تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     24-05-2014

سادہ لوح

ایک سال کے تماشے کے بعد وہی ہو رہا ہے ، جو ہونا تھا۔ بدھ کے روز شمالی وزیرستان میں بمباری اور جھڑپوں میں 80دہشت گرد ہلاک ہوئے ۔جمعہ کے روز ''روزنامہ دنیا ‘‘کے مطابق باقاعدہ ٹینکوں کے ساتھ فوج نے پیش قدمی کی۔ اگرچہ ہدف شورش زدہ ایجنسی کا ایک محدود حصہ ہے لیکن اسے مذاکرات کے بعد ،سب سے بڑ ی کارروائی کہا جا رہا ہے ۔غالباً چھ ماہ قبل میں نے لکھا تھا کہ شمالی وزیرستان کا آپریشن صرف کچھ عرصے کے لیے ملتوی کیا جاسکتاہے ۔ یہ ایک بڑی جنگ کا ایک مختصر مگر ناگزیر حصہ ہے۔ دہشت گردی ختم نہیں ہوگی لیکن اوّلین شدید ردّعمل کے بعد، اُس کی شدّت میں کمی آئے گی ۔ 
شمالی وزیرستان ڈرون حملوںکا سب سے بڑا ہدف تھا۔بارہا امریکہ نے پوری شدّت سے یہ مطالبہ کیا کہ یہاں آپریشن کیا جائے۔ پاکستانی عوام میں امریکی مخالفت کی بنا پر اس کے لیے فضا سازگار نہ ہو سکی۔ ملالہ یوسف زئی پر حملے کے بعد، اس کی مختلف تصاویر سوشل میڈیا پر دکھاکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ ایک ڈھونگ ہے اور شمالی وزیرستان پر لشکر کشی کا ایک بہانہ ۔نہ صرف یہ کہ اس وقت کارروائی کی صورت 
میں پاکستانی فوج پر امریکہ کا آلہ ء کار ہونے کے آوازے کسے جاتے بلکہ ایک سبب اوربھی تھا۔ امریکی و افغان افواج نہ صرف یہ کہ پاک فوج پر دبائو بڑھانے کے لیے ہر قسم کے حربے آزما رہی تھیں بلکہ ہندو بنیے کو وہاں ایک بڑا کردار سونپا جا رہا تھا۔ نتیجہ یہ تھا کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ طالبان مذاکرات میں ، جن کے اہتمام میں پاکستان کا کردار کلیدی تھا، برہمن باقاعدہ شریک ہونے کے لیے غلغلہ اٹھاتا رہا۔ پرائی شادی میں عبداللہ مکمل طور پر دیوانہ تھا۔ 
ایک طویل عرصے سے مسلم لیگ نون کی تمام تر پالیسیوں کا محور و مرکز تحریکِ انصاف کا ردّ عمل ہوا کرتاہے ۔کپتان کے اخلاص پر کسی کو شبہ نہیں لیکن وہ ایک سادہ لوح آدمی ہے، جو برسوں سے فوجی کارروائیوں کا مخالف اور بات چیت کا حامی ہے ۔صلح صفائی کی یہ مثالی باتیں قبائلی علاقوں میں برسرِ پیکار حقیقت پسند فوج کی سمجھ سے بالاتر ہیں ۔ بہرحال بعض مذہبی جماعتیں ، 
بالخصوص دہشت گردوں کی وکالت کرنے والے ان کے لیڈر، بظاہر بڑے معزز نظر آنے والے لیکن صمیمِ قلب سے طالبان کے حمایتی اوّل دن سے یہ جانتے تھے کہ کچھ حاصل نہیں ہونے کا۔ حکیم اللہ محسود کا دستِ راست افغان ا نٹیلی جنس سے پینگیں بڑھا تا گرفتار ہوا تو دہشت گردوں کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے بڑی معصومیت سے ٹی وی پر یہ کہا کرتے : لطیف اللہ محسود تو تحریکِ طالبان میں کوئی عہدہ نہیں رکھتا۔ دوسری طرف عمران خان اپنی طلسماتی شخصیت کے بل پر معاشرے کے ایک بڑے حصے کو یہ یقین دلا چکے تھے کہ آپریشن ملکی سالمیت کے لیے خطرہ ہے ۔ ناپختہ ذہن کے لوگ ہر طرف متحرک تھے اور حکومت کو جنگ کا اعلان نہ کرنے دیتے تھے۔
حادثے پہ حادثہ ہوتا رہا۔ جنرل ثناء اللہ نیازی اور ان کے ساتھی شہید کر دیے گئے ۔ طالبان کی قید میں موجود رینجرز کے تیس سپاہیوں میں سے 23کو شہید کردیاگیا۔ پشاور چرچ میں دھماکہ ہوا تو طالبان کے ترجمان نے یہ کہا : ہم اس میں ملوّث نہیں لیکن ہے یہ شریعت کے مطابق۔ المیہ یہ تھا کہ ایک ایسا گروہ، جو ان حملوں کی نہ صرف استطاعت رکھتا بلکہ اس کا عملاً مظاہرہ کرتا رہا تھا، اس کی زبان سے نکلنے والے ایسے ہر انکار کو پوری شدّو مد سے مانا گیا بلکہ معترضین کو ''غدّار ‘‘اور''امریکی پٹھو ‘‘قرار دیاگیا۔اس دوران شمالی وزیرستان میں درجنوں فوجی شہید کر دیے گئے ۔ ظاہر ہے کہ اس کا سہرا ان تمام قوتوں کے سر ہے ، جو کارروائی کی راہ میں رکاوٹ بنتی رہیں ۔ 
مذاکرات میں ایک طویل تعطل ہے ۔ دہشت گردوں کے وکیل حکومت کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ۔ دوسری طرف خود طالبان کا کہنا یہ ہے کہ اپنی داخلی لڑائی سے فارغ ہونے تک وہ مذاکرات نہیں کر سکتے ۔خان سید سجنا اور شہریار محسود میں جاری خوں ریزی میں قریباً 100جنگجو مارے جا چکے ۔ یہ ہیں شریعت کے علمبردار!دہشت گردوں کی قیادت کمزور پڑ رہی ہے ۔ ملّا فضل اللہ خان سید سجنا کو برطرف کرنے کی کوشش میں ناکام ہو چکا ہے ۔اس سے قبل سیّد منور حسن کے دو شہیدوں حکیم اللہ محسود اور ولی الرحمٰن کے درمیان جاری تنازعات بھی آخر الذکر کو تحریکِ طالبان کا نائب سربراہ مقرر کرنے ہی پر منتج ہوئے تھے وگرنہ وہ دونوں ایک دوسرے کا خون بہانے پہ تیار تھے ۔ 
تحریکِ انصاف کے ایک لیڈر نے ایک ٹی وی پروگرام میں یہ کہا تھا کہ ایک بڑے سیاستدان کو برطانیہ کا وزیراعظم لگا دیا جائے تو ایک ڈیڑھ سال میں وہ وہاں بھی مارشل لا نافذ کرا دیں ۔ یہ بات درست ہوگی لیکن دہشت گردی کے باب میں بعض لوگوں کا موقف ظاہر کرتاہے کہ یہ کارنامہ وہ اس بڑے سیاستدان سے نصف مدّت میں انجام دے سکتے ہیں ۔سوائے نون لیگ کی حکومت پہ دبائو بڑھانے اور اگلے الیکشن کے لیے ایک شفاف نظام تشکیل دینے کے ،جناب عمران خان کا اب کوئی مصرف نہیں ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved