تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     26-05-2014

ریکارڈز کا زمانہ

جن کا کام ہی جلنا ہے وہ ہر بات سے جلتے ہیں۔ کوئی ذرا سی کامیابی حاصل کرلے تو اُنہیں تکلیف ہوتی ہے۔ کوئی ذرا سا نمایاں ہو جائے تو اُن پر پژمردگی چھا جاتی ہے۔ حکومت نے ایک سال مکمل کرلیا ہے اور اِس چھوٹی سی مُدّت میں اُس نے کئی کار ہائے نمایاں انجام دیئے ہیں۔ مسلم لیگ ن کا یہ تیسرا دورِ حکومت ہے۔ پہلے تو ادوار خیریت سے گزرے تھے مگر اب معاملہ مختلف ہے۔ ریکارڈز کی خیر نہیں۔ بعض معاملات میں تو پیپلز پارٹی پر بھی لرزہ طاری ہے! حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لینے بیٹھیے تو صرف ریکارڈز ہاتھ آتے ہیں۔ اور ریکارڈ بھی ایسے ایسے کہ سوچنے ہی سے ریڑھ کی ہڈی میں ایک لہر سی دوڑ جاتی ہے۔ 
کبھی کبھی ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ وفاق اور پنجاب میں حکومت کو سازش کے تحت ریکارڈ سازی پر لگادیا گیا ہے۔ شہباز شریف کا سارا ولولہ مختلف ریکارڈز توڑنے پر صرف ہو رہا ہے۔ ہزاروں افراد کو جمع کرکے مختلف ریکارڈز بنانے کا پنجاب کے وزیر اعلیٰ پر ایسا جُنون چڑھا ہوا ہے کہ زندہ دلانِ لاہور کوئی ریکارڈ بنائے بغیر چار چھ دن گزار لیں تو چاروں طرف ویرانی سی محسوس ہوتی ہے! حد یہ ہے کہ ریکارڈ بنانے کے لیے لاکھ سوا لاکھ افراد کو جمع کرکے کوئی ریکارڈ بنائے بغیر واپس گھر بھیجنے کا ریکارڈ بھی بنایا جاچکا ہے! 
ایک خبر یہ آئی ہے کہ تیسری بار وزیر اعظم بن کر ریکارڈ قائم کرنے والے لیڈر جناب نواز شریف نے تیسرے دورِ حکومت کے پہلے سال 14 بیرونی دورے کرکے (ملک کی سطح پر) ریکارڈ قائم کردیا ہے۔ جنہیں جلنا ہے وہ میاں صاحب سے جلتے رہیں، ہمیں تو اُن کے دوروں پر رشک ہی آتا ہے۔ ایک وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی تھے جو سوا چار سال میں صرف 17 بیرونی دورے کر پائے۔ ایک بار پھر کسی نے برین ڈرین یعنی ذہین افراد کے ملک سے جانے کی طرف توجہ دلائی اور بتایا کہ ملک کے حالات ایسے نہیں کہ آدمی ڈھنگ سے جی سکے۔ اِس کے جواب میں پہلے تو اُنہوں نے اپنی مثال دی کہ اِنسان چاہے تو اِس ملک میں مزے سے جی سکتا ہے۔ پھر خاصے سخت لہجے میں مشورہ دیا کہ کوئی اگر کہیں جاسکتا ہے تو فوراً چلا جائے، وطن میں رکنے کی زحمت گوارا نہ کرے۔ 
مرزا تنقید بیگ میاں صاحب کے بیرونی دوروں سے بہت خوش ہیں۔ ایک سال میں 14 بیرونی دوروں کے ریکارڈ کو سراہتے ہوئے مرزا نے کہا۔ ''قوم کو تکلیف سے بچانے کا یہ بھی ایک اچھا طریقہ ہے۔‘‘ 
ہم حیران ہوئے۔ وزیر اعظم کے بیرونی دوروں سے قوم بھلا کس طور تکلیف سے محفوظ رہ سکتی ہے؟ مرزا نے ہماری حیرانی بھانپ لی اور وضاحت فرمائی۔ ''میاں صاحب جب ملک میں ہوتے ہیں تو کہیں نہ کہیں تو جانا ہوتا ہی ہے۔ وزیر اعظم ہاؤس سے نکلتے ہیں تو روٹ لگتا ہے، ٹریفک روک دی جاتی ہے، لوگ جہاں ہوتے ہیں وہیں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔ جب وہ ملک میں نہیں ہوتے تو رُوٹ بھی نہیں لگتے، گاڑیوں کی آمد و رفت بھی روکی نہیں جاتی اور عوام کی نقل و حرکت پر کوئی قدغن نہیں لگائی جاتی۔ یعنی جب وی وی آئی پی موومنٹ نہیں ہوتی تو لوگ خاصی پریشانی سے بچے رہتے ہیں۔‘‘ 
ہم نے مرزا سے ایک حد تک اتفاق کیا۔ وی وی آئی پی 
موومنٹ نہ ہونے سے لوگ معمول کی زندگی بسر کرنے کے قابل رہتے ہیں۔ مگر اِس کا یہ مطلب تو ہرگز نہیں کہ اُنہیں وزیر اعظم ااپنی سنگت ہی سے محروم کردیں! مرزا نے ہماری بات سے یکسر عدم اتفاق کرتے ہوئے کہا۔ ''اگر جمہوریت چاہیے تو پہلے خود کو جمہوریت کے قابل بناؤ۔ اگر وزیر اعظم کا ساتھ درکار ہے تو پہلے خود کو اِس کے لیے تیار تو کرو۔ یہ قوم اب اِس قابل ہے کہ کوئی وزیر اعظم یہاں ٹِکے؟ میاں صاحب ترقی یافتہ ممالک کے دورے کرتے ہیں۔ یہ بھی وژن کو بلند اور وسیع کرنے کی مشق ہے مگر افسوس کہ تم جیسے کوڑھ مغز اِس باریک سے نکتے کو سمجھ نہیں پاتے۔‘‘ 
ہم نے اندازہ لگالیا کہ مرزا کچھ بھی ماننے کے موڈ میں نہیں۔ ایسی حالت میں اُن سے بحث کرنا اپنے دماغ کی جان جوکھم میں ڈالنے جیسا ہے۔ پھر بھی نہ جانے کس خیال کی رَو میں ہم نے کہہ دیا کہ کسی لیڈر کے مُلک میں رہنے میں کیا قباحت ہے، آخر ہم (عوام) بھی تو وطن میں آباد ہیں۔ بس یہ سُننا تھا کہ مرزا کا پارہ چڑھ گیا۔ تُنک کر بولے۔ ''تم کہاں اور وہ کہاں؟ تم لوگ مُلک سے باہر بیٹھے ہوئے لیڈروں کو بلاتے رہتے ہو مگر کبھی سوچتے نہیں کہ وہ آئیں گے تو کیا ہوگا؟ 
جب تمہاری دیواریں شکستہ ہیں تو ع
کیوں مانگ رہے ہو کسی بارش کی دعائیں؟ 
ہر وقت شور مچا رہتا ہے کہ جو لیڈر باہر ہیں اُنہیں وطن آنا چاہیے۔ وہ آ تو جائیں مگر ع
پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلبِ صمیم 
ہمیں کھانے کو بہت کچھ چاہیے مگر پہلے ہاضمہ تو درست کرلیں!‘‘ 
ہم مرزا کے دلائل سے متفق نہ ہو پائے۔ تو کیا ہم یوں ہی، وزیر اعظم کے بغیر رہا کریں؟ 
مرزا تو جیسے اِسی جُملے کے منتظر تھے۔ پہلے سے زیادہ تُنک کر بولے۔ ''کون سی کمی واقع ہوئی ہے یا ہو جائے گی؟ ہم اِتنی بہت سی چیزوں اور باتوں کے بغیر بھی جی ہی رہے ہیں۔ کردار کی بلندی ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ سرکاری مشینری غائب ہے۔ تعلیم ہے نہ تربیت۔ کہیں کہیں تو اسکول ہی نہیں۔ کہیں اسکول ہیں تو اساتذہ ندارد۔ اور اساتذہ ہیں تو طلبا ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔ پھر بھی سب کچھ چل رہا ہے۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ کوئی ہم میں ہو نہ ہو، سب کچھ چلتا رہے گا۔ یہ بھی بجائے خود ایک ریکارڈ ہے!‘‘ 
ریکارڈ بنانے کا رجحان ایسا پروان چڑھا ہے کہ اب ہر طرف ریکارڈ ہی ریکارڈ دکھائی دے رہے ہیں۔ ریکارڈز کی لہروں میں بہت کچھ غرقاب ہوکر رہ گیا ہے۔ ریکارڈز کی گرد کچھ بیٹھے تو کارکردگی دِکھائی بھی دے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved