تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     28-05-2014

انڈین چائنا شاپ

''گجرات کا قصائی‘‘ کی عُرفیت سے دنیا بھر میں بھرپور بدنامی کمانے والے نریندر مودی کو قومی سطح کی سیاست میں آتے ہی احساس ہوگیا کہ ماضی کو دُہرانا انتہائی حماقت کے سِوا کچھ نہیں۔ قومی سطح کی سیاست میں مودی کا یہ پہلا تجربہ ہے اور یہ سمجھ لیجیے کہ پہلی ہی فلم سُپر ہٹ ہوگئی ہے۔ فلمی دُنیا میں ایسے بہت سے اداکار ہیں جن کی پہلی فلم نے شاندار کامیابی حاصل کی مگر اِس کے بعد اُن کی شہرت مُنہ کے بل گرگئی۔ نریندر مودی کو پہلی ہی کوشش میں وزیر اعظم کا منصب ملا ہے۔ اس حیثیت کو برقرار رکھنا اُن کے لیے سب سے بڑا دردِ سر ہوگا۔ 
قابل غور بات یہ ہے کہ اِس مرتبہ بی جے پی کو ووٹ ہندو ازم کی بنیاد پر نہیں ملے بلکہ سب سے نمایاں انتخابی نعرہ ترقی و خوش حالی کا تھا۔ نریندر مودی نے کَچّی گولیاں نہیں کھیلیں۔ وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ رہے ہیں۔ فروری 2002 ء کے شرمناک مسلم کش فسادات کے حوالے سے مودی پر دنیا بھر میں لعن طعن ہوئی۔ امریکہ نے ویزا دینے سے انکار کرکے پیغام دیا کہ وہ مودی کو قبول نہیں کرسکتا۔ مگر مودی نے ایک عشرے سے زائد مدت کے دوران گجرات کو ترقی اور استحکام کے اعتبار سے قابلِ رشک بنادیا ہے۔ قومی معیشت میں گجرات کا حصہ ایک محتاط اندازے کے مطابق 15 تا 20 فیصد ہے۔ بلا واسطہ بیرونی سرمایہ کاری کے معاملے میں بھی گجرات نے اعلیٰ مثال قائم کی ہے۔ مودی نے انتخابی مہم میں گجرات کی ترقی اور استحکام کو کیش کرایا ہے، کسی بھی مرحلے پر ہندو ازم کو اپنی قومی پالیسیوں کی بنیاد بنانے کا اشارہ نہیں دیا۔ بھارت میں مودی کو اِسی تصور کے ساتھ ووٹ دیئے گئے ہیں کہ وہ معیشت کو مستحکم کرکے ملک کو مضبوط بنائیں گے۔ 
پاکستان کے خلاف چند سخت بیانات دے کر مودی نے ووٹرز کے ایک بڑے طبقے کی ہمدردیاں ضرور بٹور لیں مگر معاملہ شاید یہیں تک تھا۔ حلف برداری کی تقریب میں سارک کے تمام ارکان کے سربراہانِ مملکت کو مدعو کیا۔ مودی نے پاکستان سمیت تمام پڑوسیوں کو مدعو کرکے یہ پیغام دیا ہے کہ اُنہیں بھارت کا مفاد زیادہ عزیز ہے۔ اب خطے میں امن اور استحکام پاکستان یا کسی اور ملک سے کہیں زیادہ بھارت کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے پالیسی میکرز کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ مغربی (یعنی پاکستان سے ملنے والی) سرحد کا تحفظ بھارتی پالیسی میکرز کی اولین ترجیح ہے۔ بھارت نے کئی عشروں کی محنت سے ترقی اور خوش حالی کی ایک شاندار ''چائنا شاپ‘‘ تیار کی ہے۔ وہ بھلا کیوں چاہے گا کہ خطہ غیر مستحکم رہے اور کوئی بیل اُس کی چائنا شاپ میں گُھس کر سب کچھ تہس نہس کر دے۔ 
ترقی نازک ہوتی ہے اور جو ترقی سے ہمکنار ہوچکا ہو وہ کبھی نہیں چاہتا کہ اُس نے عشروں کی محنت سے جو کچھ پایا ہے وہ دیکھتے ہی دیکھتے مِٹّی میں مل جائے۔ بھارتی قیادت اور پالیسی میکرز بھی اِس بات کو سمجھتے ہیں۔ نریندر مودی نے اپنی تقریب حلف برداری میں خطے کے تمام لیڈروں کو بلاکر ایک مثبت اشارہ دیا ہے۔ اِس موقع سے فائدہ وہی اُٹھا سکے گا جو مثبت سوچ اپنائے گا۔ وزیر اعظم محمد نواز شریف نے نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شریک ہوکر ثابت کر دیا ہے کہ پاکستانی قیادت خطے میں استحکام چاہتی ہے اور یہ بھی کہ بھارت ایک قدم آگے بڑھے گا تو ہم پوری گرم جوشی سے دو قدم بڑھیں گے۔ 
مثبت سوچ کی جتنی ضرورت بھارت کو ہے اُس سے کہیں زیادہ پاکستان کو ہے۔ پاکستان کے اپنے حالات کون سے ایسے مستحکم ہیں کہ ہم کسی بھی پڑوسی سے مخاصمت کے متحمل ہو سکیں! ہمیں بھی ایسے پڑوسیوں کی ضرورت ہے جن کے لیے امن اور استحکام ناگزیر حیثیت رکھتے ہوں۔ بھارت کو اپنی ترقی کے تحفظ کے لیے خطے میں امن اور استحکام درکار ہے۔ اگر نئی دہلی کی اسٹیبلشمنٹ خطے میں امن چاہتی ہے اور اِس کے لیے ایک قدم آگے جانے کو تیار ہے تو ہمیں دو قدم بڑھنا چاہیے۔ اپنے مفاد کو داؤ پر لگائے بغیر اگر خطے میں حقیقی اور پائیدار امن یقینی بنایا جاسکتا ہے تو ایسا کرنے میں کچھ حرج نہیں۔ 
ایک دوسرے کے خُون کے پیاسے دوستی کی راہ پر گامزن ہوجائیں، یہ تو دُنیا بھر میں ہو رہا ہے۔ یورپی اقوام ایک دوسرے کے گلے کاٹتے کاٹتے اب اپنی بے مثال ترقی کے تحفظ کے لیے باہمی مخاصمت بھول چکی ہیں۔ امریکہ ایک زمانے تک یورپ کا غلام رہا۔ مگر اب وہ یورپ کے بغیر دو قدم نہیں چلتا۔ دوسرے بہت سے خطوں میں بھی دوستی ہی کا ٹرینڈ چل رہا ہے۔ اب ہمارے لیے مخاصمت کا ''پیراڈائم‘‘ کسی صورت کارگر ثابت نہیں ہو سکتا۔ ہم بھارت سے کئی جنگیں لڑچکے ہیں۔ مگر ایسے ممالک کی کمی نہیں جو آپس میں کئی جنگیں لڑنے کے بعد اب دوستی کے چبوترے پر بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف ہیں۔ برطانیہ، جرمنی، فرانس اور دیگر یورپی اقوام ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی روادار نہ تھیں مگر اب اُن کے معاملات شیر و شکر کے سے ہیں۔ قومی مفادات سے دستبردار کوئی بھی نہیں ہوا مگر پھر سب ایک
''پیج‘‘ پر ہیں یعنی خطے کا مفاد داؤ پر نہیں لگنا چاہیے۔ 
پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا کو بھی اب ایک پیج پر آنا ہے۔ بنگلہ دیش حکومت نئی دہلی کے آغوش میں ہے۔ اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی شہ پر وہ پاکستان سے فاصلہ بھی برقرار رکھے ہوئے ہے۔ سری لنکا کو بہت سے معاملات میں بھارت سے شِکوہ ہے جس کے باعث اُس نے زمینی فاصلے کو نظر انداز کرکے پاکستان سے سِفارتی قُربت کو ترجیح دی۔ خطے کا مفاد اِسی میں ہے کہ تمام ممالک اپنی خود مختاری اور بنیادی مفادات داؤ پر لگائے بغیر ایک دوسرے کو قبول کرلیں تاکہ حقیقی ترقی، استحکام اور بہبودِ عامہ کی راہ ہموار ہوسکے۔ 
ہمیں ماضی سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔ بھارت میں جب بھی بی جے پی کی حکومت آئی ہے، دو طرفہ تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔ بی جے پی نے پاکستان مخالف باتیں کر کے ووٹ ضرور بٹورے ہیں مگر مجموعی طور پر اُس کا ہر دورِ حکومت پاکستان کے لیے بہتر ثابت ہوتا رہا ہے۔ تین عشروں کی محنت سے ترقی کی جو چائنا شاپ تیار ہوئی ہے اُس کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے بھارت کی سیاسی و عسکری قیادت اور سول بیورو کریسی ضرور چاہے گی کہ کوئی پڑوسی کسی حال میں بدمست سانڈ کی طرح اِس شاپ پر چڑھ نہ دوڑے۔ پڑوسیوں سے تعلقات بہتر بنانا بھارت کی ایک بُنیادی ضرورت ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان جیسے بڑے پڑوسی اِس معاملے میں اُس سے کیسی ڈیلنگ کرتے ہیں، اُس کی جیب کس حد تک ڈھیلی کر پاتے ہیں! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved