خواجہ فرید الدین گنج شکرؒ یاد آئے، بلبن نے بھید پا لیا تھا‘ فقیر کی دہلیز پہ جھکا اور مراد پا لی۔ فقد فاز فوزاً عظیما۔
اٹھ فریدا ستّیا تیری داڑھی آیا بور
اگّا نیڑے آ گیا، پچھا رہ گیا دور!
خیال یہ تھا کہ جناب سراج الحق اور عمران خان سے گفتگو مفصل ہو سکی تو مستقبل کے خدو خال واضح ہوں گے ۔ سراج الحق نہ پہنچے تو موبائل کے لیے جیب ٹٹولی... ندارد۔ دفتر میں بھول آیا تھا۔ راستہ انہیں معلوم نہ تھا ۔ ظاہر ہے کہ رابطہ کرتے رہے‘ مگر بے سود۔ ایک بالکل ہی غیر متعلق شعر بے طرح یاد آیا اور یاد آتا رہا ؎
گلوئے عشق کو دار و رسن پہنچ نہ سکے
تو لوٹ آئے ترے سر بلند کیا کرتے
آدمی کوشش کرتا ہے اور ناتمام رہتی ہے۔ تمام تب ہوتی ہے‘ جب بندِ شب و روز میں جکڑے ہوئے بندوں کو نہیں بلکہ خالق کو منظور ہو۔ بات ہوئی تو وہ ہوائی اڈے پر اور پابہ رکاب۔ منکسر مزاج آدمی ذرا سا نا خوش بھی نہ تھا۔ کہا : کوئی بات نہیں ۔ کوئی دن میں آتا ہوں ۔
باہر کے دروازے پر کھڑا سجاول باورچی بہت بشاش تھا۔ میرے کان میں کہا: آپ کے لیے چنے کی دال خاص طور پر پکائی ہے ۔ خان صاحب کو پسند نہیں۔ کہیے گا کہ میں نے فرمائش کی تھی۔ تین سال پہلے وہ سیکھ رہا تھا۔ پہلا سبق میں نے اسے پڑھایا اور آخری یوسف صلاح الدین نے ۔ پوچھا: یوسف کا نسخہ کیا ہے ؟ بولا : دیسی مرغ بھونتے ہوئے ٹماٹر کی بجائے دہی ڈالنا چاہیے اور آنچ دھیمی۔ برادرم نعیم الحق نے کہا : آپ کے لیے بہت سے کھانے خان نے پکوائے ہیں ۔ گزارش کی : گرما کی دوپہر میں سبزی کفایت کرتی ہے ۔ یہ الگ بات کہ دستر خوان سجا تو مرغ کی قاب نے باقی سب کچھ بھلا دیا۔ کھانے کا لطف مگر سادگی اور کم خوری میں ہوتا ہے اور اس سے زیادہ رفاقت میں۔
چند ہی منٹ میں وہی ماحول۔ جن دوستوں کو ملاقات پہ اصرار تھا‘ وہ تاکید کرتے رہے کہ سخت روّیہ اختیار نہ کرنا۔ بالآخر میں نے کہا: آپ لوگوںکو اندازہ نہیں کہ تجزیہ الگ‘ ذاتی تعلق برقرار ہے۔ وہ مجھے جانتا ہے اور میں اسے۔ مکان کے بڑے دروازے سے داخل ہوتے ہوئے پرانی یادوں نے ہجوم کیا ؎
کبھی بھولی ہوئی منزل بھی یاد آتی ہے راہی کو
خلش سی ہے جو سینے میں غمِ منزل نہ بن جائے
شجر بلند ہو گئے ۔ سبزہ اب گہرا ہے۔ لالہ و گل، بلندیوں پہ بنا‘ پہاڑوں میں گھِرا مکان کچھ اور بھی کہنہ۔ چنانچہ کچھ اور بھی شاندار۔ اُجلی ہوا کہانی کہتی ہے‘ دل کا ملال لے جاتی ہے۔
بازار سے خریدی گئی ان ٹائلوں کے سامنے پل بھر کو میں رکا، جن پہ شریف خاندان نے جمائما کے خلاف نوادرات سمگل کرنے کا مقدمہ گھڑا تھا ۔ سال بھر وہ پاکستان نہ آسکی تھی ۔ گاڑی بلال الرشید چلا رہے تھے۔ پوچھا: ابّا ، کیا آج وہ دعا آپ نے پڑھی ہے ''اللھم ادخلنی...‘‘ بتایا کہ ہمیشہ پڑھتا ہوں اور دل میں کہا : جانِ پدر، پڑھتا ہوں تو جیتا ہوں‘ ورنہ اپنے قتل میں کوئی کسر تو کبھی چھوڑی نہیں۔
میرا خیال تھا کہ تھوڑا سا شکوہ شاید وہ کرے۔ ارادہ تھا کہ خاموشی سے سنتا رہوں گا ۔ بہت تاخیر سے سیکھا مگر سیکھا۔ تجزیہ کرنے میں دیانت کو کبھی ہاتھ سے جانے نہ دیا جائے ۔ لہجہ نرم رہے مگر بات پوری۔ کلام میں تندی سے اثر بڑھتا نہیں۔ ردعمل پھوٹتا ہے۔ دل سچا ہو تو آدھی بات بھی نتیجہ خیز ؎
بات ادھوری‘ مگر اثر دونا
کیسی لکنت زبان میں آئی
بچّو ں کی سی معصومیت سے اس نے پوچھا : فیصل آباد میں آج شام کیا کہنا چاہیے۔ اگرچہ وہ خود بھی پوری طرح واضح تھا ۔ میری گزارش یہ تھی کہ سب سے اہم کام پارٹی کی تشکیلِ نو ہے اور ظاہر ہے کہ ایک بے عیب الیکشن کے ساتھ‘ اس لیے کہ جمہوریت کا بنیادی ادارہ پارلیمان نہیں بلکہ سیاسی پارٹیاں ہیں۔ عام انتخابات کے لیے دبائو بڑھانے میں تعجیل سے کام نہ لینا۔ اس لیے کہ ایسے میں اگر اقتدار مل بھی گیا تو بے ثمر ہوگا۔ ثانیاً ایسا منشور مرتّب کیا جائے ، جو واقعی قابلِ عمل ہو ۔
چار چیزوں کا پارٹی کو عزم کر لینا چاہیے۔ اوّل پولیس اور پٹوار کی اصلاح ، ثانیاً ٹیکس وصولی میں کم از کم سو فیصد اضافہ اور وہ بھی کاروبار کو مجروح کیے بغیر ، ثالثاً قانون کے د ائرے میں سول سروس کو مکمل آزادی ،رابعاً عدالتوں کی ایسی تشکیل کہ مقدمے تیزی سے نمٹ سکیں ۔ امیدواروں کا انتخاب کم از کم تین ماہ قبل ہونا چاہیے اور اس کے لیے معلومات (Data)ابھی سے مرتب ہوجانی چاہئیں۔
طالبِ علم کی رائے یہ ہے اور کھل کر اس کا اظہار کیا کہ مولانا طاہر القادری ایسے مشکوک کرداروں سے دور رہنا چاہیے۔ سیاست میں حلیف ہوتے ہیں، دوست نہیں۔ وہ مگر قابلِ اعتبار تو ہوں‘ قوم کے نقطۂ نظر سے مشکوک بہرحال نہیں۔ موجودہ صورتِ حال میں کراچی ، شہرِ لاہور اور پختون خوا میں جماعتِ اسلامی ہی ان کی حلیف ہو سکتی ہے ۔ سراج الحق کی کپتان نے بے ساختہ تعریف کی۔ کہا: بہت ہی ایماندار آدمی ہے اور قبائلی علاقوں کی شورش ختم کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کر سکتاہے ۔
یہ بھی عرض کیا اور اس نے کہیں زیادہ جوش و خروش سے تائید کی کہ مارشل لا نافذ نہ ہونا چاہیے۔ میری ذاتی رائے یہ تھی کہ عوام سے بے نیازی ، من مانی اور میڈیا کے ہارے ہوئے جواری کی پشت پناہی کے طفیل شریف حکومت کے دن گنے جا چکے ۔ ملک کو وسط مدّتی انتخاب کی طرف لے جانا چاہیے مگر بتدریج‘ الّا یہ کہ شریف خاندان اصلاح پر آمادہ ہو۔ آثار اگرچہ ہرگز نہیں۔ گالی دینے کے لیے صوبائی حکومت‘ حتیٰ کہ وکلاء‘ وزراء‘ صحافی پالنے لگے۔ منصوبے بنائے بغیر، پارلیمان اور کابینہ، کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی سے منظوری لیے بغیر، چین کے ساتھ معاہدے پہ معاہدہ۔ مبینہ طور پر لاہور میں جہاں حمزہ شہباز ہائوسنگ سوسائٹی بنانے کے آرزومند ہیں ، اس کے قریب زیرِ زمین ریلوے کا پہلا سٹیشن بنے گا۔ کپتان نے حیرت کا اظہار کیا اور اطلاع دی کہ علاقے میں اس کے نانا مرحوم کی(1600ایکڑ) زمین ہے ۔ پٹواریوں سے کہہ دیا گیا ہے کہ زمین کی خرید و فروخت نہ ہونے پائے۔ شاعر نعیم بھابھا نے اترسوں بتایا تھا کہ پولٹری کی صنعت کو نوازنے کے لیے مکئی کی قیمت 1400سے گرا کر 700روپے من کر دی گئی ہے ۔ خزانہ نمائشی منصوبوں اور ان کی تشہیر پہ لٹ رہا ہے ۔ ملک قرض کی دلدل میں اور بھی گہرا اترتا جارہا ہے ۔ یہ ہیں وہ لوگ جو ملک کو ایشیائی چیتا بنانے کے دعویدار ہیں ۔
اختلافی موضوعات پر کوئی بات نہ ہوئی ۔ میں نے احتیاط برتی۔ اس نے مجھ سے زیادہ ؎
خیالِ خاطرِ احباب چاہیے ہر دم
انیسؔ ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
ملاقات طویل ہو جاتی کہ شام تک اسے فرصت تھی ۔بنی گالا کی شام دلآویز بھی بہت ہوتی ہے ، شام اودھ سے بڑھ کر ۔ ایک گھنٹے بعد میں نے مگر اجازت چاہی۔ واپسی پرکپتان سے زیادہ ، شریف خاندان کے بارے میں سوچتا رہا۔ کس طرح خود کو برباد کیے جاتا ہے۔ پنجابی کا محاورہ یہ ہے ''اگّا دوڑ تے پچھا چَوڑ‘‘ سوت کاتنے اور نوچ نوچ کر پھینک دینے والے لیڈر۔ سبھی تقریباً ایک جیسے خود شکن‘ خودشکن۔ سیاست سے جی اکتا گیا۔ کتاب پڑھنی چاہیے۔ کتاب لکھنی چاہیے۔ تازہ ہوا کا لمس، جھومتے بجتے ہوئے پتّے، چاندنی راتیں‘ برکھا میں بوندوں کی لچکتی تاریں اور بچوں کے ہنستے ہوئے ہاتھ۔ سیاست اور اقتدار میں کیا رکھا ہے۔ خواجہ فرید الدین گنج شکرؒ یاد آئے، بلبن نے بھید پا لیا تھا‘ فقیر کی دہلیز پہ جھکا اور مراد پا لی۔ فقد فاز فوزاً عظیما۔
اٹھ فریدا ستّیا تیری داڑھی آیا بور
اگّا نیڑے آ گیا، پچھا رہ گیا دور!