تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     25-05-2014

سرخیاں اُن کی‘ متن ہمارے

ملک ترقی کی راہ پر گامزن 
ہو چکا ہے... نوازشریف 
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے‘‘ صرف راہ کا فرق ہے کیونکہ کچھ لوگ اسے ترقی کی بجائے کچھ اور سمجھتے ہیں؛ تاہم اس کے گامزن ہو جانے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے حالانکہ سربراہ جو اپنی زبان مبارک سے کہہ دے‘ اس پر اعتبار کرنا چاہیے اور یہ راہ سربراہ حکومت اور اس کے مقربین کی ترقی کی راہ بھی ہو سکتی ہے‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''موجودہ حکومت کے شروع کردہ منصوبوں سے ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا‘‘ اگرچہ آج تک کسی حکومت کو بھی اپنے ترقیاتی منصوبے مکمل کرنے کا موقع نہیں ملا اور کوئی دوسرا آ کر اپنا ہی لُچ تل دیتا ہے اور اپنے انداز میں لوگوں کا معیار زندگی بلند کرنا شروع کردیتا ہے؛ چنانچہ ہر وقت قوم کو اس کے لیے تیار رہنا چاہیے کیونکہ حکومت کی اپنی خوش فعلیاں بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''حکومتی منصوبوں سے روزگار کے لاکھوں مواقع پیدا ہوں گے‘‘ اگرچہ حکومت کے خود بے روزگار ہو جانے کا خطرہ بھی ہر وقت موجود ہوتا ہے‘ اللہ رحم کرے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ 
میٹرو ٹرین منصوبے کو شفافیت اور تیز رفتاری
سے مکمل کیا جائے گا... شہباز شریف 
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''میٹرو ٹرین منصوبے کو شفافیت‘ معیار اور تیز رفتاری سے مکمل کیا جائے گا‘‘ اور اگر خدانخواستہ شفافیت حسب معمول پیدا نہ بھی ہو سکی تو اس کی وجہ تیز رفتاری ہی ہوگی کیونکہ جلدی میں کچھ چیزیں نظروں سے اوجھل بھی ہو جاتی ہیں‘ علاوہ ازیں بڑے منصوبوں کے تقاضے بھی کچھ اور ہوتے ہیں؛ چنانچہ اگر حکومت میں آ کر بھی ہم نے بڑے منصوبے نہیں بنانے تو کب بنانے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''ماضی پر افسوس کرنا وقت کھونے کے مترادف ہے‘‘ چنانچہ ماضی سے کوئی سبق بھی نہیں سیکھ سکتے کیونکہ آخر وقت بھی تو بچانا ہوتا ہے‘ نیز یہ کہ جو کچھ ہونا ہوتا ہے وہ تو ہو کر ہی رہتا ہے چاہے کتنی بھی احتیاط کی جائے کیونکہ پچھلی دفعہ بھی اپنی طرف سے تو کافی احتیاط روا رکھی تھی لیکن ہونی بالآخر ہو کر ہی رہی۔ آپ اگلے روز الحمرا میں منعقد ہونے والی عالمی کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ 
طالبان سے مذاکرات کی گاڑی
دلدل میں پھنس گئی... عرفان صدیقی 
وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ ''طالبان سے مذاکرات کی گاڑی دلدل میں پھنس گئی ہے‘‘ اور ہمیں اس پر سخت حیرت ہے کہ پہاڑی علاقوں میں بھی دلدلیں موجود ہیں جہاں اچھی بھلی گاڑیاں پھنس سکتی ہیں‘ اگرچہ ہم ان سے بچ بچا کر ہی نکلنا چاہتے تھے لیکن اگر دلدل میں نہ پھنستے تو کسی اور چیز میں پھنس جاتے کیونکہ اب احساس ہو رہا ہے کہ وہ راستہ منزل کی طرف جاتا ہی نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''اگر صحافت کمزور ہو گئی تو غیر جمہوری قوتیں طاقتور ہوں گی‘‘ اسی لیے ہم دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل کر رہے ہیں۔ آپ اگلے روز فیصل آباد میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔ 
شمالی وزیرستان میں آپریشن سے 
سول آبادی متاثر ہو رہی ہے... فضل الرحمن 
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''شمالی وزیرستان آپریشن میں سول آبادی متاثر ہو رہی ہے‘‘ اور اب جبکہ مذاکرات بھی ناکام ہو چکے ہیں تو حکومت کو اس مسئلے کے حل کے لیے خاکسار جیسے عاجز مسکین لوگوں سے دم جھاڑ کروانے کی طرف توجہ دینی چاہیے جسے قلمدانِ تعویذات کہا جا سکتا ہے اور خاکسار اس کے لیے اپنی جملہ ہنرمندانہ خدمات حاضر کرنے کے لیے تیار ہے۔ علاوہ ازیں حکومت کو چاہیے کہ اس مقصد کے لیے اپنے پیر سے بھی رجوع کرے کیونکہ یہ اکیلے آدمی کا کام نہیں ہے جبکہ اس سے ایک طرف دہشتگردوں کو روکنا مقصود ہوگا اور دوسری طرف کسی تیسری قوت کی دخل اندازی کو‘ اگرچہ اب معاملات بہت آگے نکل چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''مسائل کے حل کے لیے طاقت کا استعمال کبھی بھی سودمند ثابت نہیں ہوتا‘‘ بلکہ آخری حد تک منت سماجت سے کام لینا چاہیے جس میں ظاہر ہے کہ حکومت کی طرف سے کافی کسر رہ گئی تھی‘ اگرچہ اپنی طرف سے تو اس نے ترلوں کی انتہا ہی کردی تھی؛ تاہم خاکسار کو اپنے ساتھ ملانے جیسی کوئی کسر ضرور رہ گئی تھی۔ آپ اگلے روز کوئٹہ ایئرپورٹ پر صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔ 
وزیراعظم کی سپاہی کے ساتھ لڑائی انتہائی خطرناک ہے... چودھری شجاعت 
ق لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم کی سپاہی کے ساتھ لڑائی انتہائی خطرناک ہے‘‘ اور سپاہی کا لفظ بھی میں نے احتیاطاً ہی استعمال کیا ہے‘ بات تو سمجھ میں آ گئی ہوگی اس لیے سپاہی کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر ہی چلنے میں عافیت ہے بلکہ اس کی وردی کا بھی ہر وقت خیال رکھنا چاہیے جو اسے پہنی ہوئی ہی اچھی لگتی ہے اور اسی لیے ہم نے آخری دم تک سپاہی کو وردی نہ اتارنے کی تلقین کی لیکن وہ نہ مانے اور اب اس کا نتیجہ بھگت رہے ہیں بلکہ اپنے ساتھ ہمیں بھی بھگتا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''اپنی سیاسی زندگی میں ایسے بُرے حالات کبھی پیدا نہیں ہوئے‘‘ جو اگرچہ ایک بار پیدا ہوئے تھے لیکن وہ فوراً ہی اچھے دنوں میں بھی تبدیل ہو گئے جو آج تک یادگار چلے آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''موجودہ صورتِ حال میں حکومت خاموش تماشائی کا کردار ادا نہ کرے‘‘ بلکہ کھُل کھُلا کر ایک طرف لگ جائے تاکہ یہ کٹی کٹا ایک بار نکل ہی جائے جس نے اس قدر سسپنس پیدا کر رکھا ہے اور امید و بیم کی صورت ہر لمحہ بدلتی رہتی ہے اور کچھ مزہ بھی نہیں آ رہا۔ آپ اگلے روز کوئٹہ میں وزیراعلیٰ بلوچستان کو دیے گئے ظہرانہ میں شرکت کے بعد گفتگو کر رہے تھے۔ 
آج کا مطلع 
لگی اچھی بھی ہمیں کارگزاری اپنی 
تنگ پلیا سے جہاں کار گزاری اپنی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved