تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     30-05-2014

فوج بھی معاف نہیں کر سکتی

آندھی اور بارش، دریا کے طوفان اور سمندر کی شورش کون روک سکتا ہے؟ آوازِ خلق ہی نقارۂ خدا ہوتی ہے۔ سرکارؐ نے فرمایا تھا: لوگوں کے دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں۔ 
عوامی تحریکیں کبھی نہیں مرتیں اور مشکوک میڈیا گروپ کے خلاف یہ ایک سچّی عوامی تحریک ہے۔ نامور شاعر ظہیر کاشمیری تب ایک اخبار کے ایڈیٹر تھے۔ عالمی اخبارات کا ایک انبار ان کی میز پہ رکھا تھا۔ مجھ سے کہا: کچھ خبریں ان سے کشید کر لیا کرو۔ ایک جریدہ تھا "Middle East"۔ باقاعدہ اور بغور اسے پڑھنا شروع کیا تو چودہ طبق روشن ہو گئے۔ ایران کے باطن میں ایک انقلاب پل رہا تھا۔ کوئی دن میں سیاہ فام امریکی مسلمانوں کے لیڈر، کرکٹ کے مشہور کھلاڑی لارا اور باکسر محمد علی کلے سے کہیں زیادہ وجیہ اور تر دماغ، میرے دوست مصطفی تہران سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے اور کہا: تم نے جان لیا ہے۔
سوویت فوج افغانستان میں داخل ہوئی تو خان عبدالولی خاں نے فرمایا: وہ اگر چاہیں تو کراچی جا پہنچیں۔ بائیں بازو کے دانشور تو الگ کہ مدّتوں سے روس کے گیت گایا کرتے، اکثر تجزیہ کاروں کی رائے بھی یہی تھی۔ جماعتِ اسلامی کے امیر میاں طفیل محمد نے ایک ملاقات میں کہا: بیچارے نہتے افغان کب تک لڑیں گے۔ ایجنسی افغان پریس میں ہمارے ایک رفیق ہوا کرتے تھے، محمد رمضان عادل۔ سادہ اطوار، سادہ مزاج۔ ایک دن بولے: ہم سب ایک کارِ فضول میں مبتلا ہیں۔ وہ ایک افغان کمانڈر کا انٹرویو کرنے گئے۔ لوٹ کر آئے تو یقین سے سرشار۔ کہا: جو عالم ان لوگوں کا ہے، وہ ہارنے والوں کا نہیں ہوتا۔ باقی تاریخ ہے۔ 
سوویت یونین مٹ گیا۔ ایک سحر تھی کہ دوشنبہ میں دس لاکھ مسلمان جمع ہوئے۔ ستّر برس تک جن کی تین نسلیں جبر کے مہ و سال سے گزری تھیں، جو ارادے اور خیال کی قوت ہی برباد کر دیتا ہے۔ سحر سے شام تک اقبالؔ کا ترانہ وہ گاتے رہے۔ ع
از خوابِ گراں، خوابِ گراں، خوابِ گراں خیز
1989ء میں وادیٔ کشمیر میں یہی ہوا۔ ''دانا‘‘ اب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ بے نوا کشمیریوں کو آزادی کبھی نصیب نہ ہو گی۔ عالمی حالات ناسازگار، پاکستان کمزور اور بھارت طاقتور۔ واحد سپرپاور اس کی حلیف۔ تاریخ کا سبق مختلف ہے: جس خواب میں پوری قوم شریک ہو جائے، وہ متشکّل ہو کر رہتا ہے۔ عرب بہار کے عنوان سے مشرقِ وسطیٰ میں عوامی طوفان کی لہر اٹھی۔ اغوا کر لی گئی مگر تابہ کے؟ کرنل قذافی اور صدام حسین چلے گئے۔ بشارالاسد کو چلے جانا ہے۔ عرب بادشاہوں کو سرِتسلیم خم کرنا ہے۔ جنرل مشرف کی درخواست پر عبداللہ گل اسلام آباد تشریف لائے کہ اپوزیشن لیڈروں کو الیکشن 2008ء میں شرکت پر آمادہ کریں۔ عمران خان سے بات کرتے، جذباتی ہو گئے۔ کہا: وہ بھی کیا دن تھے کہ پارلیمان میں رحمتہ اللعالمینؐ کا حوالہ دیتے تو سرکاری ارکان تمسخر اڑاتے۔ دل خونم خون ہو جاتا۔ ہم ڈٹے رہے؛ حتیٰ کہ سب کچھ بدل گیا ؎ 
سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے 
حکمراں ہے اک وہی‘ باقی بتانِ آذری
بخدا میر شکیل الرحمن سے کوئی ذاتی عناد نہیں۔ 1981ء سے اب تک ایک تعلق چلا آتا ہے۔ زود رنج ہوں۔ چھ بار استعفیٰ دیا لیکن ہر بار مجھے بلایا۔ وہ شب یاد ہے کہ لفٹ تک چھوڑنے آئے۔ پھر اس میں سوار ہو گئے۔ التجا کی کہ واپس آ جائیے۔ وہ گلی تک گئے۔ پھر میرے ساتھ چلتے رہے۔ درخواست کی کہ کلب کلاس کی بجائے اکانومی کا ٹکٹ بھجوایا کیجیے۔ بولے: اندرونِ ملک پروازوں میں فرسٹ کلاس نہیں ہوتی، وگرنہ اسی کا اہتمام کرتا۔ شرم سے سر جھکا تھا، جب یہ کہا: اپنی قدر و قیمت تمہیں معلوم ہی نہیں۔ اگلے دن اصرار کرکے کھانے پر بلایا، گھر کا کھانا۔ اگلے برس ایک پنج ستارہ ہوٹل میں ظہرانے پر مدعو کیا۔ مؤدبانہ عرض کیا: پاکستانی میڈیا کا روّیہ ناقص و نازیبا ہے۔ کسی ملک میں یہ تماشا نہیں ہوتا کہ شام سے رات گئے تک مسلّح افواج کا مذاق اڑایا جائے۔ تنقید اگر لازم ہو تو پاکستانی عوام کے نقطۂ نظر سے ہو گی، بھارت یا امریکہ نہیں۔ ہمیں دنیا کو پاکستان کی آنکھ سے دیکھنا چاہیے، پاکستان کو مغرب اور بھارت کی نگاہ سے نہیں۔ اتفاق کیا اور پوچھا کہ کیا فلاں پیسے کھاتا ہے۔ عرض کیا: آپ بہتر جانتے ہیں۔ اسی فلاں کو اب ہیرو بنانے کی کوشش ہے۔ ہمارا مزاج ہے کہ جس سے عناد ہو، اسے قاتل نامزد کر دیا جاتا ہے؛ حتیٰ کہ اس کے عزیز و اقربا کو۔ پوری پاکستانی فوج کا برسوں وہ تمسخر اڑاتا رہا۔ عاقبت نااندیش آدمی کا تکیہ کلام یہ تھا "We Bloody Civilians"۔ کسی سے ذاتی جھگڑا ہوا ہوگا۔ شاید کسی نے زیادتی کی۔ اس کا اپنا حال مگر کیا تھا؟ الزام تو یہ بھی ہے کہ خالد خواجہ کے قتل میں اس کا ہاتھ تھا۔ اسامہ بن لادن کے بارے میں کیا اس نے جھوٹی گواہی نہ دی کہ وہ ایٹم بم رکھتا ہے؟ میری زبان اللہ بند کر دے، اگر میں جھوٹ گھڑوں۔ اپنے ایک دوست سے اس نے کہا: تمہارا ادارہ اچھا ہے۔ ہمارا ادارہ تو معلوم نہیں، کہاں کہاں سے روپیہ بٹورتا ہے۔ اس کا جسم ادھیڑ کر رکھ دیا گیا۔ اگر کسی کو ملال نہ ہو تو وہ پتھر دل ہے۔ اس کے بھائی نے مگر یہ اعلان کیسے کیا: ملک کا مفاد کوئی چیز نہیں ہوتا۔ اصل چیز سچائی ہے۔ سچائی یعنی چہ؟ آپ کا موقف؟ کیا یہ لازم ہے کہ درست ہو؟ دوسروں کا بھی ایک موقف ہے اور کیا یہ لازم ہے کہ غلط ہو؟ رہا ملک کا مفاد تو دولت اور شہرت کے لیے مرنے والوں کے سوا، سب کے لیے اتنا اہم ہوتا ہے کہ اس پر جان دی جا سکتی ہے۔ سیاچن سے وزیرستان تک، جوانیاں قربان ہوتی ہیں۔ مائیں ان پہ فخر کرتیں اور شاعر موتی رولتے ہیں۔ شہید سے بڑھ کر کون ہے؟ فرمایا: انہیں مردہ نہ کہو، وہ زندہ ہیں اور انہیں رزق دیا جاتا ہے۔
معافی نہیں توبہ۔ توبہ کا قرینہ یہ ہے کہ دل و جان سے غلطی مانی جائے۔ شرمندگی ہو اور واقعی ہو۔ پھر اپنے جرائم کی تفصیل بیان کی جائے۔ اللہ اور اس کی مخلوق سے التجا کی جائے۔ یہ کیسی معافی ہے، دھمکی جس میں پوشیدہ ہے۔ 
افواجِ پاکستان کی قیادت کون ہے کہ معاف کر دے۔ کرے تو غیر متعلق (Irrelevent) ہو جائے۔ اس کا نہیں، یہ قوم کا مقدمہ ہے۔ اس کا نہیں، یہ دفاعِ وطن کا مسئلہ ہے۔ پرویز رشید، مشاہداللہ اور عرفان صدیقی یہ بات سمجھ نہیں سکتے کہ جو طوفان جھوم کے اٹھے ہیں، تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے۔ یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ ہماری غیرت و حمیت، ہمارے مستقبل، ہماری آنے والی نسلوں اور اس ملک کا، جو لیلۃالقدر کے دن وجود میں آیا۔ ہماری جان اس پر فدا۔ ہماری اولاد اس پہ قربان۔ 
عمران خان کا جرم کیا ہے، جسے بلیک میل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ اس کے لیے گالی، ہم سب کو گالی ہے۔ دوسرے سب چینل؟ دوسرے سب اخبار؟ وہ سب جماعتیں، وہ سب تاجر، وہ لاکھوں شہری جوق در جوق جو سڑکوں پر نکلے۔ ملازمت پیشہ لوگوں نے، جنہیں آئی ایس آئی کا ایجنٹ کہا۔ بے مغز اور گدھے کہا۔ روزگار کا حق ہے اور انہیں بچا لینا چاہیے مگر آنے و الی نسلوں کا مستقبل؟ میرے محلے میں پولیس نے مشکوک چینل بحال کر دیا ہے مگر میں کیوں گوارا کروں؟ اپنے اعلان پر قائم ہوں، اسلام آباد سے کراچی تک لانگ مارچ کروں گا، خواہ تنہا کرنا پڑے۔ خدا کے بندو، تمہیں ادراک ہی نہیں کہ تم نے کیا کر ڈالا۔ ہمارے دنوں اور ہماری شبوں کا قرار جاتا رہا۔ ہماری روحیں زخمی ہیں۔ رہی پولیس برتنے کی بات تو تمام تر ریاستی قوت برت کر 1999ء میں وہ یہ ادارہ بند نہ کرا سکے تھے۔ کوشش کر دیکھیں، اب وہ اسے قابلِ قبول نہیں بنا سکتے۔
آندھی اور بارش، دریا کے طوفان اور سمندر کی شورش کون روک سکتا ہے؟ آوازِ خلق ہی نقارۂ خدا ہوتی ہے۔ سرکارؐ نے فرمایا تھا: لوگوں کے دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved