تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     29-05-2014

فریب خوردہ شاہیں

اقتدار اور دولت سے محبت کرنے والے، بھیک پہ پلنے والے کبھی قوموں کی تقدیر نہیں بدلا کرتے۔ ہجوم میں مغالطے ہیں اور ان سے رہائی نہیں۔ خیال و خواب کی جنّتیں وہ آباد کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ متشکّل ہو جائیں۔ پھر کوئی گریہ کناں ہوتا ہے۔ 
حسرتیں دل کی مجسّم نہیں ہونے پاتیں 
خواب بننے نہیں پاتا کہ بکھر جاتا ہے 
قدرت کے ازلی قوانین اور ارضی حقائق بھلا کر سپنے کے تاروپود بُنے جائیں تو نتیجہ خود ترحمی کے سوا اور کیا ہو گا۔ بہشتِ بریں سے نکالا گیا آدمی، اس کی تمنّا میں گم، یہ بھول جاتا ہے کہ یہ دنیا جنّت نہیں بن سکتی۔ اس کے طرزِ احساس کا گداز پھر شعر و نغمہ میں ڈھلتا ہے۔ Paradise Lost فردوسِ گم گشتہ۔ 
فرمان ہے کہ تم آزمائش کے لیے بھیجے گئے۔ کچھ نعمتیں ہیں، کچھ مہلت ہے، کچھ مشکلات اور ایک سوال، پیہم اور سچّے غور و فکر سے جس کا جواب دینا ہے: کیا اس کائنات کا کوئی خالق ہے اور اگر ہے تو اس کی منشا کیا ہے؟ اولادِ آدم کو طے کرنا ہے کہ انسان کیا ہے، کائنات کیا اور زندگی کیا۔ دنیا کیا ہے اور آخرت کیا۔ ارشاد یہ ہے: تمہارا ذہن جب الجھ جائے تو اہلِ علم کے پاس جائو۔
چھوٹے چھوٹے مفادات اور اپنی ذات کے بھنور۔ آدمی ان سے اوپر نہیں اٹھتا اور عمر بھر بھٹکتا رہتا ہے۔ ایک ناکام اور نامراد زندگی بتا کر، حسرت و یاس کے ساتھ وہ رخصت ہوتا ہے۔ 
تہمتیں چند اپنے ذمے دھر چلے
کس لیے آئے تھے اور کیا کر چلے 
زندگی کے آخری برسوں میں اقبالؔؔکا ملال یہ تھا کہ ان کی قوم وقت کے تقاضوں کو سمجھ نہیں پائی۔ بار بار وہ کہا کرتے کہ مسلمانوں کی تمام پارٹیوں کو متحد ہو کر ایک نیا وطن تخلیق کرنا چاہیے‘ جہاں فطرت کے مطالبات سے ہم آہنگ وہ ایک شائستہ روحانی زندگی بسر کر سکیں۔ جہاں عدل اور علم کی حکمرانی ہو۔ گروہ در گروہ بٹے مذہبی فرقہ پرستوں اور انگریز کے ٹوڈیوں سے وہ نالاں تھے۔ 
غیاث الدین بلبن کی سپاہ نے جب خواجہ فریدالدین گنج شکرؒ کی بارگاہ پہ اصرار کیا تو کیسی وہ سعید ساعت تھی۔ جب مسلم برصغیر کے اوّلین معمار معزالدین نے، تاریخ کو جسے شہاب الدین غوری کے نام سے یاد رکھنا تھا، خواجہ معین الدین چشتیؒ کو لکھا: آپ کی اجازت کے بغیر میں سرزمینِ ہند کا قصد نہ کروں گا۔ محمود غزنوی فاتح بڑا تھا‘ مگر شہاب الدین سا دور اندیش نہیں؛ چنانچہ یہ غوری تھا، جس نے وسطی ہند میں مسلم اقتدار کی بنا رکھی۔ خود غزنوی کا حال بھی یہ تھا کہ اپنے پڑوسی شیخِ ہجویر علی بن عثمان ہجویری ؒ سے مشاورت کی تو یکسو ہو گیا۔ مسلمان اب تاریخ میںجی نہیں لگاتے اور جانتے نہیں کہ وہ تعویز نہیں دیا کرتے تھے۔ اپنے ادوار کے وہ سب کے سب بڑے سکالر تھے۔ قرآنِ کریم یہ کہتا ہے: درجات علم کے ساتھ ہیں۔ 
فوجی افسروں کے ایک گروہ سے بات کرتے ہوئے، ہمارے عہد کے عارف نے ان سے یہ کہا تھا: کس بنیاد پر تم کامرانی کے آرزومند ہو؟ وہ روحانی اور علمی توثیق کہاں ہے، جس کے بغیر اقوام اور افواج سرخرو نہیں ہوا کرتیں۔ جی ہاں! یہ ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے لیکن آدمی ہی اس پر دسترس پاتے ہیں، جنّات نہیں۔ دوسری عالمگیر جنگ کی تباہ کاریوں سے کھنڈر جاپان، کوریا اور جرمنی کیا پھر سے سرفراز نہیں۔ ابھی تیس برس پہلے تک حسرتِ تعمیر کے سوا چینیوں کے پاس کیا تھا۔ پاکستان دنیا کی سات ذہین ترین اقوام میں سے ایک ہے۔ لاکھوں پیشہ ور ماہرین جو دنیا بھر میں بہترین مانے جاتے ہیں۔ قدرتی وسائل سے مالا مال سرزمین۔ اگر وہ دنیا کا بہترین ایٹمی اور میزائل پروگرام تشکیل دے سکتے ہیں تو باقی میدانوں میں کیوں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ وہ بہترین پولیس، سول سروس، ٹیکس وصولی کا موزوں نظام، بندوبستِ اراضی کے جدید ادارے، ایسی عدالتیں اور ابلاغ کے ایسے ادارے کیوں قائم نہیںکر سکتے، جو دوسری اقوام نے تعمیر کیے ہیں؟ 
دوسری کی بنائی ہوئی دنیا میں، تقلید کا روّیہ شعار کر کے، کبھی کوئی قوم سرخرو ہوئی ہے کہ اب ہو گی؟ مغرب کے نقطۂ نظر سے اپنے وطن کو دیکھنے والے یہ دانشور اور مفکّر۔ قبائلی عہد میں جینے والے یہ علما۔ خوئے غلامی کا نتیجہ یہ ہے کہ امّت میں پہل قدمی کرنے والا کوئی نہیں۔ ختم المرسلینؐ کا قول یہ ہے ''شوق میری سواری ہے‘‘
شوق ہو راہنما تو کوئی مشکل نہ رہے 
شوق مشکل سے مگر راہنما ہوتا ہے 
کپتان نے کہا: لوہے اور گیس کے ذخائر سے مالا مال وزیرستان کے الگ ہو جانے کا خطرہ ہے۔ نہیں خان صاحب! بالکل نہیں۔ دو ہی راستے ہیں۔ مذاکرات یا جنگ۔ بات ان سے کی جاتی ہے، جو کرنا چاہیں، سرکشوں اور باغیوں سے نہیں۔ کون ملک ہے، جو اپنی سرزمین پر اجنبیوں کو گوارا کر سکتا ہے۔ کل جماعتی کانفرنسوں کی بجائے، وزیر اعظم، سپہ سالار اور نمایاں لیڈر خاموشی سے مل بیٹھیں اور سوچ سمجھ کر لائحۂ عمل طے کریں۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان کی سرحد پر کمانڈر سجنا اور مولوی فضل اللہ کے حامی ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے ہیں۔ پانچ چھ قتل روزانہ۔ کراچی سمیت، جہاں گزشتہ چند ماہ میں عساکر نے یلغار کی، ان کی قوت اب بہت کم رہ گئی۔ محسود الگ ہو گئے اور طالبان کا وقتِ آخر آ پہنچا۔ سال بھر میں امن کا حصول ممکن ہے مگر سول اداروں مثلاً بڑی سڑکوں اور گلی کوچوں کی نگرانی کرنے والی پولیس اور انٹلی جنس کے بغیر بالکل نہیں۔
بھارتی و مغربی گٹھ جوڑ سے، پیہم پروپیگنڈے سے ایک مصنوعی ماحول پیدا کیا گیا، جس میں امن کے خواب بیچے جاتے ہیں۔ عشروں سے جاری مذاکرات میں کشمیر، سرکریک اور سیاچن پر، بھارتیوں نے کبھی لچک کا ذرا سا مظاہرہ بھی کیا؟ اب وہ کیوں کریں، جب کہ طاقتور ہیں۔ 
کل بنگلور میں ہندوئوں کا ایک وفد ڈپٹی کمشنر کے دفتر گیا کہ فجر کی اذان پہ پابندی لگا دی جائے۔ ہٹلر اور مسولینی کا اندازِ فکر رکھنے والا نریندر مودی پاکستان کو امن کا تحفہ دے گا؟ پھر یہ کہ ابھی تو نئی بھارتی سرکار نے اپنے پتے دکھائے ہی نہیں۔ خوش فہمی چیمبرلین کو ہٹلر کے دربار میں لے گئی تھی، میاں محمد نواز شریف کو مودی کی بارگاہ میں۔ امن کا حصول نغموں سے نہیں بلکہ جیسا کہ قرآن کہتا ہے، اپنے گھوڑے تیار رکھنے سے ممکن ہوتا ہے۔ معیشت کی تعمیر اور قومی اتفاقِ رائے۔ سیاستدان ایک دوسرے کا گریباں پکڑتے ہیں۔ میڈیا میں ایسے ہیں، جو فوج کو گالی دیتے اور ابلیسی اظہار کی آزادی کو مقدس کہتے ہیں۔ وہاں اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر بھارتی صحافی پاکستان کا تمسخر اڑاتے ہیں۔ پھر ہم محترمہ مریم نواز کو سنتے ہیں: میرے گرامی قدر والد کا تجربہ اور عمر مودی سے زیادہ ہے۔ حسین نواز ارشاد کرتے ہیں: میاں صاحب کو بھارت سے بڑی امید وابستہ ہے۔ پھر امریکی خیرات پر پلنے والے مصرع اٹھاتے ہیں۔ اس گیت کا مصرع، جو دہلی، واشنگٹن اور تل ابیب میں لکھا گیا۔ اللہ کے بندو، ہوش کے ناخن لو۔ مولویوں اور مغربیوں کی بجائے، زندگی کو اپنی آنکھ سے دیکھنا سیکھو۔ وگرنہ خود فریبی وگرنہ وہی تباہی اور خود شکنی۔ 
وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلا ہو کرگسوں میں 
اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسمِ شاہبازی
اقتدار سے، دولت سے محبت کرنے والے، بھیک پہ پلنے والے کبھی قوموں کی تقدیر نہیں بدلا کرتے۔ ہجوم میں مغالطے ہیں اور ان سے رہائی نہیں۔ خیال و خواب کی جنّتیں وہ آباد کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ متشکّل ہو جائیں۔ پھر کوئی گریہ کناں ہوتا ہے۔ 
حسرتیں دل کی مجسّم نہیں ہونے پاتیں 
خواب بننے نہیں پاتا کہ بکھر جاتا ہے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved