تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     28-05-2014

یومِ تکبیر … (آخری قسط)

سرگودھا میں واقع کیرانہ ہلز اور واہ گروپ‘ یہ دو نام پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کی تاریخ میں گمنام ہی سہی لیکن یاد گار ضرور رہیں گے‘ کیونکہ 11مارچ 1983ء کو پاکستان کے ایٹم بم کا پہلا کولڈ ٹیسٹ یہاں پر ہی کامیابی سے ہمکنار ہوا تھا۔ یہ اولین ایٹمی تجربہ ڈ اکٹر اشفاق احمد کی نگرانی میں کیا گیا۔ کیرانہ ہلز میں سرنگوں کی کھدائی کا کام 1979-83ء میں کیا گیا اور یہ کامیاب مرحلہ بھی فوج کے زیر انتظام کام کرنے والے ''سپیشل ڈویلپمنٹ ورکس‘‘ نے ہی سر انجام دیا۔ کیرانہ ہلز کے اس علاقے میں جنگلی سؤروں کی وجہ سے اس ٹیم کو بہت سی پریشانیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا‘ یہاں تک کہ ہمارا ایک فائٹر جہاز بھی رن وے پر دوڑتے ہوئے ان جنگلی سؤروں کا نشانہ بنا۔یہ ایک علیحدہ کہانی ہے۔ بہر حال کیرانہ ہلز کی ان سرنگوں میں کولڈ ٹیسٹ سے پہلے ایک ایڈوانس پارٹی انہیں ڈی سیل کرنے کے لیے بھیجی گئی۔ جب یہ سرنگیں مکمل صاف کردی گئیں تو پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کی ٹیم‘ جس کی سربراہی ڈاکٹر ثمر مبارک مند کر رہے تھے‘ اپنے ساتھ جدید تکنیکی سامان لیے پہنچی ۔ واہ گروپ بھی نیوکلیر ڈیوائس کے ساتھ پہنچ گیا جسے یہاں پر اسمبل کرنے کے بعد سرنگ کے اندر منا سب طریقے سے رکھ دیا گیا۔ 20 کے قریب مختلف قسم کی انتہائی طاقتور کیبلز‘ جنہیں نیوکلیئر ڈیوائس کے مختلف حصوں کے ساتھ منسلک کرتے ہوئے کیرانہ
ہلز میں پارک کیا گیا تھا‘ کوdiagnostic vans سے جوڑدیاگیا۔ اس کولڈ ٹیسٹ کیلئے پش بٹن کی تکنیک استعمال کی گئی جو چودہ سال بعد چاغی کے اس تجربے سے بالکل الٹ تھی جس میں ریڈیو لنک تکنیک کا استعمال کیا گیا۔مارچ1984ء میں کہوٹہ میں بھی ایک کولڈ ٹیسٹ کیا گیا اور پھر یہ سلسلہ پاک فوج کی زیر نگرانی ترقی کی جانب بڑھتا ہی گیا اور 1983-1990ء کے سات سال کے دوران ایٹم بم کی تیاری میں مصروف'' واہ گروپ‘‘ ایک ایسا چھوٹا بم ڈیزائن کرنے میں کامیاب ہوگیا جو ایف سولہ جیسے فائٹر طیارے کے پروں کے نیچے نصب کیا جا سکتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پاکستان ایئر فورس میراج5 ، ایف 16اوراے5 طیاروں کے ذریعے ان نیوکلیئر بموں کو ٹھیک ٹھیک نشانوں پر گرانے کیلئے کنونشنل فری فال‘ لوفٹ بمبنگ‘ ٹاس بمبنگ اور low-level lay down attack techniques کامیابی حاصل کر چکی ہے۔ بھارت کی طرف سے 11اور 13مئی 1998ء کو راجستھان کے علاقے پوکھران میں پانچ ایٹمی دھماکے کرنے سے خطے میں طاقت کا توازن بگڑ کر رہ گیا اور بھارت نے پہلے سے بھی بڑھ چڑھ کر دھمکیاں
دینی شروع کر دیں۔ بھارت کو اسی لہجے میں جواب دینے کیلئے جی ایچ کیو نے 16 مئی کوچیئر مین اٹامک انرجی کمیشن ڈاکٹر اشفاق احمد‘ جو بیرونی دورے پر تھے‘ کو فوری طور پر واپس پاکستان آنے کا پیغام دیا۔ ان کے آنے پر چوٹی کے ایٹمی سائنسدانوں ڈاکٹر اشفاق احمد اور ثمر مبارک مند کا ایک اہم اجلاس ہوا تاکہ طے کیا جائے کہ بھارت کے جواب میں کتنے اور کس نوعیت کے دھماکے کرنے چاہئیں کیونکہ چاغی راس کوہ کی سرنگ میں6 دھماکے کرنے کی صلاحیت تھی۔ طے پایا کہ بھارت ،جوپانچ دھماکے کرنے کا دعویٰ کرتا ہے‘ کے جواب میں چھ دھماکے کیے جائیں۔ 19 مئی کواٹامک انرجی کمیشن کے 140 سائنسدانوں، انجینئرز اور ٹیکنیشنز پر مشتمل ایک ٹیم بوئنگ737 کی دو پروازوں پرچاغی جانے کیلئے اسلام آباد سے بلوچستان روانہ ہو گئیں۔ ٹیم میں واہ گروپ کا DTD اورDiagnostic Group بھی شامل تھا۔ ان میں سے کچھ لوگ اور بڑے بڑے آلات این ایل سی کے ٹرالروں کے ذریعے وہاں پہنچے جنہیں پاک فوج کے کمانڈوز کی حفاظت میں چاغی تک پہنچایا گیا۔ اس کے علاوہ مطلوبہ نیو کلیئر ڈیوائسز کو پاکستانی فوج کے سی 130کے ذریعے Completely knocked down سب اسمبلی فارم میں پہنچادیا گیا۔اسے پاکستانی حدود میں ہونے کے با وجود ایئر فورس کے چار ایف سولہ جہازوں کی حفاظت میں چاغی اور ایک اور جگہ پر پہنچایا گیا۔ ان کے پہنچنے سے پانچ دن پہلے ہی جی ایچ کیو کی ہدایات پر کوئٹہ کی پانچویں کور کے انجینئرز نے چاغی اور دوسری جگہوں پرکھودی گئی سرنگوں کو سیل کر دیا۔ اس کام میں سیمنٹ اور ریت کے 6000 تھیلے استعمال ہوئے۔ 26مئی کی دوپہرتک یہ کام مکمل ہو چکا تھا اور 27مئی کو پہاڑوں پر سخت گرمی پڑنے کی وجہ سے لگایا جانے والا سیمنٹ جلد ہی سوکھ گیا۔ پھر فیصلہ کیاگیا کہ 28مئی کو 3بجے اﷲ اکبر کا نعرہ بلند کرتے ہوئے بٹن دبا دیا جائے ۔ اس سے پہلے بھارتی اور اسرائیلی ممکنہ حملے کے خدشات کے پیش نظر پاکستان کی ایئر فورس کو ہدایات جاری کر دی گئیں کہ فضائی طور پر پورا پاکستان کور کر لیا جائے جس پر پاکستان ایئر فورس کے ایف سولہ اے اور ایف سیون ایم پی کے جہازوں نے فضائوں میں گشت شروع کر دیا۔ پھر سوائےdiagnostic گروپ اور فائرنگ ٹیم کے باقی تمام سول اور ملٹری والوں کو ''گرائونڈ زیرو‘‘ سے ہٹا دیا گیا۔ اس کے بعد دس ممبران کی ٹیم وہاں سے دس کلومیٹر دور بنائی گئی آبزرویشن پوسٹ پر پہنچی۔ ایک بج کر تیس منٹ پر فائرنگ آلات کو ایک بار پھر چیک کرنے کے بعد اﷲ سے کامیابی کی خصوصی دعائیں مانگی گئیں۔ پھراڑھائی بجے پاکستانی فوج کے ایک ہیلی کاپٹر میں ڈاکٹر اشفاق احمد کے علاوہ لیفٹیننٹ جنرل ذوالفقار کی سربراہی میں فوج کی ایک ٹیم موقع پر پہنچ گئی۔ تین بج کر سولہ منٹ پر چیف سائنٹیفک آفیسر محمد ارشد نے نعرہ تکبیر کی گونج میں بٹن دبا دیا اور اللہ کی رحمت سے پانچ ایٹمی دھماکوں کی دھمک سے پاکستان دنیا کی ساتویں اور عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت بن گیا۔ دو دن بعد30 مئی کو پاکستان نے چھٹا ایٹمی دھماکہ بھی کر دیا اور یہ دھماکہ کھاران میں ایک وسیع صحرائی وادی میں کیا گیا‘ جو راس کوہ سے150 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اب مزید تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ قارئین کو پتہ چل گیا ہو گا کہ پاکستان ایٹمی طاقت کب بنا تھا۔
نواز لیگ کا یہ فرمانا کہ کلنٹن کے پانچ فون انہوں نے جوتے کی نوک پر رکھ دیئے‘ تو جناب کہاں کا جوتا اور کہاں کی نوک۔ آپ نے خود کلنٹن کو فون کیے تھے اور ان سے مدد طلب کی تھی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved