تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     27-05-2014

پیشہ ورانہ آوارہ گردی سے بلا مقصد جہاں گردی تک

وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد 5 جون 2013ء سے 26مئی 2014ء تک گیارہ ماہ اکیس دن میں بھارت کا حالیہ دورہ ڈال کر میاں نواز شریف نے پندرہ غیر ملکی دورے کیے ہیں۔ یعنی ہر ساڑھے تیئس دن میں ایک غیر ملکی دورہ۔ اس طرح انہوں نے پچھلے تمام وزرائے اعظم کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ نیا ریکارڈ قائم کرنے پر یہ عاجز ان کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہے۔ 
وزیراعظم کے ان پندرہ غیر ملکی دوروں میں سے حالیہ بھارتی دورے کو نکال کر بقیہ تمام دورے تقریباً ایسے تھے کہ جن کا کرنا نہ کرنا برابر تھا۔ ان میں سے بیشتر دورے چین اور ترکی کے ہوں گے کہ اس وقت مملکت خداداد کو دنیا میں ان دو ملکوں کے علاوہ اور کچھ نظر ہی نہیں آ رہا۔ ان ممالک کے ساتھ بھی جو کاروبار ہوا ہے وہ اب تک تو ہمارے لیے تقریباً خسارے کا سودا رہا ہے۔ ''کار کے‘‘ نامی رینٹل پاور کے معاملے کا سب کو علم ہی ہے کہ کس طرح کراچی کے ساحل پر کھڑے ترکی سے کرائے پر حاصل کیے گئے اس رینٹل پاور پروجیکٹ نے راجہ رینٹل کی لوٹ مار میں تعاون فرمایا۔ اسی طرح ایک سو پچپن کلو میٹر طویل اسلام آباد پشاور موٹروے ایم ون کی تعمیر میں ایک تعمیراتی کمپنی نے گل کھلائے جس کے نتیجے میں 1993ء میں شروع ہونے والی یہ موٹروے سولہ ارب روپے میں 2007ء میں یعنی چودہ سال بعد مکمل ہوئی۔ اس تاخیر کے باعث تعمیراتی لاگت میں جو اضافہ ہوا وہ سب ہم غریبوں کی جیب سے نکلا۔ گزشتہ حکومت کے دور میں چینی ریلوے انجنوں کا جو حال ہوا اور اس کے باعث پاکستان ریلوے کا جو حشر ہوا وہ بھی ہمارے سامنے ہے اور اب پھر چین سے درآمد کردہ ریلوے انجنوں نے جس ''شاندار کارکردگی‘‘ کا مظاہرہ کیا وہ بھی سب نے دیکھ لیا ہے۔ ہم صرف اس ڈر سے کسی کمپنی کو بلیک لسٹ نہیں کر رہے کہ اس سے ہمارے چین کے ساتھ بے شمار کاغذی منصوبوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ سینڈک میں ہمارے ساتھ جو ہوا وہ ایک علیحدہ داستان ہے۔ لیکن خیر یہ ایک علیحدہ موضوع ہے اور اس پر پھر کبھی تفصیل سے بات ہو گی، فی الحال تو وزیراعظم میاں نواز شریف کے دوروں کی بات ہو رہی ہے۔ یہ دورے ایک پنجابی محاورے کی مثال پیش کرتے ہیں ، یعنی ''جیہا چوراں کھڑیا، جیہا کلے بنھیا‘‘۔ یعنی جیسا چوروں کالے جانا ہے ویسے ہی کھونٹے پر بندھے رہنا ہے۔ 
وزیراعظم کا حالیہ دورہ بہت سے تحفظات کے باوجود ایک مثبت فیصلہ ہے۔ کشمیر کا مسئلہ، دریائوں کے پانی اور بھارتی ڈیموں کا معاملہ، کشمیر میں شہید ہونے والے مجاہدین کے خون کا مسئلہ اور پاکستان میں خصوصاً بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی مدد جیسا معاملہ۔ یہ سب وہ مسائل اور معاملات ہیں جن کو حل کیے بغیر خطے میں امن کا خواب دیکھنا حماقت کے علاوہ اور کچھ نہیں مگر ان سب کے باوجود، حالیہ بھارتی دورہ کم از کم پوائنٹ سکورنگ کی حد تک عقلمندانہ فیصلہ ہے اور وزیراعظم کے غیر ملکی دوروں کے حوالے سے یہ پندرہواں دورہ درحقیقت پہلا ایسا غیر ملکی دورہ ہے جس کی کوئی حقیقی قدرو قیمت ہے ۔
تیرہ سرکاری سابق غیر ملکی دوروں پر میری اور آپ کی پھٹی ہوئی جیب سے مزید دو سو ساٹھ ملین روپے یعنی چھبیس کروڑ روپے نکال لیے گئے ہیں۔ فی غیر ملکی دورے کا اوسط خرچ دو کروڑ روپے آیا۔ان دوروں میں سب سے مہنگا دورہ اقوام متحدہ میں وزیراعظم کے خطاب والا تھا۔ بقول چوہدری بھکن دنیا میں اس سے پہلے کسی قوم کو کوئی خطاب اتنا مہنگا نہیں پڑا۔ برطانوی وزیراعظم اور ترکی کے وزیراعظم و صدر سے ملاقات اس مفلوک الحال قوم کو پانچ کروڑ سے زائد خرچے میں پڑی۔ جب وزیراعظم 30اپریل کو اپنے تازہ ترین دورے پر برطانیہ پہنچے تو یہ عاجز بھی ان دنوں میں وہیں پر تھا۔ تین روزہ اس دورے کے دوران میں نے برطانوی اخبارات پر نظر ڈالی اور خاصا مایوس ہوا۔ برطانوی میڈیا نے اس دورے کو کوئی خاص اہمیت نہ دی تھی اور میاں نواز شریف اور ڈیوڈ کیمرون کی ملاقات سے لے کر تین روزہ دورہ کے اختتام تک کہیں کوئی ہیڈ لائن تھی اور نہ کوئی بریکنگ نیوز۔ دوسرے درجے کی خبروں میں شامل ایک خبر۔ اسی طرح چین میں ہونے والی کانفرنس اور چین کے صدر سے ملاقات پر چار کروڑ بیس لاکھ کے لگ بھگ خرچہ آیا۔ اوباما سے ملاقات ساڑھے تین کروڑ میں پڑی ۔یہ وہ دورے تھے جن کے دور رس تنائج تو ایک طرف ''نزدیک رس‘‘ نتائج بھی کہیں نظر نہیں آ رہے۔ سری لنکا کے صدر سے ملاقات ایک کروڑ بیس لاکھ اور ہالینڈ میں ہونے والی نیو کلیر کانفرنس ڈیڑھ کروڑ سے کچھ کم میں پڑی۔ افغانستان کے صدر سے ملاقات کی غرض سے کیا جانے والا دورہ سب سے کامیاب تھا۔ یہ کامیابی نتائج کے اعتبار سے نہیں بلکہ مالی اعتبار سے تھی۔ قومی بچت کے تحت یہ دورہ محض بارہ لاکھ میں مکمل ہوا۔ 
وزیراعظم کی دیکھا دیکھی کچھ وزرا بھی اسی قسم کے دوروں میں مصروف ہیں۔ پانی و بجلی کی وزیر مملکت عابد شیر علی کی دورہ کرنے کی پسندیدہ جگہ ملتان الیکٹرک پاور کمپنی یعنی میپکو ہے۔ میپکو کا نیا بورڈ آف ڈائریکٹرز 13نومبر 2013ء کو بنایا گیا تھا۔ تب سے اب تک یعنی چھ ماہ سے زائد کے عرصہ میں اس کی کئی میٹنگز ہوئی ہیں۔ آخری میٹنگ جنوری 2014ء میں ہوئی تھی۔ گزشتہ چار ماہ کے دوران بورڈ کے سارے کام ای میل پر ہو رہے ہیں، حتیٰ کہ ان چھ ماہ کے دوران بورڈ کا چیئرمین بھی منتخب نہیں کیا جا سکا۔ بجلی کی ڈسٹری بیوشن کمپنیاں مسلسل خسارے میں جا رہی ہیں۔ لوڈشیڈنگ سے لے کر دیگر آپریشنل مشکلات تک کا یہ حال ہے کہ ان میں مسلسل خرابی بڑھ رہی ہے مگر حکومت کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ نہ تو بورڈ کو از خود چیئرمین چننے کا اختیار دیا جا رہا ہے اور نہ ہی اوپر سے کوئی چیئرمین نازل کیا جا رہا ہے؛ تاہم نومبر سے لے کر مئی تک وزیر مملکت میپکو کے چار باقاعدہ اور ایک بے قاعدہ دورہ کر چکے ہیں۔ان دوروں کی عجیب و غریب کہانیاں ہیں۔ وزیر مملکت کی ملتان سے پرانی شناسائی ہے۔ وہ یہاں کیڑے مار ادویات فروخت کرتے تھے ۔ ان کے ہر دورے پر رحیم یارخان سے ساہیوال اورمیانوالی سے بہاولنگر تک کے افسران ملتان آتے ہیں اور عزت افزائی کروا کر سرکاری خرچے پر واپس چلے جاتے ہیں۔ پروٹوکول ڈیوٹی اور تمام سرکاری و غیر سرکاری مسائل کے حل کی ساری ذمہ داری ایک کانسٹیبل زادے کے سپرد ہے جس کی لاٹری نکلی ہوئی ہے۔ مخلوق خدا کے پاس ابھی اور بھی کہانیاں ہیں مگر ہمیں کسی کہانی سے کیا لینا دینا ۔
میں سفر کے حوالے سے بدنام زمانہ شخص ہوں ؛تاہم ایک وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ سفر میرا شوق ہی نہیں پیشہ بھی ہے۔ مسافرت میرا ذریعہ آمدنی بھی ہے اور میں سفر کرنے اور کالم لکھنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرتا۔ خدا جانے یہ لوگ وزارتِ عظمیٰ جیسے منصب پر فائز ہو کر مجھ جیسے عادی سفر باز سے زیادہ سفر کس طرح کر لیتے ہیں۔ میں نے چوہدری بھکن سے پوچھا کہ وزارتِ عظمیٰ جیسے مصروف منصب پر بیٹھ کر اتنی جہاں گردی کیسے ممکن ہے؟ چوہدری ہنسا اور کہنے لگا ،تم دیکھتے نہیں کہ ملک کا کیا حال ہو چکا ہے؟ وزارتِ عظمیٰ کو پارٹ ٹائم اور وزارت خارجہ کو فل ٹائم جاب سمجھنے کا یہی نتیجہ نکلنا تھا جو تمہارے سامنے ہے۔ تم جیسے پیشہ ور آوارہ گرد کی مسافرت تو سمجھ میں آتی ہے۔ وزیراعظم کی بلا مقصد جہاں گردی واقعتاً سمجھ میں آنے والی بات نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved