بھارت کے حالیہ انتخابی نتائج سیاسی پنڈتوں کے لئے خلا ف توقع تھے۔ کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ مسلمانوں کے ووٹ بھاری تعداد میں بی جے پی کو ملیں گے۔ روایتی طور پر مسلمانوں کے ووٹ کانگریس کے حق میں جایا کرتے تھے۔ کانگریس سے مایوسی ہونے لگی تو مسلمانوں نے مختلف پارٹیوں کی طرف دیکھنا شروع کیا‘ ان میں بی جے پی ہرگز نہیں تھی۔ یو پی میں‘ جہاں مسلمان دیگر بھارتی ریاستوں کی نسبت کافی زیادہ تعداد میں رہتے ہیں‘ دو بڑی جماعتوں نے مسلمان ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ ایک تھی بہوجن سماج پارٹی اور دوسری سماج وادی پارٹی۔ یہ دونوں پارٹیاں دلت کمیونٹی سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان دونوں پارٹیوں نے خود کو تنگ نظر اور متعصب ہندوئوں کے خلاف‘ باغی کے طور پر پیش کیا۔ ان کی قیادت چھوٹی ذات کے ہندوئوں پر مشتمل تھی۔ انہوں نے سماج کے پسے ہوئے طبقوں کو متاثر کر کے‘ انہیں تبدیلی کے سنہرے خواب دکھائے۔ کانگریس اور بی جے پی قومی سطح کی جماعتیں تھیں‘ ان دونوں کی قیادت اونچی ذات کے ہندوئوں پر مشتمل تھی اور دونوں میں مسلمانوں کے خلاف تعصب پایا جاتا تھا۔ بی جے پی کھل کر ہندوتوا کا پرچار کرتی تھی اور مسلمانوں اور نچلی ذات کے ہندوئوں‘ دونوں کو اپنے سماج کا حصہ نہیں مانتی تھی۔ اس کے برعکس کانگریسی قیادت‘ سیکولرازم کا کھوکھلا دعویٰ کر کے مسلمانوں سمیت محروم اور مظلوم طبقوں کے عوام کو برابری کے پُرفریب نعروں سے متاثر کر کے‘ ہر مرتبہ ان کے ووٹ بٹورنے میں کامیاب ہو جاتی۔
آزادی کے بعد‘ قریباً چار عشرے بھارت پر کانگریس اور دوسرے الفاظ میں نہرو خاندان حکمران رہا۔ کانگریس کی ہر کامیابی میں مسلم ووٹر نمایاں کردار ادا کرتے تھے۔ ہر بار انہیں نئی امیدیں اور دلاسے دے کر‘ ان کے ووٹ حاصل کر لئے جاتے لیکن حکومتی پالیسیاں واضح طور سے ہندووانہ ہوتیں۔ سوچے سمجھے منصوبوں کے تحت مسلمانوں کو آہستہ آہستہ ہر میدان میں پیچھے دھکیلا جاتا رہا۔ عملاً کانگریس کی کوئی بھی پالیسی‘ مسلمانوں کے حق میں نہیں تھی۔ انہیں بتدریج سرکاری نوکریوں سے محرو م کرتے کرتے ہندو اکثریت کی سماجی بالادستی قائم کر دی گئی۔ نوے فیصد بڑے عہدے ہندوئوں کو دیئے جاتے۔ اسی طرح صنعت و تجارت میں مسلمانوں کو پیچھے چھوڑ دیا گیا۔ ایک خاموش سازش کے تحت‘ ہندو کاروباری نہ تو مسلمانوں کے ساتھ لین دین کرتے اور نہ انہیں بنکوں سے قرضے ملتے۔ جو تھوڑے بہت مسلمان صنعتیں قائم کر چکے تھے‘ انہیں بھی ایک طرح کاروباری طور پر علیحدہ کر کے محدود اور پھر خسارے میں جانے پر مجبور کر دیا گیا۔ جہاں مسلمان اپنی محنت اور ہنر مندی سے ترقی اور خوشحالی کی طرف بڑھنے لگتے‘ منظم ہندو غنڈے ان کے گھر اور کاروبار تباہ کر کے انہیں سڑک پر لا بٹھاتے۔ اس غنڈہ گردی کو فرقہ وارانہ فساد کا نام دیا جاتا۔ اصل میں یہ فسادات مسلمانوں کو معاشی طور پر پیچھے دھکیلنے کی پالیسی کا حصہ تھے۔ میرٹھ‘ مراد آباد‘ گجرات‘ ممبئی غرض جہاں جہاں مسلمان کسی دست کاری یا کاروبار میں آگے بڑھتے نظر آئے‘ وہاں نام نہاد فسادات برپا کر کے انہیں پیچھے دھکیل دیا گیا۔
خود مسلمانوں کے اندر جو بھی سیاسی لیڈر سامنے آئے‘ آخر کار موقع پرست ثابت ہوئے۔ وہ مسلمانوں کے حقوق کا نام لے کر ووٹ لیتے اور بعد میں ہندو حکمرانوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے ذاتی مفادات حاصل کرنے لگتے۔ کسی نے بھی اپنے نعروں پر عمل کرتے ہوئے مسلمانوں کو حقوق دلانے کے لئے کوشش نہیں کی۔ اپنے لیڈروں کی ان دغابازیوں سے تنگ آ کر مسلمانوں نے ان جماعتوں کی طرف دیکھنا شروع کر دیا جو سماج میں اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کی برتری کے خلاف جدوجہد کا نعرہ لگا رہی تھیں۔ ان میں تین لیڈر نمایاں تھے‘ کاشی رام‘ ملائم سنگھ اور لالو پرشاد یادیو۔ لالو پرشاد بہار سے تعلق رکھتے ہیں۔ کاشی رام اور ملائم سنگھ کی سیاست کا مرکز یو پی رہا۔ یوپی میں مسلمان کل آبادی کا پانچواں حصہ ہیں۔ وہ جس کی حمایت کرتے‘ توازن اس کے حق میں ہو جاتا۔ شروع میں تو یو پی کانگریس کا گڑھ سمجھا جاتا رہا اور مسلمانوں کے متحدہ ووٹ کانگریسی امیدواروں کی کامیابی میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے۔ جیسے جیسے مسلمانوں کی محرومیاں بڑھتی گئیں‘ کانگریسی قیادت انہیں مایوس کرتی رہی اور وہ معاشی طور پر پستے پستے نچلی ذات کے ہندوئوں کے درجے پر آنے لگے تو وہ ان تین لیڈروں کو اپنا ہمدرد سمجھ کر‘ ان کی حمایت کرنے لگے۔ پہلے وہ کاشی رام کی طرف گئے‘ ان کی جانشین مایا دیوی بنی۔ پھر وہ ملائم سنگھ کی طرف گئے اور بہار میں لالو پرشاد یادیو اور نتیش سنگھ کی حمایت کرنے لگے لیکن یہ بھی سب کے سب سماجی اور معاشی طور پر اپنے ہندو ساتھیوں کی سرپرستی کرتے رہے اور مسلمانوں کو ان کی حمایت بہت مہنگی پڑی۔ تمام تر محرومیوں اور معاشی بدحالیوں کے باوجود‘ وہ اپنے ماضی کے حوالے سے عزت دار سمجھے جاتے تھے مگر جب ان کے ووٹوں سے دلت اقتدار میں آنے لگے تو ان کی یہ سماجی حیثیت بھی کم ہوتی رہی۔ 2014ء کی انتخابی مہم شروع ہوئی تو مسلمان اپنی تمام‘ نام نہاد ہمدرد جماعتوں سے مایوس ہو چکے تھے لیکن بی جے پی سمیت‘ ساری جماعتوں نے بھارتی ووٹروں کو پرانے تجربے کی روشنی میں دیکھا۔ ہر پارٹی نے اپنی انتخابی پوزیشن کے اندازے لگاتے ہوئے‘ مسلمان ووٹروں سے امیدیں لگائے رکھیں جبکہ بی جے پی نے اپنی حکمت عملی مرتب کرتے ہوئے‘ روایتی طور پر یہی باور کئے رکھا کہ مسلمانوں کے ووٹ تو اس کے حریفوں کو جائیں گے۔ کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ ماضی کے تلخ تجربوں کے نتیجے میں مسلمان اندر ہی اندر غیظ و غضب سے بھرے بیٹھے ہیں اور جس جس نے انہیں دغا دے کر حکومتوں کے مزے اڑائے اور انہیں پستی میں دھکیلتا چلا گیا‘ وہ ان سب سے حساب چکانے پر تل گئے تھے۔ اس سلسلے میں نہ کوئی مہم چلی‘ نہ کوئی نعرہ لگا اور نہ منصوبہ بندی ہوئی۔ یہ مسلمانوں کی بھارت کے روایتی حکمرانوں کے خلاف‘ خاموش بغاوت تھی۔ انتخابات کے نتائج سامنے آئے تو بی جے پی سمیت سب حیرت زدہ رہ گئے۔ بی جے پی کو یو پی میں اس قدر کامیابی کی امید نہیں تھی‘ جو اسے حاصل ہو گئی۔ اس کے ماہرین ابھی تک اس حیرت انگیز معاشرتی اور سیاسی تبدیلی کے تجزیے کرنے میں مصروف ہیں۔ یو پی میں کوئی بھی جماعت مسلمانوں کے ووٹوں کے بغیر‘ ایسی بھاری کامیابی حاصل نہیں کر سکتی جو بی جے پی کو ملی۔ بی جے پی کے سرگرم مسلمان لیڈر‘ مختار عباس نقوی‘ جو راجیہ سبھا کے ممبر ہونے کی وجہ سے انتخابی میدان میں نہیں اترے‘ کا اندازہ ہے کہ بی جے پی کو مسلمانوں کے پندرہ فیصد کے قریب ووٹ ملے جبکہ ماضی میں بی جے پی کو مسلمانوں کے صرف دو تین فیصد ووٹ ملا کرتے تھے۔ مسلمانوں میں شیعہ کمیونٹی نے ایک ساتھ بی جے پی کوووٹ دیے جبکہ سنیوں کے ووٹ چار جماعتوں یعنی مایا وتی‘ ملائم سنگھ‘ لالو پرشاد اور کانگریس میں تقسیم ہوئے۔ گویا انتخابی نتائج پر شیعہ مسلمانوں کے ووٹوں نے اہم کردار ادا کیا۔
آزادی سے پہلے سامراجی حکمرانوں کے خلاف تمام ہندوستانیوں نے اکٹھے مل کر جدوجہد کی تھی۔ مذاہب کے درمیان فرق ختم ہو گیا تھا۔ فرقہ بندی کی تقسیم کیسے رہ سکتی تھی؟ تحریک پاکستان میں حصہ لینے والے مسلمان فرقہ واریت کا فرق بھول کر شانہ بشانہ لڑے۔ جو مسلمان بھارت میں رہ گئے ان میں بھی شیعہ سنی کی تفریق نہیں تھی۔ ہندو اکثریت کی حکمرانی کا خوف ان میں‘ مشترک تھا آزادی کے بعد ابتدائی برسوں میں وہ ایک قوم کی حیثیت سے اپنے حقوق کے تحفظ کی جدوجہد کرتے رہے لیکن جب سے عرب سرمایہ‘ بھارتی مسلمانوں میں پہنچا تو وہ سارے کا سارا شیعہ مخالف فرقوں کے ہاتھ لگا‘ عرب ڈالروں کے ساتھ فرقہ وارانہ نفرت بھی آئی اور مسلمانوں کی یک جہتی ختم ہو گئی۔ یہاں تک کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ‘ جو قانون سازی میں مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے مشاورتی ذمہ داریاں ادا کرتا تھا‘ پر بھی اثرات مرتب ہوئے۔ 2005ء میں شیعہ کمیونٹی نے یہ کہہ کر اپنے آپ کو اس بورڈ سے الگ کر لیا کہ سنی علماء مشاورت میں‘ ہمارے مسلک کو نظر انداز کرتے ہیں۔ پاکستان اور خلیج کے ملکوں میں بڑھتی ہوئی شیعہ سنی کشیدگی کے اثرات‘ بھارت میں بھی پہنچ گئے اور حالیہ انتخابات میں اس عنصر نے اہم کردار ادا کیا۔ بنارس اور یو پی میں جن دو حلقوں سے مودی نے کامیابی حاصل کی‘ وہاں کے شیعہ لیڈروں نے صاف کہا کہ روایتی طور سے شیعہ سنی اکٹھے نہیں چل سکتے۔ سیاسی طور پر ہم حالات کے تحت اکٹھے ضرور رہے لیکن جب ہم نے دیکھا کہ سنی مودی کی مخالفت کر رہے ہیں تو ہم نے فیصلہ کیا کہ ہمارے تمام ووٹ مودی کو جائیں گے۔ کچھ لوگ شیعہ سنی تقسیم کا الزام پاکستان پر بھی لگاتے ہیں۔ لکھنو میں راج ناتھ سنگھ نے اسی نشست سے الیکشن جیتا‘ جہاں سے واجپائی منتخب ہوئے تھے۔ وہاں کے شیعہ لیڈر مولانا کلب جاوید نے راج ناتھ کی بھرپور حمایت کی۔ واجپائی کی کامیابی میں بھی شیعہ ووٹروں کا نمایاں حصہ تھا۔ مجموعی طور پر مسلمان اب سیاست میں ہندو قوم پرستی کے اندر اپنے لئے گنجائشیں ڈھونڈنے لگے ہیں۔ مسلمانوں اور بی جے پی میں بڑھتے ہوئے تعاون سے قیاس کیا جا رہا ہے کہ اس سے بھارت کی معاشی حالت میں بہتری آئے گی خصوصاً مینوفیکچرنگ کے شعبے میں کساد بازاری ختم ہو جائے گی۔ مودی کی بھی یہی خواہش ہے کہ ایسی دست کاریوں اور ہنرمندیوں‘ جن میں مسلمانوں کو خصوصی مہارتیں حاصل ہیں‘ میں مسلمانوں کو آگے بڑھنے کے مواقع مہیا کئے جائیں۔ آزادی کے67 برسوں کے بعد‘ بھارت میں قوم پرستی کی نئی تشکیلات دریافت ہو رہی ہیں‘ جن میں مسلمانوں کے سماجی درجے کا از سر نو تعین کیا جائے گا۔ یہ اتنا بڑا المیہ ہے‘ جس کا پس منظر جان کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ایک ایسی قوم جو سماجی طور پر بالائی ہندو طبقوں کے برابر کی حیثیت رکھتی تھی‘ اسے کمتر سماجی رتبہ قبول کرنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ بھارتی مسلمانوں کو اس حال میں پہنچانے کا ذمہ دار کون کون ہے؟ اس کے بارے میں جتنا بھی سوچیں‘ دکھ اتنا ہی بڑھ جاتا ہے۔
کتنے مجبور ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں