تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     28-05-2014

مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے؟

عزیزم حسین نواز کی خدمت میں عرض ہے کہ امن کا حصول طاقت اور خوف کے توازن سے ممکن ہوتا ہے۔ بھیک کا ہاتھ پھیلا کر نہیں۔ 
بتوں سے تجھ کو امیدیں، خدا سے نومیدی 
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے؟ 
اعمال کا دارومدار نیّتوں پر ہوتا ہے۔ حسنِ عمل حسنِ نیت کا پھل ہے اور بداعمالی بری نیت کا۔ یہ فیصلہ اکثر قدرت کیا کرتی ہے کہ آدمی کا باطن کیا ہے۔ آدم زاد حریف کا کردار دیکھتے ہیں، بہرحال گفتار نہیں۔ بھارت کے باب میں جو لوگ خوش فہمی کا شکار ہیں، ان کے لیے انکشافِ صداقت کا لمحہ جلد طلوع ہو گا۔ کوئی کامیاب لیڈر اپنے پشت پناہوں سے غدّاری نہیں کیا کرتا اور ہم جانتے ہیں کہ نریندر مودی کے پشت پناہ کون ہیں۔ 
ایک عجیب استدلال سرحد پار کے اخبار نویسوں نے پیش کیا ہے: انتخابی مہم میں نریندر مودی نے پاکستان کے خلاف جو زہر اگلا، وہ انتخابی مہم کی مجبوری تھی۔ اب وہ معقول طرزِ عمل اختیار کریں گے۔ جاوید نامی ایک بھارتی اخبار نویس نے دنیا ٹی وی کے ایک مذاکرے میں جتلایا: وزیر اعظم پاکستان کو جو دعوت دی گئی، وہ بجائے خود مثبت اندازِ فکر کا اظہار ہے۔ کیا کہنے، کیا کہنے۔ صرف پاکستانی ہی نہیں، سارک کے سب ممالک سری لنکا، نیپال‘ مالدیپ، افغانستان‘ بھوٹان اور بنگلہ دیش بھی مدعو کیے گئے۔ اس طرح، جیسے ایک شہنشاہ اردگرد کی چھوٹی مملکتوں کے حکمرانوں کو دعوت دے۔ یہ بھی کہا گیا: بھارت ایک عالمی طاقت ہے۔ اس کے ساتھ مراسم کی نوعیت طے کرنے میں پاکستان کو یہ حقیقت ملحوظ رکھنی چاہیے۔ بھارت خود سے چار گنا بڑی اقتصادی قوت چین کے ساتھ اسی پیمانے سے مراسم استوار کرے گا؟ روس، جاپان اور امریکہ کے ساتھ؟
1988ء سے اقتصادی طور پہ پاکستان کمزور پڑنے لگا، پھر 2007ء میں جعلی جمہوریت کی بحالی کے بعد۔ اس سے پہلے تیس برس تک پاکستان میں شرح نمو بھارت کے مقابلے میں کم از کم دو سے تین گنا رہی۔ بھارتی معیشت پر ہندو شرحِ ترقی (Hindu Growth Rate) کی پھبتی کسی جاتی۔ یہ نہرو اور ان کی صاحبزادی اندرا گاندھی کا بھارت تھا۔ جمہوریت، سیکولرازم اور سوشلزم کے نعروں کا اسیر۔ 1947ء میں ہندوستانی شہریوں کی فی کس آمدن 180 ڈالر اور پاکستان میں فقط 80 ڈالر سالانہ تھی۔ 1981ء کے اعدادوشمار یاد ہیں۔ پاکستان 380 ڈالر، بھارت 280 اور چین 180 ڈالر۔ چین میں اب یہ 3000 ڈالر ہے اور بھارت میں پاکستان سے قدرے زیادہ۔ قوموں کی اقتصادی حالت بدلتی رہتی ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ کل کا بھارت، پاکستان سے زیادہ خوش حال ہو گا؟
اب ان کی معیشت بڑی ہے۔ انکل سام علی الاعلان، یورپی یونین اس کے سائے میں اور اسرائیل ان کا خاموش حلیف ہے؛ چنانچہ بھارتی روّیے میں ایک تکبّر کارفرما ہے۔ چین خس و خاشاک سے ابھر کر ایک عالمی قوت بن گیا۔ روسی معیشت پھر سے زندہ ہو گئی۔ امریکہ اقتصادی طور پر سب سے بڑا ہے مگر زوال پذیر... اللہ کی کتاب یہ کہتی ہے: کسی قوم کو ہم اس وقت پکڑتے ہیں، جب اپنی معیشت پہ اسے ناز ہو جاتا ہے۔
بھارت میں قدم قدم پر سیکولرازم کے مدفن موجود ہیں۔ کشمیر میں 25 برس سے قتلِ عام، الٰہ آباد کے خونیں واقعات، جن کا مرکزی ملزم اب ملک کا وزیر اعظم ہے اور رائے عامہ کے رجحان کا مظہر۔ اگرچہ چھوٹے پیمانے پر ہی، وزارتِ عظمیٰ سنبھالنے کے فوراً بعد اس کے حلقے گجرات میں ایک بار پھر مسلم کش فساد برپا ہوا ہے۔ کیا یہ فتح کا جشن تھا؟ یہ بات بھارتی سیاسی قیادت کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی کہ اگر وہ پڑوسیوں کے خلاف نفرت پھیلائیں گے تو امن کا حصول ممکن نہ رہے گا۔ ہجوم میں اشتعال بھڑک اٹھے تو بجھانا سہل نہیں ہوتا۔ ایسی لیڈرشپ حالات کی قیدی بن جایا کرتی ہے۔ کیا ہماری تین بڑی پارٹیوں نون لیگ، تحریکِ انصاف اور پیپلز پارٹی میں سے کسی نے بھارت کے خلاف آتش فشانی کی؟ وہی نہیں، اے این پی، ایم کیو ایم، جماعتِ اسلامی اور جمعیت علمائِ اسلام۔ بلوچستان اور سندھ کی قوم پرست پارٹیاں؟ کس نے؟ 
پاکستانی قوم نے صبر کیا اور صبر بھی قیامت کا۔ سب جانتے ہیں کہ بلوچستان کے تخریب کاروں کو دہلی کی پشت پناہی میسر ہے۔ تین برس ہوتے ہیں، شرم الشیخ میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے من موہن سنگھ سے بات کی اور وہ اس موضوع پر مذاکرات کے لیے آمادہ تھے۔ نہرو لیاقت سمجھوتے کے تحت وادی ہی نہیں، پورے بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم و زیادتی پر ہم احتجاج کا حق رکھتے ہیں۔ ایران اور افغانستان کے ساتھ پاکستانی سرحد پر دہلی والوں نے نو عدد قونصل خانے قائم کر رہے ہیں۔ ویزے جاری کرنے کے لیے نہیں بلکہ جاسوسی کے لیے۔ بھارتی حکومت مسلسل اور متواتر افغانستان میں پاکستان کے لیے مسائل پیدا کر رہی ہے۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ طالبان کی صفوں میں شامل انتہا پسند اور دہشت گرد گروہوں کو ''را‘‘ کی مدد حاصل ہے۔ رقوم اور اسلحہ ہی نہیں بلکہ ان کے لیے وہ منصوبہ سازی بھی فرماتی ہے۔ کشمیر سے پاکستان میں داخل ہونے والے دریائوں کا پانی روک لیا جاتا ہے اور عشروں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ یہ بھارتی تھے، جنہوں نے ہمارا ملک دو لخت کیا اور اس سے پہلے کشمیر پہ قبضہ جما کر تصادم کا آغاز کیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے تو یہ کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے باہمی مراسم امریکہ اور کینیڈا ایسے ہونے چاہئیں۔ کشمیر پہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں سے انحراف کس نے کیا؟ بٹوارے کے بعد پاکستان کے حصے کا سرمایہ کس نے روکا؟ اوّل دن سے اب تک کیا بھارتی مسلمانوں سے انتقام کی پالیسی اسی شدّ و مد سے جاری نہیں؟ کیا ایک عام بھارتی مسلمان کی اوسط آمدن، ہندو شہری کے مقابلے میں نصف کے لگ بھگ نہیں؟ کیا وہ بے صلاحیت لوگ ہیں؟ کیا ان کے اجداد نے ہندوستان پر حکومت نہیں کی تھی؟ آج وہ ذہنی مفلوج کیسے ہو گئے؟ 
کشیر کو ہم کبھی نہیں بھلا سکتے۔ قوم کے باپ نے اسے ملک کی شہ رگ کہا تھا۔ ایک عدد کامیاب این جی او چلانے والے پاکستانی اخبار نویس امتیاز گل نے کہا: مودی جانے اور کشمیری جانیں۔ جی نہیں، ہرگز نہیں۔ ایسے بے حمیت ہم نہیں کہ خاندان کا ایک حصہ اغوا کر لیا جائے اور اسے قاتلوں کے سپرد کرکے ہم سکھ کی نیند سوئیں۔ وقت بدلتا رہتا ہے۔ قوموں پر اچھے اور برے دن آتے ہیں۔ افراد کی طرح اقوام بھی مدّ و جزر سے گزرتی ہیں۔ صبر اور حکمت کا دامن ہاتھ سے چھوڑنا چاہیے اور نہ جدوجہد کا۔ مایوسی نہیں، مردانِ کار کا ہتھیار امید ہے۔ بھک منگوں کی بات دوسری ہے۔ جن کا کوئی خدا نہ ہو، ان کا کوئی نظامِ اخلاق بھی نہیں ہوتا۔ 
امن ہمارا مقصود ہے اور امن ہی ہونا چاہیے۔ جنگوں کی حمایت ذہنی مفلوج اور جنونی لوگ ہی کر سکتے ہیں۔ امن آدمیت کا سب سے بڑا اثاثہ ہے۔ امتیاز گل ایسا گیت گانے والے عزیزم حسین نواز کی خدمت میں عرض ہے کہ امن کا حصول طاقت اور خوف کے توازن سے ممکن ہوتا ہے، بھیک کا ہاتھ پھیلا کر نہیں ؎ 
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی 
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved