تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     26-05-2014

حکمرانوں کا کام

جس طرح کسی زمانے میں سرکاری پرائمری سکولوں میں کسی پڑھا کو اور لائق فائق بچے کی زندگی اجیرن ہوتی تھی‘ وہی حال آج کل ہر اس آدمی کا ہے جس کے بارے میں معمولی سا شبہ بھی ہو کہ اسے موجودہ صورتحال کا تھوڑا بہت ضرور پتہ ہے ۔بدقسمتی سے میرے کچھ دوستوں کا میرے بارے میں یہی خیال ہے۔اس قسم کے خیال کو مہذب الفاظ میں غلط فہمی کہتے ہیں۔سرکاری پرائمری سکولوں میں کسی زمانے میں انسپکٹر سکولز دورہ کیا کرتا تھا۔اللہ جانے اب ایسا ہوتا ہے یا نہیں ۔جہاں باقی سب کچھ برباد ہوا ہے‘ گمان غالب ہے انسپکٹر وغیرہ کا اول تو عہدہ ہی ختم ہو چکا ہوگا‘ یا غالباً اب ای ڈی او یا ڈی ای او وغیرہ میں تبدیل ہو چکا ہو گا۔پچھلے کچھ عرصے سے ہم نے نظام کی خرابی دور کرنے کا بڑا تیربہدف نسخہ دریافت کیا ہے کہ اس گلے سڑے نظام کے کل پرزوں کا نام تبدیل کر دیا جائے‘ اس سے نظام میں انقلابی تبدیلی آ جائے گی۔اب سارے صوبے میں ای ڈی او ز ‘ڈی ای اوز‘ڈی ڈی اوز اور اسی قبیل کے دیگر بے شمار اور ان گنت عہدے تخلیق کر دیے گئے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نظام کی درستی تو ایک طرف‘لوگوں کو نئے سرکاری عہدوں اور ان پر فائز افسروں کا ہی پتہ نہیں چل رہا کہ کون کس مرض کی دوا ہے۔
جب انسپکٹر سکولز کا دورہ ہوتا تھا سارے سکول کی صفائی کی جاتی تھی۔صدر دروازے سے ہیڈ ماسٹر کے کمرے تک چونے سے دو متوازی لکیریں لگا کر ''ریڈ کارپٹ‘‘ ٹائپ استقبالیہ راستہ بنایا جاتا تھا۔ماسٹر صاحب استری شدہ کپڑے پہن کر آتے تھے اور انسپکٹر سکولز کے متوقع سوالات کے جواب دینے کے لیے کلاس کے دو تین لائق فائق لڑکوں کو مختلف قطاروں میں بٹھا دیا جاتا تھا اور انسپکٹر کے سوالات کے جواب کے لیے ان کو اشارے سے کھڑا کیا جاتا تھا اور دورہ کرنے والے سرکاری افسر کو یہ تاثر دیا جاتا تھا کہ کلاس قابل بچوں سے بھری پڑی ہے اور تعلیم و تدریس کا معیار بہت شاندار ہے۔ ان دو تین بچوں کی زندگی عذاب میں ہوتی تھی اور انہیں اپنے ماسٹر کی قابلیت اور تدریسی مہارت کو انسپکٹر وغیرہ کے سامنے ثابت کرنے کے لیے پوری کلاس کی تعلیمی قابلیت کا بوجھ اٹھانا پڑتا تھا۔ہر قسم کے انحطاطی دور میں یقین کامل ہے کہ اب دورہ کرنے والے افسران گھر بیٹھے دورہ کر کے ٹی اے ڈی اے وغیرہ وصول کر لیتے ہوں گے۔ ویسے افسران کی ذاتی قابلیت بھی اتنی نہیں کہ وہ بچوں سے کوئی سوال پوچھیں۔ظاہر ہے سوال کرنے والے کو سوال کرتے ہوئے اس کا جواب خود بھی تو آنا چاہیے۔فی زمانہ یہ ایک مشکل کام ہے۔
امریکہ فون پر شوکت سے بات ہوئی۔ اس کا پہلا سوال تھا کہ میڈیا میں کیا ہو رہا ہے ؟تمہارا کیا خیال ہے کیا ہونے جا رہا ہے؟خالد منیر سے فون پر بات ہوئی تو وہ پوچھنے لگا کہ آپ کا کیا خیال ہے آگے کیا ہو گا؟چینل بند ہوں گے یا نہیں؟بابر حسین سے انگلینڈ فون پر بات ہوئی تو وہ پوچھنے لگا کہ بھائی !میڈیا کا کیا مستقبل ہے؟عمران خان اور جیو کی لڑائی کا کیا بنے گا؟حکومت کس کے ساتھ ہے؟مولوی سے ملاقات ہوئی تو چھوٹتے ہی اس نے سوال داغ دیا کہ پیمرا کیا کر رہی ہے؟کیا اس کا اجلاس قانونی تھا یا غیر قانونی؟شاہ جی پوچھنے لگے جسٹس جواد خواجہ کی میر شکیل سے کیا رشتہ داری ہے؟وہ بنچ میں بیٹھیں گے یا بالآخر علیحدہ ہو جائیں گے؟تمہارا دوست پرویز رشید تو پوری طرح جیو کے ساتھ ہے۔ میاں نواز شریف کس کے ساتھ ہیں؟ 
میں شوکت‘خالد منیر‘ بابر حسین‘مولوی اور شاہ جی کو کہتا ہوں کہ یہ افراتفری میں شروع کی گئی ایسی لڑائی ہے جس کا نہ کوئی سر ہے اور نہ پیر۔سارے فریق بغیر تیاری اور ہوم ورک کے دست و گریبان ہیں۔ان کو خود پتہ نہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں‘ بھلا مجھ جیسے عاجز کو کیا پتہ کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔آپ لوگ مجھ کو پرائمری سکول والا لائق فائق بچہ نہ سمجھیں۔میں خاصا نالائق ہوں اور اس معاملے میں تو بالکل ہی کورا ہوں۔مجھے کچھ پتہ نہیں کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔یہ بات آپ ان سے پوچھیں جو زرداری دور میں ہر چوتھے دن حکومت کے جانے کی تاریخیں دیتے تھے اور مستقبل کی باتیں ایسے بتاتے تھے جیسے فٹ پاتھ پر بیٹھا ہوا طوطا لفافے میں سے مستقبل کا حال نکالتا ہے اور طوطے والا وہ چھپا ہوا حال آپ کو سنا دیتا ہے۔میں تب بھی کہتا تھا کہ معاملہ ایسے ہی چلتا رہے گا اور اب بھی میرا یہی خیال ہے کہ سب لوگ اسی تنخواہ پر کام کرتے رہیں گے۔
یہ ایک لڑائی ہے جس میں ہر فریق خسارے میں ہے۔بظاہر چار فریق ہیں اور چاروں کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ حکومت ‘عسکری ادارہ ‘ٹی وی چینل اور خوامخواہ درمیان میں کود پڑے والا عمران خان۔عمران خان بھی سراسر خسارے میں ہے۔سمجھ بوجھ اور عقل رکھنے والے اس کے حمایتی تک یہ پوچھتے نظر آ رہے ہیں کہ اس موقع پر اس دھینگا مشتی میں شامل ہونے کی عمران کو کیا سوجھی تھی؟وہ کس کے اشاروں پر اس لڑائی میں کودا ہے؟سیاست ٹائمنگ کا نام ہے۔غلط وقت پر درست فیصلہ اور درست وقت پر غلط فیصلہ‘ انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی نقصان کا باعث بنتا ہے اور یہی حال اس وقت عمران خان کا ہے۔تاہم مجھے ایک بات کا ضرور پتہ ہے کہ میاں نواز شریف نے دو بار حکومت کے خاتمے اور جلا وطنی سے میرا مطلب ہے ملک سے بھاگ جانے کے باوجود کچھ نہیں سیکھا۔اداروں سے خوامخواہ سینگ پھنسانے کا شوق ابھی تک اسی ذوق و شوق سے جاری و ساری ہے جس کے باعث وہ پہلے بھی ٹھوکریں کھا کر اپنے اقتدار کے دانت تڑوا چکے ہیں۔ شاباش ہے ان کی ثابت قدمی پر اور مستقل مزاجی پر۔
چودھری بھکن کہنے لگا جناب!آپ تھوڑی غلطی کر رہے ہیں ۔میاں صاحب میں تھوڑی سی تبدیلی آئی ہے ۔پہلے وہ خود ڈائریکٹ ہوتے تھے‘ اب انہوں نے اس کام کے لیے ''ہیلپر فٹر‘‘ٹائپ لوگ رکھ لیے ہیں۔ ایک ٹی وی چینل کے معاملے میں وہ خود خاموش ہیں۔پیمرا کے سرکاری ممبران ان کی نیابت کر رہے ہیں۔پرویز رشید اندر سے جیالے ہیں وہ سینگ پھنسا رہے ہیں۔میاں صاحب اب ذاتی طور پر لڑائی میں کودنے کے بجائے ''چھوٹوں‘‘ سے کام لے رہے ہیں۔پیمرا کے سرکاری افسران اور پولیس کیبل آپریٹروں پر پریشرڈال رہی ہے۔ میاں صاحب خود ڈپلومیٹک ہو گئے ہیں۔یہ ایک مثبت تبدیلی ہے۔باقی رہ گئی بات اداروں سے ''اٹ کھڑکا‘‘کرنے کی ۔تو میاں!پنجابی کہاوت ہے کہ ''عادتیں زندہ رہتے ہوئے تو تبدیل نہیں ہوتیں‘‘اب بھلا پینسٹھ سال کی عمر میں وہ خاک تبدیل ہوں گے۔ اس عمر میں تو ساری سمجھداری کرنے والے تبدیل ہونے سے عاری ہو چکے ہوتے ہیں۔
صوفی خاموش بیٹھا تھا ۔شاہ جی نے کہا صوفی صاحب!آپ کچھ نہیں بولتے۔یہ حکومت کب تک چلے گی؟صوفی کہنے لگا۔یہ آدمی(میری طرف اشارہ کر کے) ٹھیک کہتا ہے۔چند دن کی بات ہے سب ٹھیک ہو جائے گا۔سب اپنی پرانی تنخواہ پر کام کریں گے۔کسی کے پاس کوئی متبادل حل یا راستہ نہیں ہے۔آپ بتائیں کیا حل ہے؟کون آئے گا اور کیسے آئے گا؟فوج آنا نہیں چاہتی۔میاں صاحب جانا نہیں چاہتے۔۔عمران کے پاس فی الوقت دھاندلی کے علاوہ اور کوئی ایجنڈا نہیں اور لوگ آہستہ آہستہ اس یک نکاتی ایجنڈے سے بیزار یا لاتعلق ہوتے جا رہے ہیں۔میڈیا کو واپس لپیٹنا اب ایسے ہی ہے جیسے وقت کا پہیہ الٹا چلانے کی کوشش کی جائے۔فوج خود کوئی غیر آئینی یا ماورائے قانون اقدام کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔پیمرا کے پاس وزارت دفاع کی شکایت فوج کے اس مثبت طرز عمل اور سوچ کی عکاس ہے۔اب اور کون سا راستہ باقی بچتا ہے‘معافی تلافی ہو گی۔چار چھ لوگ فارغ ہوں گے۔درمیانی راستہ بندوق سے نہیں دلیل اور قانون سے نکلتا ہے اور اسی سے نکلے گا۔ماورائے آئین کچھ نہیں ہونے کا۔ایسی امید رکھنے والوں کو مایوسی ہو گی۔فکر یہ کریں کہ افغانستان میں عبداللہ عبداللہ اور بھارت میں نریندر مودی آ رہا ہے۔امریکہ علاقے سے رخصتی کے لیے پر تول رہا ہے اور ہم خلیفہ معتصم باللہ کی طرح نان ایشو ز میں پھنسے ہوئے ہیں۔ 19اپریل والا معاملہ بھی اہم تھا مگر وہ مارننگ شو والا واقعہ تو ناقابل برداشت تھا۔ قانون موجود ہے۔ عدالتیں کھلی ہیں۔ حکمران ہر معاملے میں ٹانگ پھنسانے کے بجائے ان معاملات کو ان کے حقیقی فورمز پر طے ہونے دیں اور خود وہ کریں جو حکمرانوں کا کام ہے اورجس کے لیے عوام نے انہیں منتخب کیا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved