تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     26-05-2014

مودی خارجہ پالیسی میں نئی پیش رفت کریں

اگر وزیراعظم نریندر مودی چاہتے ہیں کہ ان کی خارجہ پالیسی حقیقت پسندی پر مبنی ہو تو اس کی لگام انہیں خود تھامنا ہوگی۔ وزیرخارجہ چاہے جسے بنا دیں مگر یہ واضح ہے کہ حکمران لیڈروں میںکوئی بھی اس کا ماہر نہیں ہے۔ اب تک جن چار وزرائے اعظم نے ہندوستان کی خارجہ پالیسی کو ڈھالا ہے ان میں نہرو، اندرا، نرسیماراؤاور واجپائی نمایاں ہیں ۔ ان کے وزیر خارجہ کوئی بھی رہے ہوں، خارجہ پالیسی کے بنیادی اصولوں کا تعین اورنفاذ انہوں نے خودکیا۔ نہرو اپنی حکومت کے وزیرخارجہ خود تھے جبکہ اندراگاندھی کے پاس سورن سنگھ، پی این ہکسر، ڈی پی دھر اور جی پارتھا سارتھی جیسے لوگ تھے لیکن راؤ صاحب اور اٹل بہاری واجپائی نے وزیر خارجہ رہتے ہوئے بین الاقوامی سیاست کے سارے داؤپیچوںکو اچھی طرح سمجھ لیا تھا۔ نریندر مودی کواس طرح کے تجربات سے گزرنے کا موقع ہی نہیں ملا، اس لیے ان کا راستہ کافی حد تک کانٹوں بھرا ہوگا اورانہیں پھونک پھونک کرچلنا ہوگا۔انہیں ایک طالب علم کی سی عاجزی دکھانی ہوگی اور ایسی مہارت جلد حاصل کرنی ہوگی کہ بھارت اگلے پانچ سال میں کم ازکم ایشیاکی، سب کے لیے قابل قبول سپر پاور بن جائے۔
سپرپاور سے میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ بھارت کو ہمیں امریکہ یا روس کی طرح بھیانک سپرپاوربنا دینا ہے، ہمارا مقصد یہ نہیں، قابل قبول سپر پاور بننا ہے۔ ہمیں پڑوسی ممالک پر نہ قبضہ کرنا ہے اور نہ ہی ان پر دادا گیری کرناہے۔ ہندوستان کا طرزعمل'بڑے بھائی‘ کا ہو، 'دادا‘ کا نہیں۔ ہماری ایشیائی ثقافت میں بڑے بھائی کا کردارکیسا ہوتا ہے ؟ قربانی اور تپسیا کا ، سب کو ملا کر چلانے کا ، سب کے سُکھ کو اپنا سُکھ سمجھنے کا ، 'بگ برادر‘ کا نہیں ، 'ایلڈر برادر‘ کا ! یہی وجہ ہے کہ نریندر بھائی نے پڑوسی ممالک کے رہنماؤں کو اپنی حلف برداری کی تقریب میں بلایا ہے۔ پڑوسی ممالک کو ہم نے تیس پینتیس سال پہلے نظراندازکیا۔ ہم دنیا کی دوستی میں پگلائے رہے، روس اور امریکہ کی برابری میں لگے رہے۔ اگر ہمارا زور شروع سے پڑوسی ممالک پر ہوتا توکیا سارک اب سے صرف 28 سال پہلے شروع ہوتا اورابھی تک لنگڑا تا رہتا؟ اب تک تو ہمیں یورپی یونین سے بھی آگے نکل جانا چاہیے تھا۔ سارک کے آٹھ اوران کے علاوہ برما، ایران ، ماریشس اور وسطی ایشیا کے پانچوں جمہوری ملکوں کو ملا کر یہ16 ممالک دنیاکی طاقت اور خوشحالی کے ذخائر بن چکے ہوتے، لیکن اب بھی دیر نہیں ہوئی ۔ نریندر مودی میں وہ قوت اور لگن ہے کہ وہ اپنے پہلے دور اقتدار میں ہی جنوبی اور وسطی ایشیائی تعاون کا ایک بے مثال ڈھانچہ کھڑاکردیں۔ ہماری مشترکہ مارکیٹ ہو، مشترکہ پارلیمنٹ ہو اور مشترکہ فیڈریشن ہو۔ اگر یہ ہو جائے تواکیسویں صدی کو ایشیا کی صدی بننے سے کون روک سکتا ہے ؟
اگر اس نقشے کے مطابق ہندوستان کی خارجہ پالیسی چلے تو بھارت کی غربت پانچ برسوں میں دور ہو سکتی ہے، تلاش کرنے پر بھی بھارت میں غریب نامی کوئی شخص نہیں ملے گا اوراگر بھارت امیر ہوگا تو اس کے پڑوسی تو غریب رہ ہی نہیں سکتے ، کیونکہ جنوبی ایشیا کی غربت ، ناخواندگی ، تنگی اور نا انصافی کو بھارت اکیلا دور نہیںکرسکتا، سب مل کر کریںگے۔ بھارت کے پڑوسی ممالک کی زمین میں اتنا تیل ، لوہا ، سونا ، گیس، ایلومینیم، تانبا وغیرہ انمول مال بھرا ہوا ہے کہ اس علاقے کو ہم دنیا کی طاقت کا ذخیرہ کہہ سکتے ہیں۔ اگر پڑوسیوں سے ہمارے تعلقات مدھر ہوں اور اقتصادی فیڈریشن بن جائے تو بھارت کے کروڑوں نوجوان ان ممالک میں جاکر دولت پیدا کریں۔ جب دولت برسنے لگے گی تو جنوبی ایشیا کے ملک اپنے باہمی جھگڑوںکو اپنے آپ دری( کارپٹ ) کے نیچے سرکا دیں گے، سرحدی تنازعات بے معنی ہو جائیں گے، جنگ بے جواز بن جائے گی، فوجی اخراجات ایک چوتھائی رہ جائیں گے اورکوئی نوجوان بے روزگار نہیںہوگا جبکہ دہشت گردی خود بے روزگار ہو جائے گی۔
اس عظیم تصورکو عملی جامہ پہنانے کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے پاک بھارت کشیدگی۔ اگران دو ملکوں کے تعلقات ہموار ہوں تو بھارت کے لیے لندن ، ماسکو ، پیرس ، انقرہ، تہران اور کابل تک کے راستے کھل جائیں گے ۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے دل میں بھارت کی دہشت بیٹھی ہوئی ہے، اسی لیے فوج کو وہاں سکیورٹی کے حوالے سے بڑی اہمیت حاصل ہے ، اسی لیے ایٹم بم ہے اور اسی لیے دہشت گردی ہے۔ اٹل جی نے مینار پاکستان پر جاکر اس خوف کو بہت حد تک دورکیا تھا۔کیا نریندر مودی اپنے لیڈرکے مشن کو آگے بڑھائیں گے؟ منموہن سنگھ دس سال کرسی پر ڈٹے رہے لیکن وہ اس سے اترکر ایک قدم بھی نہیں چل سکے۔ وہ پاکستان جانے سے کتراتے رہے۔ مودی تحمل سے کام لیں اور پہل کریں تو کامیابی یقینی ہے۔ میاں نواز شریف خود بھارت سے ہموار تعلقات چاہتے ہیں ۔ پاکستان کے عوام بھی یہی چاہتے ہیں۔ میں درجنوں بار پاکستان گیا ہوں، وہاں ہفتوں رہا ہوں، گاؤں گاؤں، شہرشہرگھوما ہوں۔۔۔جتنی اپنائیت ذاتی سطح پر میں نے 
وہاں دیکھی، دنیا کے بہت کم ممالک میں دیکھی۔کیا اس ذاتی تجربے کو ہم قومی تجربے میں نہیں تبدیل کر سکتے؟ اگر پاکستان کے ساتھ تعلقات معمول پر آ جائیں تو دوسرے پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات تو مزیدگہرے ہوں گے ہی۔ اب ممتا بینر جی یا کرونا ندھی یا جے للتا سے ڈرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں، ان کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ مودی چاہیں تو بنگلہ دیش اور سری لنکا سے کھل کر بات کر سکتے ہیں۔ انہیں ملک میں کسی سے دبنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے بنگلہ اور تامل مفادات کو قربان نہ ہونے دیں۔ اگر گریٹر سارک کے ممالک مل کر قدم بڑھائیں تو ہمارے علاقائی معاملات میں چین کی مداخلت اپنے آپ کم ہو جائے گی۔ بھارت، چین تعلقات میں مقابلہ آرائی ضرور رہے گی لیکن وہ مقابلہ آرائی تعمیری ہوگی۔ افغانستان سے امریکہ کی واپسی کے بعد اگر پاک بھارت مشترکہ حکمت عملی بنے تو چین اس میں بھی معاون ہو سکتا ہے۔ بھارت اور چین مل کر اقوام متحدہ کا نقشہ بھی تبدیل کر سکتے ہیں ، بھارت سلامتی کونسل کا مستقل رکن بھی بن سکتا ہے۔ دنیا کی سپر پاور میں بھارت اپنا مقام بنائے، اس کے لیے اس کی فوجی اور اقتصادی صلاحیت تو قابل ذکر ہونی ہی چاہیے،اس کی ثقافتی وخارجہ پالیسی بھی عالمی سیاست پر گہرا اثر ڈال سکتی ہے ، لیکن مودی حکومت اگر مذکورہ مسئلے پر پوری طرح توجہ دے تو 67 سال سے الجھی ہوئی کئی گرہوں کو کھولا جا سکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved