یہ راز نہ جانے کتنے سالوں سے میرے سینے میں دفن تھا۔ آج بھی صرف اس لئے لاوے کی طرح پھوٹ پڑا ہے کہ ہر کوئی قومی اداروں کو گالیاں دینا اپنا بنیادی حق سمجھنے لگا ہے۔ شاید ان کا قصور یہ ہے کہ وہ وطن دشمنوں کے ناپاک منصوبوں کو خاک میں ملا دیتے ہیں ؟ آج ایٹم بم کے نام پر سیاست چمکانے والے کم نصیبوں کے منہ میں گھی شکر ڈالنے والوں کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ آئی ایس آئی ہی تھی جس نے ہمارے ایٹمی پروگرام کو را کے غلیظ ارادوں سے محفوظ رکھا؟ پاکستان کے ایٹم بم کے ابتدائی مرحلے میں کہوٹہ میں ''Fissile-Material'' کی تیاری کا کام ابھی شروع ہی ہوا تھا کہ اسرائیل اور را کے ایجنٹوں نے بھی اپنی سر گرمیاں تیز کر دیں۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ کہوٹہ میں کیا ہو رہا ہے اور پاکستانی فوج اور اس کے سائنسدان کس حد تک پہنچ چکے ہیں؟ دشمن بڑی احتیاط اور عیاری سے قدم آگے بڑھاتا رہا اور بالآخر کہوٹہ کے نزدیک ایک باربرشاپ سے عملے کے سر اور داڑھیوں کے کاٹے گئے بال اڑا لینے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ بال بھارت بھیجے گئے۔ ان بالوں کی لیبارٹری رپورٹس آنے پر ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کیونکہ ان رپورٹس کے مطا بق پاکستان ایٹم بم کیلئے مطلوب''Highly Enriched Uranium'' تیار کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ ابھی بھارتی اور اسرائیلی ائر فورسز مشترکہ مشن کے ذریعے کہوٹہ کو تباہ کرنے کا سوچ ہی رہی تھیں کہ آئی ایس آئی نے ایک میجر آپریشن کے ذریعے کہوٹہ کے گرد را کے ایجنٹوں کا صفایا کرنے کے علاوہ بھارت کو سخت زبان میں متنبہ کر دیا۔
بے شک کمزور لوگوں کا سچ خزاں کے خشک پتوں جیسا ہوتا ہے جسے طاقتور اپنے پائوں تلے روند کر خاک میں ملا دیتا ہے لیکن ایک دن جیت اسی خاک آلود سچ کی ہوتی ہے‘ بے شک یہ سچ میرے جیسے کسی معمولی اور کمزور شخص کا ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔۔۔ ''یوم تکبیر‘‘ کی عظمتوں کا آغاز 1976ء میں اس وقت ہوا‘ جب کوئٹہ کی پانچویں کور کے بریگیڈیئر محمد سرفراز کو جی ایچ کیو راولپنڈی سے ایک اہم پیغام موصول ہوا کہ پی اے ای سی کے سائنسدانوں کی ٹیم کو بلوچستان کے کچھ علاقوں کا سروے کرنا ہے۔ ان کے لیے فوجی ہیلی کاپٹر اور سکیورٹی کا انتہائی اعلیٰ انتظام کیا جائے۔ جی ایچ کیو کی اس فون کال کے اگلے ہی دن ڈاکٹر اشفاق اور ڈاکٹر ثمرمبارک مند پر مشتمل سائنسدانوں کی ایک ٹیم کوئٹہ پہنچی۔ انہوں نے تین دن قیام کیا اور اس دوران فوج کے ہیلی کاپٹر وںکے ذریعے سارا سارا دن بلوچستان کے جنوب میں تربت، آواران‘ خضدار اور مشرقی حصے میں کھاران کے علاقوں کا تفصیلی زمینی اورفضائی دورہ کیا۔ اس دورے کا مقصد ایسے پہاڑی سلسلے کی تلاش تھی‘ ایٹمی تجربات کے لیے جہاں زیر زمین سر نگیں کھودی جا سکیں۔ یاد رہے کہ 20 کلو ٹن کا ایٹمی دھماکہ کیا جانا تھا۔ پہاڑوں اور میدانوں کی خاک چھاننے کے بعد وہ ایک ایسا پہاڑی سلسلہ تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے جوچاغی ڈویژن کے راس کوہ سلسلے کے گرینائٹ پہاڑوں میں 185 میٹر بلندی پر واقع تھا۔
1977ء تک چاغی کی ا س سرنگ پر انتہائی احتیاط اور خفیہ طریقے سے کام ہوتا رہا جس میں 20 کلوٹن ایٹمی مواد رکھنا مقصود تھا۔ پہاڑوں اور ارد گرد کی زمین کی طاقت اور مضبوطی کے علا وہ اس میں نمی اور پانی کے مطلوبہ تناسب کا جائزہ لیا جاتا رہا اور اس کیلئے ان گنت ٹیسٹ کیے جاتے رہے۔ جب یہ مرحلہ اطمینان بخش طریقے سے مکمل ہو گیا تو ڈاکٹر اشفاق کیلئے دوسرا اہم ترین کام یہ تھا کہ اس علاقے کا vertical سروے کیا جائے۔ ڈاکٹر اشفاق کی ٹیم کو یہ سروے مکمل کرنے میں ایک سال لگ گیا اور جب یہ مرحلہ بھی کامیابی سے انجام پا گیا تو فیصلہ ہوا کہ ایسی جگہ سرنگ کھودی جائے جس کے اوپر کم از کم700 میٹر اونچائی تک پہاڑ ہو‘ تاکہ سرنگ میں ہونے والے 20 کلوٹن ایٹمی مواد کے طاقتور دھماکے کو برداشت کر سکے۔ اﷲ کے فضل و کرم سے دسمبر1979ء میں پاک فوج کے مایہ نازانجینئر 3325 فٹ طویل مطلوبہ سرنگ کھودنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ سرنگ 8 فٹ ڈائیامیٹر کی تھی اور یہ fishhook سے مشابہ تھی۔ کھاران میں جو زیر زمین سرنگ کھودی گئی وہ300 اور200 فٹ کیL شکل میں تھی۔
بریگیڈیئر سرفراز کی خدمات جنرل ضیا الحق نے پاکستان اٹامک کمیشن والوں کے سپر د کر دیں اور اس مقصد کیلئے سپیشل ڈویلپمنٹ ورکس کا ایک نیا ادارہ قائم کیا گیا جو براہ راست فوج کی نگرانی میں تھا اور اس کا کام ایٹمی دھماکوں کیلئے مطلوب زیر زمین عمودی اور افقی ہر دو قسم کی ٹیسٹ سائٹس کو تیار کرنا تھا۔ ان کی معاونت کیلئے پاک فوج کی مشہور زمانہFWO کی خدمات حاصل کی گئیں اور اس کا سربراہ بریگیڈیئر سرفراز کو مقرر کیا گیا جو صرف آرمی چیف جنرل ضیا الحق کو جواب دہ تھے۔ بریگیڈیئر سرفراز کو ہدایات دی گئیں کہ زیر زمین سب سرنگیں اس طرح تیار کی جائیں کہ جب بھی ان کی ضرورت پڑے‘ سات دن کے نوٹس پر کسی بھی قوت کے ایٹمی دھماکے کیلئے مکمل تیار حالت میں دستیاب ہوں اور ساتھ ہی یہ حکم بھی دیا گیا کہ یہ سارا کام1979ء تک ہر حالت میں مکمل کر لیا جائے۔ سپیشل ورکس ڈویلپمنٹ،پاکستان اٹامک انرجی کمیشن اور جنرل ضیا کے درمیان ہونے والی کئی
میٹنگوں کے بعد یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ احتیاط کے طور پر ان پہاڑوں کے علاوہ دو یا تین دیگر مقامات پر بھی ایٹمی دھماکوں کیلئے مطلوب زیر زمین سرنگیں تیار رکھنی چاہئیں تاکہ ہنگامی صورت حال میں انہیں استعمال میں لایا جا سکے۔ چنانچہ Horizontal shaft سرنگ کیلئے بلوچستان کے راس کوہ سلسلے کے شمال اور سیاہان سلسلے کے جنوب میں واقع کھاران کے علاقے میںایک صحرائی وادی کا انتخاب کیا گیا۔ فوج کے جوانوں کی طرف سے یہ کام شروع کیے جانے سے قبل پورا علاقہ ہر قسم کی سول نقل و حرکت کیلئے مکمل طور پر بند کر دیا گیا جس پر یہ افواہیں پھیلنا شروع ہو گئیں کہ امریکہ کو یہاں ہوائی اڈہ بنانے کی اجا زت دے دی گئی ہے۔ اس افواہ کو تقویت اس لئے بھی ملنا شروع ہوئی کہ انہی دنوں میں ایک عالمی ادارے نے تربت میں اپنا ایک دفتر بنانا شروع کیا تھا۔ راس کوہ اور کھاران کی مطلوبہ سرنگیں کھودنے اور انہیں مکمل تیار کرنے میں دو سے تین سال کا عرصہ لگا۔ 1980ء میں یہ کسی بھی قوت کے کامیاب ایٹمی تجربے کیلئے مکمل ہو چکی تھیں۔ ان بنیادی سرنگوں کے علاوہ پاک فوج کے ادارے سپیشل ڈویلپمنٹ ورکس نے24 کولڈ ٹیسٹ سائٹس،46 شارٹ ٹنلز اور35 زیر زمین رہائش گاہیں تعمیر کیں جہاں حفاظت پر مامور جوانوں کی رہائش گاہوں کے علاوہ کمانڈ اینڈ کنٹرول اور مانیٹرنگ کی سہولیات فراہم کی گئی تھیں۔
آج وہ لوگ ایٹم بم کو اپنے نام کر رہے ہیں جن کے ناموں سے ا س وقت گلی محلے کے علاوہ کوئی واقف بھی نہیں تھا۔(جاری)