محبت کی شاعرہ ہیں‘ تعلق ملتان سے۔ پہلا مجموعۂ کلام ''دیر سویر‘‘ کے نام سے زیر طبع۔ نمونۂ کلام:
ہم جہاں ساتھ ساتھ چلتے تھے
وہ زمیں آسمان تھی پوری
وہ مرا عمر بھر کا مہماں تھا
اور میں میزبان تھی پوری
کہیں غازہ‘ کہیں کاجل‘ کہیں بالوں میں گلاب
تم ہی آتے نہیں‘ تدبیر تو سب ہوتی ہے
سانسوں میں بس رہا تھا‘ خبر دیر سے ملی
گھر میں مکیں چھپا تھا‘ بڑی دیر میں کھلا
زرد خزاں کے پتے جیسا ہو کر بھی
میرے ساتھ بکھرنے سے انکاری ہے
گھر کے آنگن میں دو پیڑ اک ساتھ تھے
ایک تھا چھائوں میں‘ دوسرا دھوپ میں
وہ بھی کیا دن تھے‘ محبت کی فراوانی تھی
بات کرنے میں‘ سمجھنے میں بھی آسانی تھی
تھوڑا سا چاند اور ستارے اُتار کر
کچھ دھوپ بھی ملائی‘ اندھیرا الگ کیا
ملتا تھا جا کے اس کی گلی کو یہ راستہ
پہلے الگ کیا تھا‘ دوبارہ الگ کیا
نائو ایسی ہے کہ ڈوبی بھی نہیں
اور کنارہ ہے کہ ملتا ہی نہیں
اب ہوا پہلے شجر توڑتی ہے
بعد میں برگ و ثمر توڑتی ہے
لہر ایسی ہے اِدھر ریت پہ گھر
میں بناتی ہوں‘ ادھر توڑتی ہے
اس کی بے باک نگاہی توبہ
میرے اطراف کے در توڑتی ہے
نبھائی تم نے بہت چار ہاتھ کی دوری
ہمارے بیچ بھلا فاصلہ ہی کتنا تھا
منتظر تو خیر کیا ہوتا‘ کوئی تھا ہی نہیں
دستکیں دینے کو پھر بھی اُس کا در اچھا لگا
ستارہ دور بھی ہے‘ ڈوبتا بھی جا رہا ہے
کہ منزل تو گئی تھی‘ راستہ بھی جا رہا ہے
باس متی روپ وتی
گرما کی شب... اور سجیلی باہوں پر... تپتے گرم رسیلے ہاتھ... رات گئے... کھیتوں سے اُڑ کر... ہلکی گرم ہوا میں مل کر... آبادی کو آنے والی... دھان کی خوشبو جیسا ساتھ۔
پروٹوکول
خواب آنکھوں سے گرا... میں نے اُٹھایا پھر سے... اپنی پلکوں کے کناروں میں بسایا پھر سے... خمِ ابرو پہ ستارہ سا بنائے رکھا... آنکھ کے تِل میں بڑی دیر چھپائے رکھا... دیر تک اُس سے ملاقات رہی... بات تھوڑی سی ہوئی... پھر بھی بڑی بات رہی۔
شرارت
پہلے اس نے شربت جیسی آنکھوں سے... مخمور کیا... پھر آنکھوں میں پانی بھر کے... اور بھی چکنا چور کیا... دل کو تھاما... آہ بھری اور... رونے پر مجبور کیا... کیسے کیسے دانے پھینکے... من کا پنچھی گھیر لیا... دروازے میں پلو اٹکا... جوتی ٹوٹی‘ سانس اڑی... چُٹیا نے بل پہ بل کھایا... ہاتھ کا پنکھا کان کی بالی میں اٹکا... اور چھوٹ گیا... اس نے مُڑ کر ہنس کر دیکھا... کن اکھیوں میں شربت کھنکا... پھر مُورکھ نے سارا قصہ... بستی میں مشہور کیا۔
Decade
ہم نے گزری شب کو فون پہ طے کر ڈالا... اب ملنا ہے... کب ملنا ہے... یا نہیں ملنا... اپنے معنی کھو بیٹھا ہے... ہم دونوں اپنے اسرار گنوا بیٹھے ہیں... اس کی آنکھیں... سب آنکھوں سے اچھی آنکھیں... میری پلکیں... سب پلکوں سے لمبی پلکیں... اپنے اپنے دلکش جادو کھو بیٹھی ہیں... اس کے ہاتھوں کی گرمی میں... اب ٹھنڈک ہے... (میری سانسوں میں پھر کیوں یہ بھاپ بنی ہے؟)... دونوں کی آوازمیں شک کی پھانس لگی ہے... لہجے کتنے بدل گئے ہیں... گارے جیسی گدلی سوچ پہ... ایک پرانی آس کے پائوں پھسل گئے ہیں... برفیلی خاموشی نے... دل یخ کر ڈالا... میری دھڑکن پر سناٹا دوڑ رہا ہے... میں نے سر پٹڑی پر رکھ کر... خود کو ڈھیلا چھوڑ دیا ہے... اور جدائی چھک چھک کرتی... میرے سر پر آ پہنچی ہے۔
ہم ملیں گے
زمیں یہ ایک دن ساری سمندر میں... اُتر جائے گی... اور... مچلتے گونجتے پانی کی سو پرتوں کے نیچے... کہیں کہنہ ملائم زرد چٹانوں تلے سے... نکل کر آئے گی... اک سانولی... بے حد سجیلی... جل پری... چمکتی تیز لہریں چوم کر وہ... چین کی بنسی بجائے گی... زمیں کے ختم ہونے کا بہت ہی مختصر سا الوداعی گیت گائے گی... زمیں کے دیوتا اوتار سب... کسی گمنام کم آباد سیارے پہ جا آباد ہوں گے... مکاں اپنے بنائیں گے... (وہیں پچھلی گلی میں ہم ملیں گے)
مائیکرو سیکنڈ
اپنی دوست سے باتیں کرتے... سانس کو پھندا لگ جاتا ہے... چائے کپ سے گر جاتی ہے... شال کا پلو... جوتی کی ایڑی میں آ کے... اٹک جاتا ہے... گرتے گرتے بچتی ہوں... شانے سے بیگ پھسل جاتا ہے... اور تم شانے اُچکا کر... لمحے کے اس ایک ہزارویں حصے میں... میرا دل... جیکٹ کی پاکٹ میں رکھ کر... چل دیتے ہو۔
آج کا مقطع
زردیاں ہیں مرے چہرے پہ کسی گھر کی ظفرؔ
اس نے آخر مجھے رنگِ در و دیوار دیا