عام انتخابات میں بے مثال اور تاریخی جیت کے بعد جس طرح نومنتخب وزیراعظم نریندر مودی نے متنازع رہنما ہونے کے باوجود جنوبی ایشیائی تنظیم سارک کے رہنمائوں خصوصاً پاکستانی ہم منصب نواز شریف کو حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت دی، اس سے یہ امید بندھی ہے کہ خلاف توقع شاید بھارت کی نئی حکومت ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تعلقات کا ایک نیا باب رقم کرنے والی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک سینئررکن نے مجھے بتایا کہ بھاری مینڈیٹ ان کے لیے خدشات بھی لے کر آیا ہے۔ عوام خصوصاً نوجوان طبقہ نے مودی حکومت کے ساتھ خاصی امیدیں وابستہ کرلی ہیں۔ اگر یہ امیدیں بارآور نہ ہوئیں تو یہ طبقہ سڑکوں پر آنے اور حکومت کو اکھاڑ پھینکنے میں دیر نہیں لگائے گا۔تنزل پذیر معیشت کی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ خطے میں امن و استحکام ہو اور اس مقصد کے حصول کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا جائے، چاہے وہ پُرامن بات چیت کا سلسلہ ہو یاسکیورٹی اقدامات ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ 2002ء میں گجرات کے مسلم کش فسادات کے حوالے سے عالمی سطح پر مودی کی شخصیت متنازع ہے لیکن مفادات کے حوالے سے اصول اور اقدار کی شاید ہی کوئی ملک پرواکرتا ہے ۔مودی بھی غالباً اب اس خول سے باہر آنے کے خواہاں ہیں۔
کہتے ہیں اقتدار اپنے ساتھ ذمہ داریا ں لاتا اور توازن پیدا کرتا ہے ۔ یہ وہی مودی اور بی جے پی ہیں جو انتخابی مہم کے دوران ہمسایہ ملک کواینٹ کاجواب پتھر سے دینے، یو پی اے حکومت کو ' بزدل ‘ اور 'ڈرپوک ‘ قرار دینے اور ایک انڈر ورلڈ ڈان کو لانے کا نعرہ لگاتے تھے مگر جیسے ہی اقتدار ملا ،ایسا معلوم ہوتا ہے ،وہ یہ سب بھول گئے ہیں ۔ اسی لیے ایک 'دشمن ‘ ملک کے سربراہ کو بھی تقریب حلف برداری میں مدعو کیا۔ مبصرین کے مطابق یہ دعوت نامے ارسال کرنے کا مقصد مودی کے مخالفین کو ایک سیاسی پیغام دینا ہے۔ مخالفین کہا کرتے تھے کہ مودی ایسے مخاصمت پسند لیڈر کے بر سر اقتدار آنے کی صورت میں ہمسایہ ملکوں کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہوگا۔ ہمسایہ ملک کے ایک وزیر نے بھی کچھ اسی طرح کا تبصرہ کیا تھا ۔
ادھر پاکستان کے ہائی کمشنر عبدالباسط نے پریس کلب آف انڈیا کے توسط سے ہائی کمیشن میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد نریندر مودی کا بحیثیت وزیر اعظم بھارت استقبال کرنے کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ دونوں ملکوں کے درمیان جلد ہی دو طرفہ مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ تمام مسائل بامعنی مذکرات سے حل کیے جاسکتے ہیں اور دونوں ملکوں کے عوام اس کے بات متحمل نہیں ہوسکتے کہ یہ تاریخ کے غلط رخ پر جائیں،جموں و کشمیر ایک اہم تنازع ہے اور بھارتی حکومت کو چاہیے کہ وہ اس وعدہ کو پورا کرے جو اس نے عالمی برادری سے کررکھا ہے۔
انتخابی مہم میں بی جے پی اور مودی نے پاکستان کارڈ کھیلنے کی بھی کوشش کی۔ مودی کے اس بیان پر کہ دائود ابراہیم کو واپس لایا جائے گا، کافی سخت ردعمل آیا تھا ۔ پاکستانی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے اسے '' غیر ذمہ دارانہ ‘‘ اور '' شرمناک ‘‘ قرار دیا اور کہا کہ ایسے لیڈر کے بر سر اقتدار آنے سے خطہ میں عدم استحکام پیدا ہوگا۔ اسی طرح مودی نے جموں میں اپنی ایک انتخابی تقریر میں پاکستان کو ہدف تنقید بنایا۔
مودی ایک مضبوط اور طاقتور رہنما کے طور پر اپنی شبیہ سازی ایک عرصہ سے کرتے آرہے ہیں ۔ انتخابی مہم میں بھی ان باتوں کی تکرار کرچکے ہیں کہ دائود ابراہیم کو بھارت واپس لائیں گے ، نام نہاد بنگلہ دیشیوں کو ملک سے باہر کردیں گے ، آنکھ دکھانے والے ہمسایوں کی آنکھ نکال دیں گے وغیرہ وغیرہ۔ وہ خارجہ امور کے سلسلہ میں جارحانہ مو قف کا اظہار کرتے اور یو پی اے حکومت کو نشانہ بناتے رہے ۔ اسی طرح بی جے پی کے ایک دوسرے لیڈر گری راج سنگھ نے مودی کی مخالفت کرنے والوں کو پاکستان بھیجنے کی دھمکی دی تھی ۔ اس پر مستزاد یہ ہے کہ مودی کو این ڈی اے کا با ضابطہ لیڈر منتخب کرنے کے بعد حلیف جماعت شیو سینا کے لیڈر ادھو ٹھاکرے نے بیان دیا کہ پاکستان کے ساتھ سخت رویہ اپنایا جائے اور کرکٹ کے روابط بحال نہ کیے جائیں،لیکن اچانک پاکستانی وزیراعظم کو دعوت دینے کی یہ 'قلابازی‘ کس چیز کی غمازی کرتی ہے؟ مودی اپنے ان بلند بانگ دعووں کو پورا کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو ان کے '' مرد آہن ‘‘ ہونے کا بھرم ٹوٹ جائے گا۔ یو پی اے حکومت داخلی ، بالخصوص بی جے پی اور دیگر فرقہ پرست تنظیموں کے ،دبائو کے باعث ہمسایہ ملکوں سے تعلقات بہتر بنانے میں پس و پیش کرتی رہی ۔اب این ڈی اے حکومت ،بالخصوص مودی کے لیے ایسا عمل کسی چیلنج سے کم نہ ہوگا کیونکہ انہیں اپنے سخت گیر حلقہ کو ناراض کرنے کا خطرہ مول لینا پڑے گا۔
ادھر امریکہ نے انتخابات کے آخری مرحلہ کے اختتام پر بھارتی جمہوریت کی تعریف کی ۔ وائٹ ہائوس اور دفتر خارجہ نے اپنے بیانات میں اس امر کو اجاگر کیا کہ دونوں ملکوں کے درمیان کئی مشترک قدریں ہیں ا ور واشنگٹن اس عزم کا اعادہ کرتا ہے کہ وہ بھارت کے نئے وزیر اعظم کے ساتھ معاملہ کرنے کے لیے تیار ہے ۔ اگرچہ ان بیانات میں کہیں نریندر مودی کا نام نہیں لیاگیا ، تاہم میڈیا نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ امریکہ مودی کے ساتھ معاملہ کی بات کر رہا ہے ۔ خیال رہے کہ گجرات کے مسلم کش فسادات میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے ماضی میں امریکہ نے اعلان کیا تھا کہ مودی کو امریکی سر زمین پر خوش آمدید نہیں کہا جائے گااور اب تک اس نے مودی سے کوئی معاملہ نہیں رکھا تھا ۔ گزشتہ سال وہاں جب آر ایس ایس کی ایک تنظیم نے مودی کے ویڈیو کانفرنس سے خطاب کا اہتمام کرنے کی کوشش کی تو اس کی سخت مخالفت ہوئی تھی اوراسے ملتوی کرنا پڑا تھا ۔ امریکہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایشیا کی بڑی طاقتوں جاپان اور چین کے علاوہ یو رپی یو نین کے ملکوں نے بھی مودی سے فاصلہ بنائے رکھا تھا ۔ بہرحال ثانی الذکر ملکوں نے مودی کے بھارت کے سیاسی منظر نامہ میں ابھار کے پیش نظر ان سے تعلقات استورا کرنے کا سلسلہ شروع کردیا، لیکن امریکہ اپنے اصولی موقف پر قائم رہا ،کیونکہ اوباما انتظامیہ کو مودی کے حوالے سے داخلی دبائو کا سامنا تھا ۔ جب فروری میں امریکہ کی خاتون سفیر نینسی پاویل نے گاندھی نگر میں مودی سے ملاقات کی تھی تو اس پر امریکہ میں سخت برہمی کا اظہار کیا گیا ۔امریکہ اور یورپ میں حقوق انسانی کی متعدد تنظیمیں اور دانشوروں کے حلقے مودی کے مخالف ہیں ۔ امریکی رضا کار تنظیمیں کولیشن اگینسٹ جینوسائڈ ( نسل کشی کے خلاف محاذ ) ، انڈین امریکن کونسل اور امریکی ریلجئیس فریڈم کمیشن وغیر ہ نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ مودی کی مخالفت کی مہم جاری رکھیں گے ۔
مودی نے انتخابی مہم کے دوران میں یہ بات با ر بار دہرائی کہ وہ امریکہ کے ساتھ ماضی کی تلخیوں کو در آنے نہیں دینا چاہتے ۔ مودی نے یہاں تک کہا کہ امریکہ اور بھارت دونوں ایک دوسرے کے '' فطری دوست ‘‘ہیں۔ یہ بات سب سے پہلے اٹل بہاری واجپائی نے کہی تھی ۔ امریکہ اور اسرائیل نوازی کے معاملہ میں بی جے پی اور کانگریس کا کم و بیش ایک جیسا معاملہ ہے ۔ مودی نے جس طرح اپنے دور حکومت میں گجرات میں بڑے بڑے سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کی پشتیبانی کی،وہ اس کی واضح مثال ہے ۔ جہاں امریکہ کو اپنے مفادات کی بار آوری کے لیے بھارت میں ایک دوستانہ حکومت کی سخت ضرورت ہے ، وہیں بی جے پی کو بھی عالمی سطح پر ایک طاقتور حلیف درکار ہے ۔برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک پہلے ہی اپنی معیشت کی دگر گوں حالت کے سبب اپنے اصولی موقف کو ترک کر چکے ہیں۔ اگر امریکہ بھی اسی پر عمل کرتا ہے تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہوگی ۔
پاکستان کے ساتھ کشمیر سمیت کئی متنازع امور، بنگلہ دیش کے ساتھ تیستا ندی کی پانی کی تقسیم کا معاہدہ اور سرحدوں کے تعین کا معاملہ جس کی بی جے پی مخالفت کرتی رہی، سری لنکا کے ساتھ تامل نسلی معاملہ، نیز امریکہ کے ساتھ جوہری معاہد ہ کو روبہ عمل لانے کا معاملہ اور کئی ایسے امور ہیں ،مودی اور ان کی جماعت جن کی مخالفت کرتی رہی ہے، تاہم مودی کے لیے بحیثیت وزیراعظم اپنے حلقہ اثر کے سامنے اپنی ساکھ برقرار رکھنا کسی چیلنج سے کم نہ ہوگا۔ اس موقف میں تھوڑی سی لچک بھی انہیں اپنے سخت گیر قسم کے حلقہ اثر میں نِکو بناسکتی ہے ۔ ممکن ہے انہیں اس حقیقت کا اب ادراک ہوکہ عوامی جذبات سے کھیلنے کے لیے تیزوتند بیانات دینا آسان ہیں مگر بر سر اقتدار آنے کے بعد ان پر عمل کرنا کتنا مشکل ۔