تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     30-05-2014

یہ تو صرف ایک کہانی ہے

دیگر بے شمار منفی عوامل کے باوجود یہ بات بہرحال خوش آئند ہے کہ ملک میں ہائیڈل پاور جنریشن کے کئی منصوبے تکمیل کے قریب ہیں اور کئی شروع ہونے جا رہے ہیں۔ ہائیڈل پاور دنیا میں سب سے سستی بجلی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ پاکستان میں بجلی کی بڑھتی ہوئی طلب اور رسد میں اسی تناسب سے اضافہ نہ ہونے کے باعث جو فرق پیدا ہوا اسے ہائیڈل یعنی پن بجلی کے منصوبوں کے ذریعے پورا کرنے کے بجائے جلد پیداواری صلاحیت کے حامل تھرمل بجلی گھر لگائے گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مہنگی پیدا شدہ بجلی کی کم قیمت پر فروخت نے ملکی معیشت کو سرکلر ڈیٹ کا تحفہ دیا۔ اس تحفے نے جہاں ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کیا‘ وہاں اس کی ادائیگی میں تاخیر سے تھرمل بجلی گھر‘ جو زیادہ تر پرائیویٹ سیکٹرمیں ہیں‘ نے بجلی کی پیداوار کم کر دی، اس لئے کہ ان کے پاس پوری استعداد کے ساتھ یہ بجلی گھر چلانے کے لیے پیسہ نہیں تھا‘ لہٰذا ضرورت کے مطابق خریداری ممکن نہ رہی۔ منطقی نتیجے کے طور پر پیداوار میں کمی ہوئی‘ جس نے پوری ملکی صنعت کا بیڑہ غرق کر دیا۔ 
توقع ہے کہ اگلے ماہ داسو پاور پروجیکٹ پر کام شروع ہو جائے گا۔ اس پروجیکٹ کی پیداواری صلاحیت 4320 میگاواٹ ہے۔ ایک اخبارکے مطابق یہ استعداد 2160 میگاواٹ ہے‘ جو غلط ہے۔ چند روز قبل وزیر اعظم نے اس منصوبے کا اعلان کیا جس کے مطابق اس ڈیم کی تعمیر جون 2014ء میں شروع ہو گی اور یہ 2019ء یعنی پانچ سال میں مکمل ہو جائے گا۔ اپنی ابتدائی رپورٹ میں واپڈا نے اس ڈیم کی تکمیل کا عرصہ آٹھ سال بتایا ہے۔ ہمارے ہاں تکمیل کا عرصہ بڑی متنازع چیز ہے۔ ابتدائی جائزہ رپورٹ اور بعد ازاں تفصیلی رپورٹ میں جو وقت دیا جاتا ہے حکومت اس سے کہیں کم وقت میں منصوبہ مکمل کرنے کا اعلان کرتی ہے۔ اول تو منصوبہ دیے گئے ٹائم فریم کے مطابق شروع ہی نہیں ہوتا، مزید یہ کہ تکمیل کی مقررہ مدت سے کہیں زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔ اسی طرح جو منصوبہ بائیس ارب روپے سے مکمل ہونا ہوتا ہے وہ ساڑھے ستاون ارب روپے میں پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے۔ یہ مستند اعدادوشمار نندی پور پاور پروجیکٹ کے ہیں۔ 
داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کی تخمینہ جاتی تحقیقی رپورٹ (Feasibility Report) 28 فروری 2009ء میں مکمل ہو گئی تھی۔ دریائے سندھ کے بہائو پر بننے والا یعنی یہ Run of River ہائیڈرو پاور پروجیکٹ داسو نامی گائوں سے سات کلومیٹر اوپر اور دیامیر بھاشا ڈیم سے انہترکلومیٹر نیچے واقع ہے۔ اس منصوبہ کی لاگت کا تخمینہ سات اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر یعنی موجودہ حساب سے تقریباً سات سو اسی ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔ یہ منصوبہ فزیبلٹی رپورٹ مکمل ہونے کے سوا پانچ سال بعد شروع ہو رہا ہے۔ یہ وقت کس نے اور کیسے ضائع کیا؟ اس پر بحث سے مزید وقت ضائع کرنے کے سوا کچھ حاصل نہ ہو گا۔ خدا کرے کہ یہ منصوبہ وقت پر شروع ہو اور حسب وعدہ جون 2019ء میں مکمل ہو جائے تو غنیمت ہے۔ نندی پور منصوبے میں یہی ہوا تھا۔ جنوری 2008ء میں چار سو پچیس میگاواٹ کی پیداواری استعداد کا یہ منصوبہ مئی 2014ء میں یعنی تقریباً سوا چھ سال میں مکمل ہوا ہے حالانکہ یہ منصوبہ اپریل 2011ء میں مکمل ہونا تھا۔ تاخیرکے باعث پیداواری نقصان کو ایک طرف رکھیں صرف لاگت میں پاکستانی روپوں میں پینتیس ارب روپے کا نقصان ہوا یعنی اپنی اصل ابتدائی لاگت سے تقریباً اڑھائی گنا لاگت میں مکمل ہوا۔ یہ ایک علیحدہ کہانی ہے جس پر انشاء اللہ جلد علیحدہ کالم لکھوں گا‘ آج نیلم جہلم ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ پرکچھ بات ہو جائے۔ 
پچھلے کئی سال سے قوم بجلی کے بل میں این جے سرچارج کی مد میں ہر ماہ کچھ نہ کچھ رقم ادا کر رہی ہے۔ ہر ماہ آنے والے بجلی کے بل میں این جے سرچارج کا باقاعدہ ایک خانہ موجود ہے اور ہر صارف یہ ادا کر رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں پن بجلی کے اس حکومتی منصوبے کی پوری لاگت پاکستان میں بجلی کے صارفین ادا کر رہے ہیں۔۔۔۔یعنی میں اور آپ! 
اس منصوبے کے تحت آزاد کشمیر میں سے گزرنے والے دریائے نیلم کے پانی کو ایک سرنگ کے ذریعے‘ جس کی کل لمبائی تقریباً ساڑھے اٹھائیس کلومیٹر ہے، دریائے جہلم میں ڈالا جائے گا۔ دریائے نیلم اور جہلم مظفر آباد شہر میں دومیل کے مقام پر آپس میں مل جاتے ہیں مگر اس سرنگ کی تعمیر کے بعد دریائے نیلم کا پانی مظفرآباد سے تقریباً بائیس کلومیٹر جنوب میں چھترکلاس کے مقام پر دریائے جہلم سے ملے گا۔ دیگر بے شمار تفصیلات ہیں کہ سرنگیں ایک بار دریائے جہلم سے تقریباً دو سو میٹر نیچے گڑھی ڈوپٹہ کے نزدیک سے گزریں گی، ایک سرنگ کی لمبائی کتنی ہو گی‘ کتنی لمبائی کی دو سرنگیں ہوں گی۔ ان سرنگوں کا پانی پھر ایک سرنگ میں آئے گا اور کتنی بلندی سے دریائے جہلم میں گرے گا۔ سرنگیں کھودنے والی جرمن مشین کی لاگت کیا ہے۔ یہ سب تفصیلات میرے سامنے ہیں مگر ان تفصیلات میں جانا کارِ زیاں ہے۔ المختصر، نو سو اڑسٹھ میگاواٹ کی پیداواری صلاحیت کا یہ پن بجلی منصوبہ 1983ء میں یعنی آج سے اکتیس سال پہلے شروع ہوا اور ابھی تک پایہ تکمیل کو نہیں پہنچا۔ دیگر تفصیلات بڑی ہوشربا ہیں۔ 
اس منصوبے کی 1983ء میں فزیبلٹی مکمل ہوئی اور 1989ء میں اس منصوبے کا اصل پی سی ون مکمل ہوا تو لاگت کا تخمینہ پندرہ ارب روپے تھا۔ منصوبے کی تکمیل کا اندازہ جنوری 1989ء سے جون 1997ء یعنی تقریباً ساڑھے آٹھ سال تھا لیکن اگلے پندرہ سال تک یہ شروع ہی نہ ہو سکا۔ 2002ء میں اس منصوبے کا نظرثانی شدہ پی سی ون بنایا گیا اور منصوبے کی لاگت پندرہ ارب سے بڑھ کر ساڑھے چوراسی ارب روپے ہو گئی؛ تاہم اس دوران منصوبے کی پیداواری صلاحیت پانچ سو میگاواٹ سے بڑھا کر نوسو اڑسٹھ میگاواٹ کر دی گئی۔ لیکن اگلے چھ سال پھر اس منصوبے پر کام شروع نہ ہوا۔ اس منصوبے پر بالآخر 2008ء میں کام شروع ہوا۔ گمان غالب ہے کہ یہ منصوبہ 2015ء میں مکمل ہو جائے گا‘ لیکن اصل بات ابھی بتانی باقی ہے، وہ یہ کہ پہلے نظرثانی شدہ
پی سی ون میں اس منصوبے کی لاگت پندرہ ارب روپے سے بڑھ کر ساڑھے چوراسی ارب روپے ہو گئی اور دوسرے نظرثانی شدہ پی سی ون میں یہ لاگت مزید بڑھ کر دو سو چوہتر اعشاریہ اٹھاسی ارب روپے ہو گئی ہے۔ پندرہ ارب کے تخمینے سے شروع ہونے والا منصوبہ جسے 1997ء میں مکمل ہونا تھا 2015ء میں یعنی اپنے مقررہ وقت سے سترہ سال تاخیر سے مکمل ہو گا اور اس کی لاگت پندرہ ارب روپے سے بڑھ کر دو سو پچھتر ارب کے لگ بھگ ہو چکی ہے۔ اس دوران سالانہ پانچ ارب پندرہ کروڑکلوواٹ گھنٹہ کے حساب سے سالانہ پیداوار بحساب چھ روپے اکانوے پیسے فی یونٹ (پیداواری لاگت) پینتیس ارب اٹھانوے کروڑ روپے اور اوسطاً قیمت فروخت دس روپے فی یونٹ اکاون ارب پچاس کروڑ کے حساب سے فی سال صرف نفع سولہ ارب روپے سے زیادہ بنتا تھا۔ سترہ سال کا کل پیداواری نقصان آٹھ سو پچھتر ارب پچاس کروڑ بنتا ہے۔ ساڑھے ستاسی ارب یونٹ اور اس سے وابستہ ملکی پیداوار کا نقصان اس کے علاوہ ہے۔
نیلم جہلم پروجیکٹ کے حوالے سے ٹھیکے میں گھپلے‘ پیداواری لاگت میں ڈنڈی مار پروگرام اور کمیشن کی کہانیاں اس کے علاوہ ہیں۔ سب کہانیوں پر لعنت، مجھے کوئی صرف یہ بتا دے کہ اس سارے نقصان کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا ہم کبھی قومی نقصان کو اپنا ذاتی نقصان سمجھیں گے؟ اور کیا ہم نے ان ساری باتوں سے کبھی کوئی سبق بھی سیکھنا ہے یا ہر بار اسی تجربے کو دہرانا ہے۔ ابھی پن بجلی کے درجن بھر سے زائد منصوبے کاغذوں میں موجود ہیں جن کی ابتدائی فزیبلٹی رپورٹس مکمل ہو چکی ہے مگر عرصہ دراز سے وہ درازوں میں پڑی گل سڑ رہی ہیں۔ کوئی ہے جو ان کو دیمک کا رزق ہونے سے بچائے؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved