تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     24-05-2014

ہٹلر کے نام پر

بس کی بائیں جانب ایک قدِ آدم ا شتہار میں اڈولف ہٹلر اور فلسطینی لیڈر امین الحسینی (مرحوم) کو ملاقات کرتے دکھایا گیا ہے۔ امین الحسینی کو عالم اسلام کا رہنما ظاہر کیا گیا ہے۔ اشتہار کی پنچ لائن کہتی ہے کہ نسل پرستی کے خاتمے کے لیے مسلم ممالک کو امریکی امداد بند کر دی جائے۔ جرمنی کے ایک عیسائی لیڈر کا یہ اشتہار لیے بیس بسیں واشنگٹن ڈی سی کے طول و عرض میں دوڑتی پھرتی ہیں۔ یہ منافرت کی آگ بھڑکانے کی کوشش ہے لیکن ان بسوں کی مالک ٹرانزٹ اتھارٹی کچھ نہیں کر سکتی کیونکہ ایک جج کی رولنگ کے مطابق امریکہ میں اظہار رائے کی آزادی ہے جس کی ضمانت ملک کا آئین دیتا ہے‘ مگر اب بہت سے امریکی اس مادر پدر آزادی کو چیلنج کر رہے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ہٹلر کا نام تاریخ کی کتابوں یا عجائب گھروں میں ہونا چاہیے نہ کہ بسوں کی دیوار پر اشتہار کی صورت میں۔ اس طرح لاکھوں انسانوں کے قاتل کی تصویر مذاق بن کر رہ جائے گی ۔وہ قدامت پسند تنظیم جس نے اشتہار کے لیے جگہ خریدی‘ اس مضمون کے ساتھ دوسرے شہروں میں مزید بسیں چلانے کا ارادہ رکھتی ہے ۔
یہ محض کنزرویٹو انسٹی ٹیوٹ کی تحقیق نہیں بلکہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ نو آبادیاتی دورکے کئی لیڈروں نے دوسری جنگ عظیم کے ''محوری‘‘ جرنیل ہٹلر سے برلن میں اور دوسرے مختلف محا ذوں پر ملاقاتیں کی تھیں اور ان کا مقصد غلامی سے نجات پانا تھا۔ ان میں برصغیر کے ہندو‘ سکھ اور مسلمان لیڈر بھی شامل تھے۔ انہوں نے 
انڈین نیشنل آرمی قائم کی اور برطانیہ اور امریکہ کے خلاف جنگ کا اعلان کیا ۔میجر جنرل شاہ نواز خان‘ کرنل پریم سہگل اور کرنل گور بخش سنگھ ڈھلوں‘ جو برٹش انڈین آرمی سے تعلق رکھتے تھے‘ سب سے پہلے بغاوت کے مقدمے کی زد میں آئے اور انڈین نیشنل کانگرس اور آل انڈیا مسلم لیگ‘ وونوں نے تحریک آزادی کے دوران ان کی رہائی کے لئے مظاہرے کیے۔ با غی حکومت کے سربراہ کے طور پر سبھاش چندر بوس کا نام لیا جاتا ہے جن کی باقیات اب تک نہیں ملیں ۔ان واقعات کو کم و بیش ستر سال گزر چکے ہیں۔ جرمنی‘ اٹلی‘ جاپان اور ''محور‘‘ کے دوسرے ملک آج امریکہ کے اتحادی ہیں۔ بھارت اور پاکستان سے واشنگٹن کے تعلقات دوستانہ ہیں‘ ایسے میں مسلم ممالک کے خلاف اشتہار بازی‘ اشتعال انگیزی ہی کہلا سکتی ہے ۔
ہٹلر کو آج کی شخصیات سے تشبیہ دینا یا اس کے دور میں ہونے والے واقعا ت کا حالات حاضرہ پر انطباق‘ آزادیٔ اظہار کی ذیل میں نہیں لایا جاسکتا مگر امریکی سیا ست دانوں کے ترکش میں جب دلیل و برہان کے سب تیر ختم ہو جاتے ہیں تو وہ اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آتے ہیں‘ مثلاً ہلیری راڈم کلنٹن' سینیٹرمارکو روبیو (آئندہ انتخابات میں بالترتیب ڈیمو کریٹک اور ریپبلکن پارٹیوں کے ممکنہ صدارتی امیدوار)اور ناکام صدارتی امیدوار سینیٹر جان مکین نے ولادیمیر پیوٹن کو یوکرائن کے حوالے سے ہٹلر کہا اور کچھ لوگ بارک اوباما اور جارج بش کو یہ خطاب دیتے پائے گئے ۔ایک گروپ نے تو ورجینیا کے گنجان آباد علاقوں میں چلنے والی بس پر اشتہار لگایا: ''اوباما‘ جاؤ جہنم میں‘‘۔ حفظان صحت کے نئے قانون پر اسی حوالے سے نکتہ چینی کی گئی ہے‘ یہاں تک کہ کاروباری اداروں کے نقاد اِن کے طور طریقوں کو ''ہٹلرانہ‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ ہٹلر سے موازنے کا یہ سلسلہ خالص برائی سے اس کی مطابقت کم کر دے گا۔ پہلے ہی دنیا کی کئی لوگ ہالو کاسٹ کو ایک واہمہ کہہ چکے ہیں ۔
امریکن فریڈم ڈیفنس انی شی ایٹو‘ جس نے مقامی بس پر مسلم مخالف اشتہار دیا‘ کی پیم گیلر کہتی ہیں: ''انہیں انٹر نیٹ پر سینکڑوں خطوط ملے ہیں‘ جن میں ان کے اشتہار کی حمایت کی گئی ہے۔ ہٹلر اور مسلم دنیا کے ایک با اثر لیڈر کی تصویر سے صاف پتہ چلتا ہے کہ تاریخ پرسفیدی کردی گئی اور اسے مسخ کیا گیا ہے۔ میں نے یہ تصویر اس لیے استعما ل کی کہ لوگ حقائق سے با خبر نہیں اور انہیں ان سے واقف ہو نے کی ضرورت ہے‘‘۔ مگر واشنگٹن ڈی سی کی شا نا ڈک کہتی ہیں: میں ہٹلر کے چہرے پر صلیب کا ایک بڑا نشان بناؤں گی تاکہ وہ مجھے دکھائی نہ دے ۔دو برائیاں مل کر اچھائی نہیں بنتیں ۔جہنم اس کے لئے کافی نہیں‘ اور شہر کی بس کا ایک پہلو‘ اس قسم کی برائی کے لیے موزوں جگہ بھی نہیں‘‘۔ 
اس سے پہلے 2012ء میں بھی پیم گیلر نے اسلام دشمنی میں بس پر اپنے اشتہار کے لئے جگہ خریدی تھی جس میں مسلمانوں کو‘ امریکہ میں جن کی آبادی یہودیوں کی نسبت زیادہ ہے‘ وحشی کہا گیا تھا ۔ اتھارٹی نے اشتہار سے گلو خلاصی کے لئے عدالت سے رجوع کیا تو ایک وفاقی جج نے جواب دیا ۔افسوس‘ اشتہار کا مضمون پہلی ترمیم سے مطابقت رکھتا ہے اور آئین کے مطابق ہے۔ ڈیبی پلمس (Debbie Polhemus )‘ جو شہر کے ایک سکول میں استانی ہیں‘ گھر سے نکلیں اور انہوں نے اشتہار کے اوپر سینکڑوں چیپیاں لگا دیں ۔ یہ ان کا اظہار رائے تھا ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے حساس‘ سخت گیر‘ زوردار اور اشتعال انگیز اشتہارات فائدے کی بجائے نقصان کا باعث بن سکتے ہیں اس کے باوجود وہ ہر دوسرے چوتھے سال نمودار ہوتے رہتے ہیں۔2012ء میں صدر اوباما کو نظام صحت میں اصلاحات لانے کا طعنہ دیا گیا تھا۔2009ء میں ہم جنسی کی شادی کے خلاف اشتہار بازی کی گئی جو ناکام رہی ۔ اسقاط حمل کے خلاف آج بھی اشتہار دیے جاتے ہیں جن میں خون سے لتھڑے سر بریدہ جنین دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے اشتہار دینے والوں کو ناظرین کے ذوق جمال کی قطعاً کوئی پروا نہیں ہوتی۔ اگر آپ ٹریفک جام میں پھنس جائیں اور بچے ان الفاظ کا مطلب پوچھیں تو آپ کیا جواب دیں گے ؟
حقیقت یہ ہے کہ ایسے اشتہارات پرانی جنگوں پر بحث مباحثے کی اجرتی جگہیں بن جاتے ہیں۔ بعض دوسرے مذاہب کے لوگوں نے مسلمانوں کے عقائد کے منافی اشتہار دیا‘ وہ جواب میں اپنا اشتہار لے آئے۔ کچھ لوگ کر سمس یا پاس اوور کے موقعوں پر اشتہار دیتے ہیں اور مخالفین کے مذہبی تصورات پر حملے کرتے ہیں۔جواب میں کیتھولک اشتہاری جگہیں خریدتے ہیں۔ یہ حقوق کے قانون کا استعمال ہے حا لانکہ حقوق کے ساتھ ذمہ داریاں بھی آتی ہیں جن کی پروا عام طور پر نہیں کی جاتی۔ آزادی کا ظالمانہ استعمال پہلی ترمیم کا غلط استعمال ہے‘ خاص طور پر ہٹلر کا نام لے کر۔ یہ نام تاریخ کی کتابوں میں رہنا چاہیے نہ کہ بس نمبر چھ ڈی پر۔ کونسل آن امریکن اسلامک ریلشنز اور دوسری مسلم تنظیمیں اس متحرک اشتہار کی مذمت کر رہی ہیں ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved