بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے خارجہ پالیسی کی اولین پہل‘ سارک ممالک‘ خصوصاً پاکستان سے رابطوں کے ساتھ نہیں کی۔ بیرونی رابطے وہ بہت پہلے شروع کر چکے ہیں۔ انہوں نے جاپان‘ جنوبی کوریا اور سنگاپور کے دورے کر کے‘ وسیع تر اقتصادی تعاون کے امکانات کو دیکھا اور ان تینوں ملکوں کی بزنس کمیونٹی اور حکومتوں کے ساتھ‘ باہمی تجارت اور ٹیکنالوجی کے منصوبوں پر کام شروع کر دیا تھا‘ جن پر ابتدائی کام ہو چکا ہے اور جو جلد ہی زیرعمل آنا شروع ہو جائیں گے۔ روس اور امریکہ کے ساتھ پہلے ہی بھارت کے وسیع تجارتی اور ٹیکنالوجیکل تعلقات موجود ہیں۔ مودی ان میں وسعت چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے کافی انتظامات ہو چکے ہیں۔ ان کے بارے میں پاکستانی قارئین کو بہت کم معلوم ہے۔ یروشلم میں مقیم صحافی جیف موسکووچ‘ نے اسرائیل سے مودی کے تعلقات کے حوالے سے‘ حالیہ مضمون میں جو کچھ لکھا ہے‘ پاکستانی قارئین کی دلچسپی کے لئے‘ اس کے کچھ اقتباسات پیش کر رہا ہوں۔ بھارت کے تازہ انتخابات میں مودی کی کامیابی پر‘ تل ابیب کے انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل سکیورٹی سٹڈیز میں‘ جو گفتگو ہوئی اور اس میں مودی کے لئے جو الفاظ استعمال کئے گئے‘ ان میں سے چند یہ ہیں: ''اپنی بات منوانے والا۔ انتہائی ہوشیار۔ ویری ڈائریکٹ۔ ویری اسرائیلی‘‘۔ مودی نے اپنی کامیابی پر‘ غیرملکی سربراہوں کے جو پیغامات وصول کئے‘ ان میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کا پیغام بھی تھا۔ بعد میں نیتن یاہو نے‘ کابینہ کی میٹنگ میں اس رابطے کے حوالے سے بتایا کہ ''مودی‘ ریاست اسرائیل کے ساتھ اقتصادی ترقی میں تعاون کو تیزی سے وسیع اور مضبوط کرنے کے خواہش مند ہیں‘‘۔ مودی‘ بھارت کے پہلے وزیر اعظم ہوں گے‘ جو اسرائیل کا دورہ کر چکے ہیں۔ اسرائیل کے تاجروں اور صنعتکاروں سے گہرے تعلقات رکھتے ہیں اور اسرائیل کے باخبر حلقے‘ آنے والے دنوں میں‘ بھارت کے ساتھ تعلقات میں تیز رفتار اضافے کے اندازے لگا رہے ہیں۔ بھارت کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات جو‘ اب تک خاموشی سے چل رہے تھے‘ پُرہنگام ہو جائیں گے اور سوا ارب کی آبادی کی مارکیٹ میں‘ جو اشیاء بغیر اشتہاری مہم کے‘ چپ چاپ فروخت ہو رہی تھیں‘ اب میڈیا پر ان کے زوردار اشتہارات دکھائی دیں گے۔
بھارت نے ابتدا میں ہی اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھا‘ لیکن مسلمانوں کی بڑی آبادی کی وجہ سے ان قریبی تعلقات کو نچلی تہوں میں رکھا گیا۔ دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات 1992ء میں قائم ہوئے۔ بھارت آخری غیر عرب اور غیر مسلم ملک تھا‘ جس نے یہ قدم اٹھایا۔ دونوں ملکوں کے مابین ٹیکنالوجی‘ خلائی سائنس اور فوجی تعاون کے شعبوں میں‘ برسوں سے باہمی تعاون جاری تھا۔ 1992ء میں دو طرفہ تجارت‘ جو 200 ملین ڈالر سالانہ تھی‘ 2013ء میں 4.4 بلین ڈالر ہو گئی۔ اس میں اسلحہ کی خریداری شامل نہیں۔ اندازہ ہے کہ اسرائیل‘ ہر سال ایک بلین ڈالر سے زیادہ کا اسلحہ‘ بھارت کو فروخت کر رہا ہے۔ اسرائیل نے گزشتہ تیرہ سال کے دوران‘ سب سے زیادہ سرمایہ کاری گجرات میں کی۔ اس پورے عرصے میں مودی ریاست کے وزیر اعلیٰ تھے۔ گجرات میں اسرائیلی صنعت کاروں کو فراخدلانہ سہولتیں فراہم کی گئیں۔ اسرائیلی ٹھیکیداروں کو بڑے بڑے ٹینڈرز دیے گئے۔ بندرگاہوں‘ زراعت‘ فارماسیوٹیکل‘ متبادل انرجی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی کمپنیوں نے وسیع پیمانے پر کاروبار پھیلایا۔ گجرات میں ہونے والے ترقیاتی کام‘ انتخابی مہم کے دوران مودی کے بہت کام آئے‘ انہی کی مثالیں دے کر مودی نے وعدے کئے کہ وہ پورے ملک میں اسی رفتار سے ترقیاتی کام کریں گے۔ گجرات کی ترقی میں‘ اسرائیل کا حصہ دیگر تمام بیرونی سرمایہ کاروں سے زیادہ رہا۔ اسرائیلی توقع کر رہے ہیں کہ اب پورے بھارت میں انہیں وہی سہولتیںحاصل ہو جائیں گی‘ جن سے وہ گجرات میں مستفید ہوتے رہے۔ مودی نے گجرات میں وسیع پیمانے پر
نجکاری کی۔ ''کم از کم حکومت‘‘ کے اصول پر عمل کیا۔ مالیاتی اور ٹیکنالوجیکل پارک بنائے۔ بھاری بیرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی اور کرپشن کا موثر طریقے سے قلع قمع کیا۔ مودی کے دور میں‘ اقتصادی ترقی 10 فیصد سالانہ رہی۔ گجرات کا سب سے بڑا شہر احمد آباد ہے۔ تیرہ سال کے اندر‘ وہ دنیا بھر میں‘ تیز رفتار ترقی کرنے والا تیسرا بڑا شہر قرار پایا۔ 2006ء میں مودی نے اسرائیل میں ہونے والی زرعی ٹیکنالوجی کانفرنس میں شرکت کی۔ وہ پہلے بھارتی وزیر اعظم ہیں‘ جو نہ صرف اسرائیل جا چکے ہیں بلکہ وہاں کے سیاست دانوں اور صنعتی و تجارتی لیڈروں کے ساتھ‘ وسیع تعلقات رکھتے ہیں۔ مودی کی جماعت بی جے پی‘ ہمیشہ سے اسرائیل کی طرف جھکائو رکھتی ہے۔ اسرائیل میں بی جے پی کے اکثر لیڈروں کی آمدورفت رہتی ہے۔ سینئر لیڈر ایل کے ایڈوانی بھی دورہ کرنے والوں میں شامل ہیں۔ یوں تو 1992ء میں کانگریسی حکومت نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لئے تھے‘ لیکن ان میں زیادہ گہرائی اور وسعت1999ء سے 2004ء کے دوران پیدا ہوئی‘ جب بی جے پی کی حکومت تھی۔ ایریل شیرون‘ اسرائیل کے پہلے بڑے لیڈر تھے جو 2003ء میں‘ بھارت کے دورے پر آئے۔ یہ تمام دورے‘ بی جے پی کے عہد اقتدار میں ہوئے۔ انٹرنیشنل بزنس ٹائمز کے مطابق‘ مودی نے وعدہ کر رکھا ہے کہ وزیر اعظم کی حیثیت سے‘ وہ اپنے دور اقتدار میں اسرائیل کا دورہ کریں گے۔ وقت کا تعین ابھی نہیں کیا گیا۔ اسرائیلی وزارت خارجہ کے مختلف سرویز کے مطابق‘ اس کے لئے عوامی حمایت کی شرح امریکہ سمیت‘ ساری دنیا سے زیادہ ہے۔ بھارت کی دیہی آبادی میں اسرائیل کو ''ایگری کلچرل سپر پاور‘‘ کہا جاتا ہے جبکہ شہری آبادی میں اسے ایجادات اور کارپوریٹ بزنس میں لیڈر قرار دیا جاتا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران‘ امریکہ اور بھارت میں‘ تجارت و صنعت کے علاوہ‘ انسداد دہشت گردی کے متعدد معاہدے بھی ہوئے۔ اب تک اسرائیل کا دورہ کرنے والے بھارت کے تجارتی وفود میں سب سے بڑا وفد‘ تل ابیب میں ہونے والی اس عظیم تجارتی کانفرنس میں شرکت کرنے جائے گا ‘ جو اسی ماہ ہو رہی ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ مودی کے دور حکومت میں‘ بھارت کے بڑے بڑے بزنس لیڈر‘ اس وفد میں شامل ہوں گے۔ اسرائیل کے سرمایہ کار جو ٹیکنالوجی اور تجارتی مہارتیں گجرات میں استعمال کرتے ہیں‘ ان کے اثرات فوراً ہی پورے بھارت میں پھیل جاتے ہیں۔ اسرائیلی سرمایہ کاروں کا خیال ہے کہ مودی کے دور حکومت میں‘ سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والا ملک اسرائیل ہو گا۔
گجرات میں بہت سی میگا اسرائیلی کمپنیاں‘ مشترکہ منصوبوں پر کام کر رہی ہیں۔ وہ سب اور مزید اسرائیلی بزنس گروپ‘ بھارت کی دیگر ریاستوں میں اپنے کاروبار پھیلانے کی تیاریاں کر چکے ہیں۔ ان کی تیز رفتار سرمایہ کاری سے‘ بھارتی تاجروں اور عوام کو فوری فوائد حاصل ہونے لگیں گے۔ اسرائیلیوں اور بھارتیوں کی مشترکہ سرمایہ کاری سے‘ تیار ہونے والی مصنوعات کے لئے‘ امریکی مارکیٹ آسانی سے دستیاب ہو گی۔ بھارت اور اسرائیل کی مشترکہ سرمایہ کاری امریکی ملٹی نیشنلز کو بھارت میں کھینچنے کا باعث بنے گی۔ امریکہ کی سرکاری پالیسی یہ ہے کہ صنعت و ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی کے ذریعے‘ بھارت کو چین سے مسابقت کے لئے تیار کیا جائے۔ یہی مودی کا خواب ہے لیکن کٹر قوم پرست مودی‘ امریکہ پر مکمل انحصارسے گریز کرے گا۔ مودی پہلے سے اس صورت حال سے نمٹنے کی تیاری کر چکے ہیں۔ ان کی نظر جاپان‘ جنوبی کوریا‘ سنگاپور اور ملائشیا پر ہے۔ بھارت کی وزارت خارجہ میں
کئی عشروں سے''لُک ایسٹ‘‘ تھیوری پر کام ہو رہا ہے۔ ان سارے ملکوں میں بھارتی سیاست دانوں اور تاجروں نے گہرے رابطے قائم کر رکھے ہیں لیکن باہمی تجارت‘ اشیاء کی درآمد و برآمد تک محدو د ہے۔ مودی ان ملکوں سے بھاری سرمایہ کاری کی امید رکھتے ہیں۔ یہ سارے ملک اور امریکہ‘ سب چاہتے ہیں کہ بھارت کو چین کے مدمقابل کی حیثیت میں کھڑا کیا جائے۔ امریکی بلاک‘ روس اور مشرق میں بھارت کے سارے اتحادی‘ جب بھرپور تجارتی‘ صنعتی اور ٹیکنالوجیکل مفادات پیدا کر لیں گے تو ان سب کے ویسٹڈ انٹرسٹ بھی مشترک ہو جائیں گے۔ پاکستان کے سیاست دانوں اور پالیسی سازوں نے اگر حسب روایت غفلت سے کام لیا تو بھارت جو پہلے ہی بہت آگے نکل چکا ہے‘ اتنا آگے نکل جائے گا کہ ہمیں اس کے زیر سایہ ملک کا درجہ قبول کرنا پڑے گا۔ یہودی سرمایہ داروں نے‘ اپنے بھاری مفادات بھارت میں قائم کر لئے تو ہمارے لئے مزید مشکلات پیدا ہوں گی۔ یہ ہے آنے والے دنوں کے وہ چیلنج‘ جن کا ہمیں سامنا کرنا ہو گا۔