تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     28-05-2014

اللہ چاری اور برہم چاری

بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی برہم چاری ہیں۔ ہندومت میں تخلیق کا دیوتا برہما کہلاتا ہے ۔جو ہندو اسی کا ہو کر رہ جائے اسے برہم چاریــــــــــــــــــــــ کہا جاتا ہے۔ چنانچہ نریندر مودی ' راشٹریہ سیوک سنگھ‘ سے وابستہ ہو کر اپنے دیوتا برہما کے ہو کر رہ گئے۔ ان کے والد نے اپنے بیٹے کا دنیا میں دل لگانے کے لیے ایک لڑکی سے اس کی شادی کی۔ نوجوان برہم چاری اس کا منہ دیکھے بغیر وہاں سے نکل گیااور گھر نہیں لوٹا ۔ آج یہ نوجوان بھارت کا وزیراعظم ہے ۔ بھارت کے لوگوں نے اکثریت کے ساتھ ایک برہم چاری کو اپنا وزیراعظم منتخب کیا ہے۔
ہمارے وزیر اعظم اللہ کو ماننے والے ہیںپھر سرزمیں حرمین شریف میں بھی انہوں نے دس سال بسر کیے ہیں اس لیے میں انہیں ہندی زبان میں اللہ چاری کہوں گا۔دو وزیراعظم اللہ چاری اور برہم چاری نئی دہلی میں مصافحہ کر رہے تھے۔ تصویر کہانی کو سامنے رکھوں تو صاف نظر آ رہا تھا کہ مصافحہ کرتے ہوئے مودی کے جسم میں خم بھی ہے۔ مسکراہٹ بھی ہے اور خوشی سے منہ بھی کھلا ہواہے۔ میاں نواز شریف کی تصویر کہانی یہ ہے کہ وہ کچھ اظہار کیے بغیر معمول کے مطابق مصافحہ کر رہے ہیں۔ یوں مودی میں امن اوراچھے تعلقات کی طلب اور خواہش میں بظاہر قدرے چاہت نظر آتی ہے۔ اس چاہت کے پس منظر میںجائیں تو واجپائی صاحب نے جب مودی کو گجرات کا وزیراعلی بنایاتو 2002ء کے شروع میں مودی نے اپنی انتہا پسندانہ تربیت کے تحت دو ہزار مسلمانوں کو فسادات میں زندہ جلاتے ہوئے شہید کروا دیا ، اس پر واجپائی بھی ناراض ہوئے ، امریکہ نے اپنے ملک میں داخلہ بند کر دیا ، یورپی یونین بھی اس سے دور رہی ، مسلمانوں میں وہ نفرت کا سمبل بن گیا ۔ 
نریندر مودی نے حالات کو دیکھ کر پینترا بدلا ، اس نے گجرات میں شفاف حکومت کا نظام اپنایا ، کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ دیا ، ڈیم بنا کر بجلی کو سستا کیا ۔ الغرض ! گجرات کا صوبہ انڈیا کا ایک مثالی صوبہ بن گیا ۔ یہ کام کرتے ہوئے بارہ سال لگ گئے ، اس کارکردگی کی بنیاد پر اور برہم چاری ہونے کی بنیادپر آج وہ وزیر اعظم ہے ۔ اس کی تصویر کہانی صاف بتلا رہی ہے کہ وہ سارے ہندوستان کو ترقی دینا چاہتا ہے مگر پاکستان کے بغیر یہ ناممکن ہے ۔ پاکستان کو اللہ نے ایسا محل وقوع دیا ہے کہ بھارت پاکستان سے سدھار پیدا کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ افغانستان میں وہ جس قدر بھی سرمایہ کاری کر لے مگر رابطے کے لیے پاکستان کی سرزمین واہگہ سے طورخم تک کا وہ محتاج رہے گا ۔ وسط ایشیا سے رابطے کے لیے ، پانچ سابق روسی مسلمان ریاستوں کی منڈی تک پہنچنے کے لیے وہ پاکستان کا محتاج ہے ، ان کی گیس اور تیل سے استفادہ کے لیے جغرافیہ پاکستان کا ہے ، مشرق وسطیٰ کی منڈی میں سرمایہ کاری کو برقرار رکھنے کے لیے ضرورت پاکستان کی ہے کیونکہ امریکہ کے یہاں سے جانے کے بعد گلف کے تحفظ کا انحصار پاکستان پر ہونے لگا ہے چنانچہ گلف میں بھارت کو جو دسترس حاصل ہے اس کو دھچکا لگنے کا خدشہ ہے اور اگر پاکستان سے تعلق درست ہو جائیں تو گوادر کے راستے بھارت کو مشرق وسطیٰ کی منڈی کا بھی فائدہ ہو گا ... چین کے ساتھ بھی معاملہ درست ہو گا ۔ الغرض ! قدم قدم پر 
مودی سرکار کو پاکستان کی محتاجی ہو گی ۔ 
برہم چاری وزیر اعظم کو مندرجہ بالا رکاوٹیں عبور کرنے کے لیے کشمیر کا مسئلہ حل کرنا ہو گا ، مسلمانوں کو ان کا حق دینا ہو گا ، سیاچن اور سرکریک کے مسائل حل کرنا ہوں گے اور پاکستان کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھانا ہو گا ... اس کے بغیر برہم چاری وزیر اعظم ناکام رہے گا ۔ مندرجہ بالا مسائل کو حل کیے بغیر اللہ چاری وزیر اعظم آگے بڑھے گا تو وہ بھی دھڑام سے گرنے کے خطرے سے دوچار رہے گا ۔ 
جب دونوں وزیر اعظم مصافحہ کر رہے تھے تو میں سوچ رہا تھا کہ برہم چاری وزیر اعظم کا صرف ایک گھر ہے اور وہ صرف بھارت میں ہے ، ہمارے اللہ چاری وزیر اعظم کے محلات پوری دنیا میں اس تعداد میں ہیں کہ شمار میں نہیں ۔ برہم چاری وزیر اعظم کے ابا جی کو تو کوئی جانتا نہیں ، دو بھائی ہیں تو وہ درمیانے درجے سے بھی کم کے ملازم ہیں ۔ وزیر اعظم ہاؤس میں ان کا کوئی بھائی بھتیجا موجود نہ تھا ۔ ہمارے اللہ چاری وزیر اعظم کے وفد میں بیٹا حسین شامل تھا ،بھارت کا میڈیا پھبتی کس رہا تھا ، حسین کی جگہ کوئی دوسرا رشتہ دار آ جاتا ۔رشتہ داری کی بات کی جائے تو ہمارے اللہ چاری وزیر اعظم کے بھائی ماشاء اللہ وزیر اعلیٰ ہیں ، بیرونی دوروں میں وہ ساتھ ساتھ ، اسحاق ڈار جو سمدھی ہیں وہ بھی ہمرکاب ، مریم بیٹی ہیں وہ بھی ہمراہی ہیں ، حمزہ بھتیجا ہے تو وہ بھی پیش پیش ،عابد شیر علی بجلی کا وزیر ہے اس لیے وہ بجلی چوروں پر پاکستان ہی میں دھاڑ رہا ہے ۔ 
اچھا چلیے ! میاں نواز شریف وزیر اعظم نہ ہوتے کوئی اور ہوتا تو کیا ہوتا پھر بھی یہی کچھ ہوتا ... صدر زرداری ، بلاول بھٹو زرداری ، فریال زرداری ، بختاور اور آصفہ زرداری ۔ مسلم لیگ ق ہوتی تو پھر چوہدری شجاعت ، چوہدری پرویز ، چوہدری مونس ، چوہدری وجاہت وغیرہ ... اے این پی تو خیر تاریخ بنا گئی ، اسفند یار بن ولی خان بن باچاخان... اور ان اربوں کھربوں پتی اللہ چاریوں سے دوسری طرف جائیں تو جو خالص اللہ چاری لوگ ہیں ... میرا مطلب ! میری علماء برادری کے اللہ چاری لوگ ہیں تو یہاں بھی وراثتی ماحول ہے ۔ اقرباء پروری اور خاندان نوازی پورے جاہ و جلال کے ساتھ جاری و ساری اور طاری ہے ۔ 
افسوس کی بات یہ ہے کہ تبدیلی کے نام پر جو جرنیل آیا اس نے بھی انہی لوگوں میں سے مطلب کے لوگوں کو اپنا ہمنوا بنایا اور مقصد اقتدار کے جھولے جھولنا ہی رہا ۔ اک نئی مسلم لیگ کو اس نے اپنی کاٹھی اور کجاوہ بنایا اور قوم وہیں کی وہیں رہی ... سوچتا ہوں ! میرے حضور ؐ کے ماننے والوں کو کیا ہو گیا ... وہ کہ جنہوں نے صرف مدینے کے کچے گھر میں گزارا کیا تھا ، مکہ فتح کر کے بھی اپنا آبائی گھر واپس نہ لیا تھا ، میرٹ پر اپنے غلام کو جرنیل بنایا تھا ، پھر غلام ابن غلام حضرت اسامہ ؓ کو جرنیل بنایا تھا ۔ فتح مکہ کے موقع پر حضرت بلال ؓ کو کعبہ میں ساتھ رکھا تھا ۔ آخری حج کے موقع پر عرفات میں حضرت اسامہ ؓ کو اپنی سواری پر اپنے ساتھ بٹھایا تھا ... وہ کہ جنہوں نے معلوم انسانی تاریخ میں پہلی بار روایت کو توڑا اور اپنا کوئی جانشین نہ بنایا۔امت نے خود جن کو جانشین بنایا ، حضرت ابوبکر ؓ نے چاندی کے آٹھ ہزار درہم اڑھائی سالہ خلافت میں اپنے اوپر خرچ کیے اور فوت ہوتے وقت اپنے بیٹے کی کمائی سے وہ بھی بیت المال میں داخل کرا دیئے ... اسی لیے گاندھی جیسے برہم چاری نے 1947 ء میں انڈیا گورنمنٹ کے وزراء اور سیکرٹریوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ، ہمارے رام اور دیگر دیوتا طلسماتی ہیں ، ان کی مثال نہیں دے سکتا لہٰذا حکومت کرو تو ابوبکرؓ اور عمر ؓ کی دنیا تیاگی کو دیکھ کر کرو ... 
میں سوچتا ہوں آخر کار ہندوستان کے لوگوں نے اپنے روحانی باپو کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے اپنے برہم چاری کو وزیر اعظم بنا لیا ... سوال یہ ہے کہ ہم اہل پاکستان یہ کام کب کریں گے ؟ ہمیں اللہ چاری کب ملے گا ؟ جب تک ہم یہ نہیں کرتے تب تک اپنے نمائشی حکمرانوں کے ہاتھوں دھوکے کھاتے رہیں گے ... ناامیدی کفر ہے ، آئیے ! جدوجہد کر یں ، اخلاص کے ساتھ کریں ، اللہ جب ہمارے اخلاص کو دیکھے گا تو کوئی حقیقی اللہ چاری ضرور دے گا (انشاء اللہ ) اور اگر ہم اپنی حالت خود نہیں بدلیں گے تو بقول علامہ اقبال ...یہود ہنود ہمیں دیکھ کر شرماتے رہیں گے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved