ایک ہی روز چھپنے والی دو خبروں نے میری توجہ اپنی طرف مبذول کر لی ہے۔
اسلام آباد میں ریپڈ رسپانس فورس نے کام شروع کر دیا ہے‘ جو دہشت گردوں سے نمٹے گی۔ یوں جن دہشت گردوں کو اسلام آباد اور راولپنڈی سے ڈھونڈ نہیں سکتے‘ اب ہم ان کا انتظار کریں گے۔ کسی نہ کسی دن وہ ایسے باہر نکل آئیں جیسے اس دن نکلے تھے‘ جب انہوں نے کچہری میں ڈیڑھ گھنٹے میں درجنوں لوگوں کو بھون ڈالا تھا اور ہماری فورس ان سے لڑے گی۔ جن اداروں کو ہم اربوں روپے سالانہ کا بجٹ دیتے ہیں‘ ان سے کبھی کسی نے نہیں پوچھا دہشت گرد کہاں سے آئے اور کہاں غائب ہو گئے اور کیوں نہیں پکڑے جا سکے؟
دوسری خبر یہ ہے کہ راولپنڈی کے تھانہ صادق آباد کے شوکت علی نامی ایک اے ایس آئی نے ایک کیفے ٹیریا پر چھاپہ مار کر پانچ افراد کو گرفتار کر لیا‘ جو نیٹ پر فلمیں دیکھ رہے تھے۔ موصوف کو ایک مخبر نے اطلاع دی تھی۔ مخبر بھی بڑے سمجھدار ہیں۔ وہ پولیس کو دہشت گرد کی موجودگی کی اطلاع نہیں دیتے۔
اندازہ لگائیں! آپ کسی کیفے میں بیٹھ کر ای میل بھیجنا چاہتے ہیں‘ اخبار پڑھ رہے ہیں یا فلم دیکھ رہے ہیں تو آپ گرفتار بھی ہو سکتے ہیں۔ اے ایس آئی شوکت علی کو کون بتائے کہ دنیا بھر میں اب ہر کافی شاپ پر وائی فائی فری ملتا ہے‘ جہاں آپ چاہیں تو گھنٹوں بیٹھ کر کافی پئیں‘ نیٹ پر فلمیں دیکھیں‘ سکائپ پر باتیں کریں یا ٹوئٹر ٹوئٹر کھیلیں۔ لیکن ہماری پولیس کے نزدیک آج بھی بڑا جرم کیفے پر بیٹھ کر فلم دیکھنا ہے۔ یہ جنرل ضیاالحق کے دور کی دی گئی وہ مریضانہ سوچ ہے‘ جو بدلنے کانام نہیں لے رہی۔ انتہا پسندی معاشرے کے ہر دوسرے فرد میں گھس چکی ہے۔ ہر کوئی سمجھتا ہے‘ وہ اچھا انسان ہے باقی معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہے اور اسے درست کرنا اس کا فرض ہے۔ ایسے افراد کو چاروں طرف فحاشی نظر آتی ہے۔ وہ خود اپنے آپ کو درست نہیں کرنا چاہتا لیکن دوسروں کو ضرور راہ راست پر لانا چاہتا ہے۔ جنرل ضیا کے دور میں شہروں اور دیہات میں چھاپے پڑتے تھے کہ کہیں لوگ اکٹھے ہو کر کوئی فلم تو نہیں دیکھے رہے۔ ہوٹلوں پر چھاپے پڑتے تھے کہ کوئی فلم یا ڈرامہ تو نہیں چل رہا اور گرفتاریاں ہوتی تھیں۔ یہ بھی سکینڈل بنتا تھا فلاں کا بچہ کسی ہوٹل پر فلم دیکھتے ہوئے پکڑا گیا۔ گزشتہ بیس تیس برسوں میں ہماری نظروں کے سامنے ہی کرائے کے وی سی آر سے نکل کر ہم ٹیپ ریکارڈر، ڈش، کیبل ٹی وی، سی ڈیز، یو ایس بی، وائی فائی سے ہوتے ہوئے فیس بک، ٹوئٹر، وائبر، واٹس ایپس اور اب تھری جی اور فور جی کی ایج میں داخل ہو گئے ہیں‘ لیکن ہمارا دلبر اے ایس آئی شوکت آج بھی 1980ء کی دہائی میں زندہ ہے‘ جس کے نزدیک کسی کیفے پر نیٹ پر فلم دیکھنا ایک انتہائی سنگین جرم ہے۔
ملتان سے پرانے صحافی دوست شکیل انجم کا فون تھا۔ کہنے لگا: لالے بہت پریشان ہوں‘ اس ملک کا کیا بنے گا؟ ہمارے بچوں کا کیا ہو گا؟ یہ ملک تو مذہب کے ٹھیکیداروں کے ہاتھ چڑھ گیا ہے اور ہم تباہی کی طرف جا رہے ہیں! میں نے بے نیازی سے کہا: شکیل پیارے! جو مستقبل بیس کروڑ لوگوں کا ہوگا وہ تیرے میرے بچوں کا بھی ہوگا‘ میری تو دو تھیوریاں بوگس نکلی ہیں جن کو بنیاد بنا کر میں 2007ء میں لندن چھوڑ کر آ گیا تھا کہ اب جینا مرنا پاکستان میں ہی ہوگا۔
یاد آیا‘ ایک انگریزی اخبار کے مالک کی پیشکش کو سوچے سمجھے بغیر ہی مسترد کر دیا تھا کہ تین سال مزید لندن رک جائوں۔ میں نے کہہ دیا تھا: سر لندن میں کیا رکھا ہے‘ پاکستان ہی سب کچھ ہے۔ میری بیوی نے ناراض ہو کر کہا تھا کہ یہیں رہو‘ بچوں کا مستقبل بن جائے گا۔ اس کے جواب میں‘ میں نے کہا تھا کہ میں اپنا مستقبل بنا لوں، بچوں کا بھی بن جائے گا اور میرا مستقبل پاکستان میں ہے۔
اب شکیل کی بات سن کر احساس ہوا کہ یہاں تو کسی کا کوئی مستقبل نہیں۔ ہمارے متعدد سیاسی رہنمائوں کے بچے باہر رہتے ہیں‘ اس خوف اور تشدد کی فضا میں نہیں سوتے‘ جس میں ہمارے بچے سوتے ہیں ۔ ان کی بلا سے اس ملک کا کوئی بھی مستقبل ہو۔ میں نے کہا: ''شکیل! پہلے میرا خیال تھا کہ جہاں پاکستان میں طالبان زور پکڑ رہے ہیں‘ وہاں موبائل فون اور کیبل ٹی وی ملک میں نئے خاموش انقلاب کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ دیہات کو برسوں میڈیا سے دور رکھا گیا۔ انفارمیشن سے دور رکھا گیا اور اب فون اور کیبل ٹی وی انہیں شہروں کے قریب تر لا رہا ہے۔ یہ بھی بہت بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ بنے گا۔ یہ ذرائع مواصلات ہمیں جدید انسان بنائیں گے۔ فون اور ٹی وی ہمیں دنیا کے ساتھ جوڑے گا اور ہماری نئی نسل جدید دنیا کے تقاضوں کو سمجھ کر ان کے ساتھ مقابلہ کرے گی۔ اس طرح معاشرہ چند لوگوں کے ہاتھوں یرغمال نہیں بنے گا۔ روشن خیالی، تعلیم اور برداشت بڑھے گی‘‘۔
یہ بات بالکل درست ہے کہ موبائل فون اور کیبل ٹی وی نے لوگوں کو شعور دے دیا، رائے بھی دی لیکن اب اس کا کیا نتیجہ نکل رہا ہے؟ ان تبدیلیوں سے عدم برداشت اور تشدد نکلا ہے۔
شکیل کا فون بند ہوا تو میاں مشتاق جاوید ملنے کے لیے آ گئے۔ وہ بالٹی مور میں بیس ہزار مسلمانوں کی تنظیم کے سالانہ اجتماع میں شمولیت کے بعد نیویارک واپس جاتے ہوئے ملنے آئے تھے۔ جارجیا کے اعجاز بھائی نے مجھ سے کہا تھا کہ بالٹی مور آئوں اور دیکھوں کہ یہاں بیس ہزار مسلمان کیسے نئی اچھی مثالیں قائم کر رہے ہیں۔ زاہد بخاری صاحب کی بھی ای میل آئی تھی۔ میں چند مجبوریوں کی وجہ سے نہ جا سکتا تھا۔ مشتاق بھائی دیر تک بتاتے رہے کہ معاملات کیسے چل رہے ہیں۔ میں نے کہا‘ مشتاق بھائی! کبھی سوچا ہے کہ اگر دنیا ہمارے ہتھے چڑھ گئی‘ تو اس کی یہی شکل ہو گی‘ جو آج ہے یا پھر ہر جگہ دھماکوں، قتل و غارت، لوٹ مار، فراڈ، فرقہ وارانہ فسادات اور خانہ جنگی جیسی کیفیت ہو گی۔ ڈھائی سو بچیاں اغوا کر کے غلام کے طور پر بیچی جائیں گی یا کوئی مختلف نقشہ ہوگا؟ اگر پورا امریکہ اور یورپ ہمارے ہاتھ لگ بھی گیا تو کیا ہم دنیا کو پیچھے لے
جائیں گے یا آگے؟ مشتاق بھائی بولے: آپ درست کہتے ہیں لیکن اگر اسلام کا بول بالا ہوا تو یہ وہی لوگ کریں گے جو امریکی یا یورپی ہیں‘ جنہوں نے اسلام کو صحیح معنوں میں سمجھ کر اسے قبول کیا ہے۔ وہ ہماری طرح محض پیدائشی مسلمان نہیں ہیں۔
تیزی سے سکڑتی انسانی، فکری اور تحریری آزادیوں کے خاتمے کو دیکھ کر مجھے امریکی دانشور نوم چومسکی سے تیرہ برس پرانی ملاقات یاد آ گئی۔ جنرل مشرف کے ابتدائی برسوں میں وہ پاکستان آئے تو پورا اسلام آباد ان کی گفتگو سننے کے لیے کنونشن سینٹر امڈ آیا تھا۔ ان کی طویل گفتگو کے بعد میں نے اپنے انگریزی اخبار کے لیے انٹرویو کیا‘ تو ان سے یہ سوال بھی کیا کہ کیا آپ کو پتہ ہے کہ اتنی تعداد میں پاکستانی آپ کو کیوں سننے آئے ہیں؟ وہ حیران ہوئے کہ یہ کیسا سوال ہے۔ پھر میں نے خود ہی اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ سب آپ سے متاثر نہیں بلکہ حیران ہیں آپ یہودی ہو کر بھی یہودیوں کے خلاف لکھتے اور بولتے ہیں۔ امریکی ہو کر بھی امریکہ کی سرعام ایسی تیسی کر دیتے ہیں۔ میری بات سن کر چومسکی صاحب کا حیرت سے کھلا ہوا منہ مجھے آج تک یاد ہے۔
اب آپ ہی بتائیں کہ پاکستان میں جب تھری جی اور فور جی کے دور میں اے ایس آئی شوکت علی اپنے مخبر خاص کی رپورٹ پر نیٹ کیفے پر چھاپے مارتا پھر رہا ہو، کفر کے فتوے سرعام بٹ رہے ہوں، ایک دن میں سات سات احتجاجی جلسے جلوس نکل رہے ہوں اور لاکھوں پاکستانی سڑکوں پر ہوں، سکول جاتا بچہ تھانے کی حوالات میں گرفتار شخص کو قتل کر رہا ہو‘ وہاں اپنے ملتان کے پریشان حال دوست شکیل انجم کو کیا بتائوں کہ اس کے اور میرے بچوں یا اٹھارہ کروڑ انسانوں کا مستقبل کیا ہے؟