وزیراعظم نوازشریف گزشتہ روز نئے بھارتی وزیراعظم‘ نریندر مودی کی تقریب حلف وفاداری میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ مذاکرات کا نہ کوئی پروگرام تھا اور نہ ایجنڈا۔ میزبان وزیراعظم نے ایک تعارفی ملاقات رکھی‘ اس میں کچھ رسمی اورغیر رسمی باتیں ہوئیں۔ کُل ملاقات 50منٹ کو محیط تھی۔ اس میں میزبان وزیراعظم نے‘ دونوں ملکوں کے تعلقات پر اپنی رائے اور خیالات کا اظہار کیا ہو گا اور ہمارے وزیراعظم نے اپنے۔لیکن پاکستان اور بھارت کا الیکٹرانک میڈیا‘ اس دورے پر ایسا سماں باندھ کر بیٹھ گیا ‘ جیسے نکسن مائوزئے تنگ‘ سادات بیگن یا ایران اور امریکہ کے مذاکرات ہو رہے ہوں۔لمحے لمحے کی رپورٹ دی جا رہی تھی۔ مسلسل نشریات چل رہی تھیں۔کونے کھدروں سے مبصرین کو نکال نکال کر‘ انہیں تبصروں کے لئے کہا جا رہا تھا اور وہ بیچارے کچھ خبر نہ ہونے کے باوجود اظہار خیال پر اظہار خیال کیے جا رہے تھے۔ کسی نے یہ نہ سوچا کہ شادی بیاہ یا سالگرہ کی تقریب پر اکٹھے ہونے والے ‘کاروبار یا ملکی تنازعات پر بات چیت نہیں کیا کرتے۔ کرتے بھی ہیں تو غیر رسمی ہوتی ہے۔بھارتی وزیراعظم نے اپنے حلف اٹھانے کی تقریب میں شرکت کا دعوت نامہ سارک کے تمام پڑوسی ملکوں کو بھیجا‘ ان میں پاکستان کے وزیراعظم بھی شامل تھے۔بھارتی میزبانوں نے ان سارے مہمان ملکوں کے لیڈروں کے ساتھ خیر سگالی ملاقاتوں کا اہتمام کر دیا۔ یہ بھی ایک رسمی کارروائی تھی۔ میزبان وزیراعظم سے دیگر تمام مہمانوں کی ملاقاتوں کو اسی طرح دیکھا گیا‘ جس موقع محل میں وہ ہوئی تھیں لیکن پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کی رسمی ملاقات کو‘سربراہی کانفرنس کا درجہ دے دیا گیا‘ جس میں پاکستان اور بھارت کے تمام تنازعات پر بات چیت ہونا لازم تھی اور پچاس منٹ کی میٹنگ کے بعد‘ انہیں کسی معاہدے پر دستخط کر کے میڈیا کے سامنے مشترکہ اعلامیہ پڑھ کے بھی سنانا چاہیے تھا۔ جب ایسا نہیں ہوا ‘تو بھارتی میڈیا کا ردعمل تو میں نہیں دیکھ پایا لیکن پاکستانی میڈیا پر غضب ناک اینکرز کے یہ اعتراضات سن رہا تھاکہ وزیراعظم نے کشمیر کی بات کیوں نہیں کی؟ بلوچستان کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ سمجھوتہ ایکسپریس کا سوال کیوں نہ اٹھایا؟کراچی میں تخریب کاری پر بات چیت کیوں نہ کی؟ ایک فر د جرم تھی‘ جو وزیراعظم پر عائد کی جاتی رہی اور فاتحانہ مسکراہٹوں کے ساتھ ناظرین کی طرف یوں دیکھا گیا‘ جیسے جرأت اور بہادری کا کارنامہ انجام دے کر داد طلب کی جا رہی ہو۔
اگر تو یہ وزیراعظم کے خلاف کوئی مہم تھی‘ تو ٹھیک ٹھیک نشانے‘ غلط غلط طریقے سے لگائے گئے۔جو تنازعات67برس سے حل نہ کیے جا سکے ہوں‘ ان پر50منٹ کے اندر‘ نتیجہ خیز مذاکرات کیسے ہو سکتے تھے؟ اور کیا دونوں وزرائے اعظم پاگل تھے‘ جو اس رسمی ملاقات میں تبادلۂ اعتراضات و طعنہ جات کا‘ ایک اور سیشن لگا کر اپنا اپنا وقت ضائع کرتے؟سردار سورن سنگھ اور ذوالفقار علی بھٹو میں ہونے والے طویل مذاکراتی ادوار سے لے کر‘ مشرف واجپائی مذاکرات کی طویل تاریخ ہے‘ جس میں دونوں اطراف کی پرزور کوششوں اور خواہشوں کے باوجود کوئی فیصلہ نہ ہو سکا۔ ہمارے اینکر صاحبان چاہتے ہیں کہ دونوں وزرائے اعظم ‘ان کی ڈیوٹی کی نشست ختم ہونے سے پہلے پہلے ‘ تمام تنازعات کا حل تلا ش کر کے اعلانات جاری کر دیں تاکہ وہ جلدی جلدی گھر جا کر‘ آرام سے کھانا کھائیں اور وقت پر سو جائیں۔
یہ درست ہے کہ پاکستان اور بھارت کے لیڈروں میں باہمی تنازعات پر ان گنت ملاقاتیں ہوئیں‘ ہر سطح پر مذاکرات ہوئے۔ کئی بار سمجھوتوں کی شرائط طے کر لی گئیں۔کئی بار تیار شدہ معاہدوں پر دستخطوں کے لئے‘ میز کرسیاں بھی رکھ دی گئیں لیکن آخری وقت پر دستخطوں کی تقریب منسوخ کر دی گئی اور تھک ہار کر‘ دونوں طرف کی قیادتیں‘ مذاکرات سے اکتا کے اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ گئیں۔تیرہ سال سے ہم اسی حالت میں بیٹھے ہیں۔ درمیان میں یوسف رضا گیلانی نے بزرگ بھارتی وزیراعظم سردار من موہن سنگھ کو‘ شرم الشیخ میں گھیر کے کچھ باتیں منوا لیں اور بھارتی پارلیمنٹ میں جا کر ان کی ایسی درگت بنی کہ وہ ساری باتوں سے ہی مکر گئے۔شاہ محمود قریشی وزیرخارجہ کی حیثیت سے بڑے عطر شطر لگا کر مذاکرات کے لئے دہلی پہنچے۔ممبئی میں ایسے پٹاخے چلے کہ دہلی کے ہوٹل کی لابی میں نکلنا بھی‘ ان کے لئے دشوار ہو گیا۔وہ بے چار ے خاموشی سے سر جھکائے واپس آگئے۔مذاکرات سے پہلے ہم نے طاقت کے بل پر تنازع کشمیر کا فیصلہ کرنے کی کوششیں کیں ۔ 1965ء میں مجاہدین آزادی کو مقبوضہ کشمیر میں داخل کر دیا۔وہ پکڑے گئے تو چھمب جوڑیاں سیکٹر کی طرف سے‘ مقبوضہ کشمیر پر فوج کشی کر دی‘ جس کے نتیجے میں انڈو پاک جنگ چھڑ گئی اور تاشقند جا کے تحریری طور پر تسلیم کرنا پڑا کہ ہم کشمیر کا معاملہ آپس میں طے کریں گے یعنی اقوام متحدہ میں نہیں جائیں گے۔ اس کے بعد ہم واقعی نہیں گئے۔ حال میںنوازشریف نے‘ یو این جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران کشمیر کا ذکر کر کے‘ پاکستان میں بڑی بڑی خبریں چھپوا لیں لیکن وہاں کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔کشمیر کو آزاد کرانے کے لئے آخری حملہ کارگل پر کیا گیا۔ نتیجے میں وزیراعظم نوازشریف کو واشنگٹن جا کرصدر کلنٹن سے کہنا پڑا کہ بھارتیوں سے کہہ کر‘کارگل کے اوپر پہنچے ہوئے مجاہدین کو واپسی کا راستہ دلوا دیں۔ یہ سارے جتن کرنے کے بعد آخر کار ہم یہ مان گئے کہ کشمیر کا آئوٹ آف باکس حل تلاش کیا جائے۔بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے‘ اپنے دیرینہ قومی موقف کو ترک کرتے ہوئے‘ آئوٹ آف باکس حل کا راستہ اس طرح نکالا کہ ان کی قوم کے انتہا پسند بھی چوں تک نہ کر سکے۔معاہدہ لاہور میں سب کچھ طے کر لیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں کشمیریوں کو آزاد بھی ہونا تھا۔ وہاں سے پاکستان اور بھارت کی فوجوں کو بھی نکلنا تھا۔کشمیریوں کو متحد بھی ہونا تھا اور داخلی خود مختاری کے تحت‘ پوری ریاست کو ایک اسمبلی قائم کر کے‘ اپنی حکومت بھی بنانا تھی اور پچیس سال تک داخلی خود مختاری کے تحت‘ مقبوضہ کشمیر کا نظم و نسق چلانے کے بعد استصواب رائے بھی ہونا تھا‘ جس میں یہ پوچھا جاتا کہ کشمیری عوام‘ اسی طرح داخلی خود مختاری کے تحت رہنا چاہیں گے یا پاکستان اور بھارت میں سے ‘کسی ایک کے ساتھ الحاق کریں گے؟یہ ایک حیرت انگیز معاہدہ تھا۔ پاکستان اور بھارت‘ دونوں ملکوں کے انتہا پسندوں کو‘ اس پر چپ کی مہر لگ جاتی اور انہیں یہ انتظام تسلیم کرنا پڑتا۔کشمیری عوام کے لئے اس سے بہتر حل کیا ہو سکتا تھا کہ ان کے وطن سے بیرونی فوجیں نکل جاتیں‘ وہ اپنی ریاست میں انتخابات کے ذریعے اسمبلی بنا کر اپنی حکومت چلاتے اور پچیس سال کے بعد‘ انہیں استصواب رائے کا حق بھی مل جاتا۔ اس معاہدے کو پرویز مشرف کے ٹولے نے سبوتاژ کر دیا۔
میں نے تنازع کشمیر کے حل کی چند کوششوں کا ذکر کیا ہے‘ جن میں 1948ء کی‘1965ء کی اور1999ء کی تین جنگیں بھی شامل ہیں۔اس تنازع کے طویل پس منظر کو دیکھیے اور ان اینکرز
حضرات کی بے تابیاں دیکھیے کہ وزیراعظم نوازشریف کو اس بات پر ڈانٹ ڈپٹ کر رہے ہیں کہ انہوں نے بھارتی وزیراعظم سے رسمی ملاقات کے دوران‘ کشمیر سمیت سارے تنازعات کا ذکر کیوں نہیں کیا۔ اگر پتہ چلتا کہ انہوں نے ذکر کیا ہے تو اگلا سوال ہوتا‘ نتیجہ کیا نکلا؟ اور جب خبر آتی کہ ملاقات نتیجہ خیز نہیں رہی تو اعتراض ہوتا کہ وزیراعظم‘ دہلی کیا کرنے گئے تھے؟ کشمیر کیوں نہیں لائے؟ بھارت میں بھی پاکستان کے ساتھ تنازعات پر شدید جذباتی فضا پائی جاتی ہے۔ نریندر مودی کی اپنی پارٹی انتہا پسند ہی نہیں ‘ پاکستان دشمن بھی ہے۔بھارت کی سیکرٹری خارجہ سے‘ جب وہاں کے اخباری نمائندوں نے پوچھا کہ وزیراعظم مودی نے کشمیر پر کیا بات کی؟ تو سیکرٹری کا جواب تھا کہ اس سلسلے میں کچھ نہیں بتایا جا سکتا۔صرف یہ بتایا گیا کہ دہشت گردی کے حوالے سے پانچ سوال کئے گئے ہیں‘ جواب میں پاکستان نے کیا کہا؟ بھارتی صحافیوں نے اس پر اطمینان یا عدم اطمینان کا اظہار نہیں کیا۔ خبریں لکھنے اور نشر کرنے کا کام انتہائی احتیاط کا متقاضی ہے۔آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل کی ایک تصویر‘ سپیشل ٹرانسمشن میں ایک غیر مصدقہ الزام کے حوالے سے آٹھ گھنٹے تک ساری دنیا میں دکھائی گئی۔ ردعمل سامنے ہے۔وزیراعظم کے ایک غیر رسمی دورے پر‘ کئی گھنٹے کی مسلسل نشریات میں ‘بے تحاشہ قیاس آرائیاں کی گئیں۔ پوری دنیا میں امیدوں اور توقعات کے مینار کھڑے کر دئیے گئے اور جب خواہشات کے مطابق‘ اعلانات نہ ہوئے تو وزیراعظم پر اعتراضات کی بوچھاڑ کر دی گئی کہ انہوں نے فلاں مسئلہ کیوں نہ اٹھایا؟ فلاں بات کیوں نہ کی؟ میں نہیں سمجھتا کہ وزیراعظم اس تنقید کے مستحق تھے۔ وہ جیسے دورے پر گئے‘ اسی کی مناسبت سے رسمی رابطے اور باتیں کیں‘ البتہ اس دوران بھارتی وزیراعظم کے خیالات اور خواہشوں سے آگاہی ضرورحاصل کی ہو گی۔ وطن آکروہ اپنا تجزیہ اور تاثر‘ اپنے رفقاء کے سامنے پیش کر دیں گے اور حساس اداروں کو بھی اطلاع دے دی جائے گی۔ہو سکتا ہے کوئی اچھی تجویز‘ سن کر آئے ہوں۔ کوئی اچھی تجویز دے کر آئے ہوں۔مسئلے کے حل کے لئے‘ اپنی اپنی سوچ کے مطابق ممکنہ طریقوں پر غور کیا گیاہو؟ ظاہر ہے یہ ساری باتیں میڈیا کو بتانے کے لئے نہیں ہوتیں ‘ طالبان کی مذاکراتی ٹیم کا انجام ہمارے سامنے ہے۔ وہ کرتے کچھ نہیں تھے‘ بتاتے بہت زیادہ تھے۔ مذاکرات کا مقصد ہی فوت ہو گیا۔کیا ہمارے وزیراعظم کو بھی یہی کچھ کرنا چاہیے تھا جو پروفیسر ابراہیم کرتے رہے؟