقدار بھی یاد دلاتے ہیں۔ مغرب کا سارا رویہ منافقت‘ جھوٹ اور دغابازی سے بھرا ہوا ہے۔ اب آپ بتائیں ایسی باتیں کرنے والا کوئی شخص ہمارے ہاں رائج ترقی پسندی اور روشن خیالی کی تعریف پر پورا اترتا ہے؟ ہرگز نہیں! مگر اس کا دعویٰ ہے کہ وہ سو فیصد اور پکا ٹھکا ترقی پسند ہے۔ 
کل اس سے ملاقات ہوئی تو اس کی سوئی پھر اسی آزادیٔ صحافت پر پھنسی ہوئی تھی۔ میں نے کہا‘ اب تمہاری آزادیٔ 
صحافت کیا کہتی ہے؟ کہنے لگا‘ قومی سلامتی‘ ملکی مفاد‘ مذہبی عقائد اور اخلاقی اقدار کے معاملے میں طے شدہ حدود کے علاوہ آزادی کا میں کل بھی قائل تھا‘ آج بھی قائل ہوں اور آئندہ بھی رہوں گا۔ جنرل ظہیر الاسلام صرف جنرل نہیں۔ قومی سلامتی کے حوالے سے ایک اہم ترین ادارے کے سربراہ ہیں۔ یہ کوئی خود مختار ادارہ نہیں‘ ایک بہت بڑے اور اہم ترین ادارے کا ذیلی ادارہ ہے۔ اس کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس کا سربراہ اپنے ادارے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ ایک دوسرے سے جڑی ہوئی چیزیں ہیں جن کو کسی صورت علیحدہ علیحدہ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ جنرل ظہیر الاسلام آئی ایس آئی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ آئی ایس آئی فوج کی نمائندگی کرتی ہے اور فوج پاکستان کی۔ آٹھ گھنٹے تک مسلسل میڈیا ٹرائل۔ یہ کسی جنرل کا نہیں‘ پاکستان کا امیج برباد کرنے کے مترادف ہے اور یہ بات کسی صورت قابل قبول نہیں۔ اب آ جائیں دوسری طرف۔ مارننگ شو والا معاملہ۔ وینا ملک کی پذیرائی۔ بھلا یہ صحافت ہے؟ کوئی اخلاقی اقدار باقی نہیں ہیں۔ کوئی شرم حیا باقی نہیں ہے۔ کوئی قومی غیرت موجود نہیں ہے۔ میڈیا کو صرف خبر چاہیے؟ بریکنگ نیوز چاہیے؟ قومی وقار کو برباد کرنے والے 
یہاں ہیرو ہیں۔ میڈیا ان کو ایسے کوریج دیتا ہے جیسے وہ ملک و قوم کا نام روشن کر کے آئے ہیں۔ وینا ملک کا بھارت میں فوٹو شوٹ۔ بازو پر آئی ایس آئی کا ٹیٹو۔ ایک چینل پر قابل اعتراض مارننگ شو... اس موضوع پر تو بات کرتے ہوئے لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ کیسی کیسی خواتین اسلام کی ٹھیکیداری پر مامور ہیں۔ رفیق احمد نے درست کہا ہے کہ بے عمل مسلمان کو شعائر اسلام اور دین کے معاملات پر بولنے کا کوئی حق نہیں۔ 
ایک ایرانی اداکارہ ہے۔ گلشفتہ فراحانی۔ بڑی معروف اور کئی ایوارڈ یافتہ۔ اس نے فرانس کے رسالے ''میڈم فگارو‘‘ کے سرورق پر وینا ملک جیسی تصویر چھپوائی‘ جنوری 2012ء میں۔ برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلیگراف نے رپورٹ کیا کہ ایرانی حکومت کے ایک نمائندے نے گلشفتہ سے کہا کہ ''ایران کو آپ جیسے اداکار یا فنکار نہیں چاہئیں۔ آپ اپنی فنی خدمات کہیں اور پیش کریں‘‘۔ اس کا ایران میں داخلہ بند کردیا گیا۔ اس کی شہریت منسوخ کردی گئی۔ موصوفہ آج کل پیرس میں مقیم ہیں۔ یہ ہوتی ہے قومی غیرت۔ عزت‘ توقیر اور وقار۔ میں نے کہا تم ابھی تک ترقی پسندی کے دعویدار ہو؟ کہنے لگا: میں ترقی پسند ہوں۔ بے غیرت نہیں۔ روشن خیال ہوں مگر بے حیا نہیں۔ آزادی اظہار کا قائل ہوں مگر پہلے مسلمان ہوں‘ پھر پاکستانی اور پھر کچھ اور... زندگی مثبت ترجیحات کے بغیر زندگی تو ہے مگر جانوروں کی۔ میں انسانوں جیسی زندگی جینا چاہتا ہوں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved