تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     30-05-2014

کب تک کنویں کے مینڈک بنے رہیں گے؟

امریکہ میں سب جاننا چاہتے ہیں کہ پاکستان کو کیا ہو گیا، یہ کس طرف چل پڑا ہے اور اس کا انجام کیا ہو گا؟ امریکہ سے گئے کارڈیالوجسٹ‘ ڈاکٹر مہدی کا اپنے بچوں اور بیوی کے سامنے قبرستان میں قتل سے یہاں سب کو صدمہ پہنچا ہے۔ لیوس ہسپتال میں ہارٹ سپیشلسٹ ڈاکٹر احتشام قریشی نے کہا: کیا پاکستان میں کسی کو معلوم ہے کہ ایک ڈاکٹر بنانے پر کتنی سرمایہ کاری، محنت، وقت اور خاندان کے وسائل خرچ ہوتے ہیں؟ اور پاکستان میں آئے روز ڈاکٹروںکو قتل کیا جا رہا ہے۔ 
دوسری عالمی جنگ، جس میں ایک کروڑ افراد مارے گئے، میڈیا نے کیسے شروع کرائی؟ روس کے ایک اخبار میں چھپنے والے ایک مضمون سے جو آگ پھیلی اس نے پورے یورپ کو جلا کر راکھ کر دیا۔ مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز پر وزیر اعظم نواز شریف کے دورہ بھارت پر کچھ تبصرے سنے تو ذہن یورپ کی طرف لوٹ گیا۔ کیا پاکستان اور بھارت کا میڈیا بھی یہی چاہتا ہے؟
جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھارت اور پاکستان کے میڈیا کے درمیان میل ملاپ شروع ہوا، انہوں نے بھارتی صحافیوں کو ویزے جاری کرنے کا حکم دیا؛ چنانچہ وہ کافی بڑی تعداد میں پاکستان آنے لگے۔ پاکستان سے بھی صحافیوں کے گروپ بھارت جانا شروع ہو گئے۔ ان مواقع پر پاکستانی صحافیوں کی بھارتی صحافیوں کے ساتھ گپ شپ ہوتی۔ پاکستان آنے سے بھارتی صحافیوں کے ہمارے بارے میں خیالات میں کافی تبدیلی نظر آنے لگی۔ انہیں جو کچھ نئی دہلی میں ہمارے بارے میں بتایا جاتا تھا‘ یہاں اس سے مختلف صورت حال نظر آتی تھی۔ دھیرے دھیرے ان کے رویوں اور باتوں میں تبدیلی آنا شروع ہو گئی۔ وہ اپنی بات سناتے اور ہماری سنتے۔ یوں ایک اہم ڈائیلاگ کا آغاز ہو گیا۔ پاکستان اور بھارت کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانے سے پہلے یہ بہت ضروری تھا اور یوں لگتا تھا کہ ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کرنے میں مدد ملے گی۔
ان تعلقات کو اس وقت دھچکا لگا جب ممبئی میں دھماکے ہوئے۔ بھارت نے دوستی کا نام لینا بند کر دیا۔ میں دسمبر 2004 ء اور پھر جنوری 2013ء میں پاکستانی صحافیوں کے گروپ کے ساتھ بھارت گیا تھا۔ مجھے پہلے اور دوسرے دورے میں زمین آسمان کا فرق محسوس ہوا۔ گزشتہ برس کے دورے کے بعد اندرا گاندھی ایئرپورٹ سے واپس آتے ہوئے میں نے سوچا کہ اب اس ملک میں آنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ وہ عزت نہیں رہی جو پہلے ہمیں ملتی تھی۔ میں نے نئی دہلی میں اس وقت پاکستانی ہائی کمشنر سلمان بشیر سے کہا کہ اب بھارتیوںکو ہماری پروا نہیں رہی تو انہوں نے تسلیم کیا کہ ہاں، اب وہ بات نہیں رہی۔ مجھے محسوس ہوا کہ بھارتی کارگل کو تو بھول گئے لیکن ممبئی دھماکوں کے بعد وہ سمجھنے لگے کہ پاکستان سے دوستی اور تعلقات کا کوئی فائدہ نہیں۔
بی جے پی کے جیتنے کے بعد ہمیں یہ پیغام واضح طور پر سمجھ لینا چاہیے کہ بھارت اور بھارتی اب پاکستان کو مخلتف آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ وہ ہم سے صرف اس حد تک تعلقات رکھنا چاہتے ہیں کہ ہم ان کے ہاں پھر کوئی ایسی حرکت نہ کریں‘ جس سے ان کی معاشی ترقی میں رکاوٹ پڑنے کا خدشہ ہو۔ یہ اب واجپائی کا بھارت نہیں کہ وہ دوستی بس پکڑ کر مینار پاکستان پہنچ جائیں گے اور پاکستانیوں سے کہیں گے کہ ہم اکھنڈ بھارت نہیں بنانا چاہتے بلکہ پاکستان کو دل سے تسلیم کرتے ہیں۔ ہم نے اس وقت واجپائی کے ان لفظوں کو ایک روایتی ہندو کا ڈرامہ قرار دے کر مسترد کر دیا تھا، سمجھدار ہوتے تو اسی دن نئی شروعات کر دیتے۔ اور پھر جو کچھ ہم نے کارگل میںکیا‘ وہ ایک تاریخ ہے۔ 
جب دونوں ملکوں میں بات ہونے لگتی ہے تو ہم واپس ماضی میں جا پھنستے ہیں۔ دونوں کے پاس ایک دوسرے کے خلاف بہت ثبوت ہیں، دونوں کو معلوم ہے کہ ان کے ملکوں میں بے گناہ شہری مر رہے ہیں۔ پراکسی جنگوں میں ہمشیہ بے گناہ لوگ ہی نشانہ بنتے ہیں۔ اتنے لوگ بھارت اور پاکستان کی جنگوں میں نہیں مارے گئے جتنے ان کی پراکسی وارز میں اب تک مارے جا چکے ہیں۔ ہم مسئلہ کشمیر طے کئے بغیر بھارت کے ساتھ آگے بڑھنے کو تیار نہیں، ہم یہ نہیں سمجھ پا رہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان ہزاروں مسائل ہیں پھر بھی وہ ہر سال اربوں ڈالر کی تجارت کرتے ہیں۔ امریکی دکانیں چینی مال سے بھری پڑی ہیں۔ چین اور بھارت کے مابین تجارت کا حجم حیران کن ہے؛ حالانکہ ان کے بھی ایک دوسرے سے سرحدی تنازعے چل رہے ہیں، دونوں کی آپس میں باقاعدہ جنگ بھی ہو چکی ہے۔ اس پس منظر کے باوجود ان کے سربراہان ایک دوسرے کے ملک کا دورہ کرتے ہیں۔ میاں نواز شریف گزشتہ برس جس دن چین کے دورے سے لوٹ رہے تھے اسی دن بھارتی وزیر دفاع وہاں معاہدوں پر دستخط کرنے کے لیے پہنچ رہے تھے۔ بھارت اور چین کے میڈیا یا اپوزیشن لیڈروں نے انہیں یہ طعنے نہیں دیے کہ تم کیسے مرد ہو، جنگ لڑنے کے باوجود دفاعی معاہدے کر رہے ہو!
آخر ہم ہر بار کیوں پہلے جذباتی اور پھر خوفزدہ ہو جاتے ہیں؟ ہمیں ڈر ہے، بھارت ہماری منڈیوں پر قبضہ کر لے گا۔ اگر آپ لندن اور واشنگٹن کی مارکیٹوں کو دیکھیں تو پتا چلے گا کہ ان پر چین نے قبضہ کر رکھا ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور یورپ چین سے مال کیوں منگواتے ہیں؟ وہ پاکستان کی طرح کیوں نہیں سوچتے؟ اس سوال کا جواب بہت آسان ہے۔ یہ ممالک جانتے ہیں کہ وہ دور گزر گیا‘ جب آپ اپنی ناکارہ صنعت کو اس لیے تحفظ فراہم کرتے تھے کہ اس سے لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔ اب ان کا کہنا یہ ہے کہ اگر آپ کی انڈسٹری سستا اور معیاری مال نہیں بنا سکتی تو اس کی سزا آپ کروڑوں صارفین کو نہ دیں۔ امریکی اور یورپی ورکر بھی مہنگا ہو گیا ہے، اس لئے انہوں نے چین سے سستا مال منگوانا شروع کر دیا ہے۔ 
ہم پاکستانی ایک تاریخی اصول سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔۔۔۔ آپ کنویں کے مینڈک کی طرح زندگی نہیں گزار سکتے۔ آپ پاکستانی فلموں کی مثال دیکھ لیں۔ ہم نے پاکستانی فلمی صنعت کا بیڑا اس لیے غرق کر دیا کہ 1965ء کی جنگ کے بعد ہم نے بھارت سے فلموں کی درآمد پر پابندی لگا دی۔ انجام کیا ہوا؟ پاکستانی فلمی صنعت ڈوب گئی۔ مقابلے کی فضا نہ ہونے کی وجہ سے پاکستانی فلم ساز اور ڈائریکٹر پر کوئی دبائو نہ رہا جس کے بعد انہوں نے ایسی تباہ کن فلمیں بنائیں کہ اللہ کی پناہ! اپنے سینما میں اچھی فلمیں چلنا بند ہوئیں تو لوگوں نے وی سی آر پر بھارتی فلمیں دیکھنا شروع کر دیں۔ آج وہی نااہل فلم سازیہ کہتے ہیں کہ بھارتی فلمیں پاکستان نہ آنے دو، پاکستانی فلم انڈسٹری دوبارہ پائوں پر کھڑی ہو جائے گی۔ بھلا یہ کیسے ہو گا؟ ان سے کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ 1965ء کے بعد طویل عرصہ بھارتی فلم پاکستان میں نمائش کے لیے پیش نہیں ہوئی تو کیا آپ نے ہالی ووڈ کو فتح کر لیا؟ 
اگر اب بھی چند پاکستانی فلموں نے عالمی سطح پر کچھ عزت کمائی ہے تو اس کی وجہ بھارتی فلموں کی پاکستانی سینما گھروں میں نمائش ہے، اس سے پاکستانی فلم میکرز پر دبائو بڑھا کہ وہ بھی اپنی پروڈکشن کا معیار نئی ٹیکنالوجی اور جدید تقاضوں کی سطح پر لائیں۔ یوں ہم نے چند اچھی فلمیں دیکھیں جو بھارت اور دوسرے ملکوں میں بھی نہ صرف دیکھی گئیں بلکہ انہیں ایوارڈ بھی ملے۔ اس سے یہ ظاہر ہوا کہ اگر پاکستانی فلم ساز مقابلے کی فضا میں کام کریں تو وہ بہتر فلمیں بنا سکتے ہیں۔ 
اسی طرح اگر پاکستانی انڈسٹری کو بہتر اور لوگوںکی زندگیوںکو آسان کرنا مقصود ہو تو پھر بھارت سے تجارت کرنا ہو گی۔ ہو سکتا ہے، شروع میں ہماری انڈسٹری کو نقصان پہنچے لیکن اس سے مقابلے کا رجحان پیدا ہو گا اور ہماری انڈسٹری مضبوط ہو جائے گی۔ 
جب ہماری انڈسٹری میں جان آئے گی تو اس کے سامنے بھارت کی سوا ارب آبادی کی مارکیٹ ہو گی۔ اسے اس مارکیٹ میں داخل ہونے سے کون روکے گا؟ پاکستانی سیمنٹ اور چینی پہلے ہی بھارت میں مقبول ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پانچ ارب روپے کا سیمنٹ بھارت کو فروخت کیا گیا ہے۔ 
جس دن ہم یہ راز پا لیں گے کہ انسان مقابلے کی فضا میں ہی اپنے فن، کردار اور ٹیلنٹ کو نکھارتا ہے تو اس دن سے ہم بھارت سے خوفزدہ ہونا چھوڑ کر اس کا مقابلہ کرنے کے لئے کمر کس لیں گے۔ ہم کب تک کنویں کے مینڈک بنے رہیں گے اور بھارت سے اس لیے تجارت نہیں کریں گے کہ وہ ہماری منڈیوں پر قبضہ کر لے گا؟ اگر وہ ہماری بیس کروڑ کی منڈی پر قبضہ کرے گا تو ہم میں اتنی جان ہے کہ اس کی سوا ارب کی منڈی پر قبضہ کر لیں‘ جیسے چین نے امریکہ، برطانیہ اور یورپ کی منڈیوں پر قبضہ کیا ہے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved