لاہور سے تین ہی معیاری پنجابی رسالے شائع ہوتے ہیں‘ یعنی ''پنچم‘‘، ''پنجابی ادب‘‘ اور ''ترنجن‘‘ جن کے تازہ شمارے منظر عام پر آئے ہیں۔ ''ترنجن‘‘ سرکاری رسالہ ہے جسے حکومت پنجاب ڈاکٹر صغریٰ صدف کی ادارت میں نکالتی ہے جبکہ ''پنجابی ادب‘‘ پروین ملک اور ''پنچم‘‘ کی ادارت مقصود ثاقب کے ذمے ہے۔ موصوف کچھ عرصہ صاحبِ فراش رہنے کے بعد اب صحت مند ہوئے ہیں تو ایک ساتھ دو پرچے چھاپ دیے ہیں۔ سچیت کتاب گھر لاہور کے نام سے ان کا ادارہ پنجابی زبان میں کتابیں بھی شائع کرتا ہے۔ موجودہ پرچے فروری‘ مارچ اور اپریل‘ مئی 2014ء کو محیط ہیں۔
پہلے پرچے کے حصہ شاعری میں نجم حسین سید‘ افضل احسن رندھاوا اور سلیم شہزاد جیسے قابلِ ذکر نام شامل ہیں جبکہ کہانیاں اور مضامین اس کے علاوہ ہیں۔ مضامین میں ''پریم سگندھی‘‘ کے عنوان سے صفدر ڈوگر کا میرا بائی پر مضمون ایک تحفے کی حیثیت رکھتا ہے۔ تاریخ میں یونانی شاعرہ سیفو اور بھارتی شاعرہ میرا بائی مسلمہ طور پر دو نامور ہستیاں ہیں‘ جو اپنی اپنی جگہ پر شہرت حاصل کر کے شاعری کی دنیا میں اپنا مقام اور امتیاز قائم رکھے ہوئے ہیں۔ میرا بائی کا دور 1448ء سے 1563ء یا 1565ء تک کا ہے جس نے راجپوتانہ کی ریاست میٹرا کے راجوں کے ہاں جنم لیا۔ راج محل میں پلنے پوسنے کے باوجود اس نے عوام کی اپنی زبان میں شاعری کی اور نچلی ذات کے لوگوں کے ساتھ ہی اپنا میل ملاپ رکھا۔ اس کی کچھ نظموں کو غالباً مصنف نے ہی اس طرح پنجابی زبان میں اتارا ہے جو حاضر ہیں:
(1)
بدل ویکھ ڈری ہو شیام میں بدل ویکھ ڈری
کالی پیلی گھٹ چڑھی تے ورھ گئی اک وری
جدھر جاواں پانی پانی ہو گئی بھوم ہری
پیا میرا پردیس چ وسّے بھجاں باہر کھڑی
میرا پربھو ہری ابناسی کریو پریت کھری
(2)
مائے میں تاں لیا رمیّا مول
کوئی کہے چور کوئی کہے سادھی
لیا وجا کے ڈھول
کوئی کہے کالا کوئی کہے گورا
لیا میں اکھیاں کھول
کوئی کہے ہولا کوئی کہے بھارا
لیا ترازو تول
تن دا گہنا میں سبھ دتا
بازو بند وی دتا کھول
میراؔ دے پربھو گِر دھرنا گر
پچھلے جنم دا کیتا قول
(3)
کوئی کہو نی پربھو آون دی
آون دی من بھاون دی
آپ نہ آون لکھ نہ بھیجن
ہلتر پئی للچاون دی
ایہہ دو نین نہ آکھا منن
ندی ویہے جیویں ساون دی
کیہ کراں کجھ وس نہیں میرے
سکت نہیں اُڈ جاون دی
میراؔ کہے پربھو کدوں ملو گے
چیلی آں تیرے دامن دی
(4 )
تُساں دے لئی میں سب سکھ چھڈیا
ہن کیوں پئے ترسائو ہو
اگ برہ دی دل وچ لگی
کیوں نہیں آن بجھائو ہو
چھڈیاں نہیں ہن بندی تینوں
اس کے تُرت بلائو ہو
میراؔ داسی جنم جنم دی
انگ نال انگ ملائو ہو
اگلا پرچہ بھی اپنے مندرجات کے حوالے سے وقیع ہے۔ اس میں سے آپ کے تفننِ طبع کے لیے نجم حسین سید کی ''مکھ بول‘‘ کے عنوان سے یہ نظم اپنا جواب نہیں رکھتی:
عشق وی دھواں مُشک وی دھواں
گِلا خشک وی دھواں
دھواں ظاہر دھواں باطن دھواں اللہ راسی سر جی جان دیو
دفتر دھواں منبر دھواں صبر قبر پڑ دھواں
نک دی سیدھے ٹردے جائو ہو جاسو دو پاسی
سر جی جان دیو
دھواں مستی دھواں ہستی اوہا ازادی پھستی
نُون غنہ مفرور اے اجکل کھگھ مرو یا کھاسی
سر جی جان دیو
آپو اپنا پانائے کھانائے فرق مزار پوانائے
دھوں اساڈا ماما ہویا موت نوں کہیے ماسی
سر جی جان دیو
ہر پرچے کی قیمت 50روپے رکھی گئی ہے۔
آج کا مطلع
چھتی بھمبھی ٹالی ہیٹھ کھلوتا دھولیا توں
میں تے میں گلاّں کردے ساں وچوں بولیا توں