تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     31-05-2014

سٹیٹس سمبل

بی بی سی ریڈیو 4 پر ایک ڈرامہ سنتے ہوئے، جبکہ میرا دھیان کسی اور طرف بھی بٹا ہوا تھا، ادا کیے گئے ایک جملے نے مجھے متوجہ کر لیا۔۔۔ ''انڈیا میں سٹیٹس کا تعین کار یا آپ کے گھر کی وسعت سے نہیں بلکہ بڑے سے بڑا جرم کرنے اور سزا سے بچ نکلنے سے ناپا جاتا ہے‘‘۔ مجھے اس جملے نے اس لیے بھی متوجہ کر لیا تھا کہ سرحد کے اس پار، پاکستان میں بھی یہ بات ٹھیک تھی کیونکہ منشیات کے سمگلر، بدعنوانی سے مال بنانے والے سرکاری ملازمین اور سیکس بزنس کرنے والے دلال مہنگی گاڑیاں اور بڑے بڑے گھر تو رکھ سکتے ہیں لیکن جرم کر کے بچنے کے لیے کسی اور صفت کی ضرورت ہے۔ سٹیٹس یہ ہے کہ فرض کریں، آپ کا بیٹا گواہوں کے سامنے کسی کو قتل کر دے اور اس کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا ہو لیکن پھر بھی آپ اُسے دبئی بھجوا دیں۔ 
پاکستان کے دولت مند اور بااثر افراد کو قانون سے اس طرح کا تحفظ حاصل ہے جس کا دیگر ممالک کے صرف آمر حکمران ہی تصور کر سکتے ہیں۔ معمولی جرائم، جیسا کہ ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی کرنا (اگرچہ مہذب ممالک میں یہ سنگین جرائم کے زمرے میں آتا ہے) تو کسی شمار قطار میں نہیں آتا کیونکہ اس کا ارتکاب تو عام شہری بھی بہت ڈھٹائی سے کر گزرتے ہیں جبکہ ٹریفک وارڈن سیٹی بجا کر کسی کو روکنے کی جسارت بھی نہیں کرتا۔ فری فال کے اس معاشرے میں ٹیکس چوری سے لے کر بجلی چوری تک میں بہت سی ''مراعات‘‘ کی سیل لگی رہتی ہے بشرطیکہ آپ ادائیگی کر سکتے ہوں؛ تاہم جو افراد اعلیٰ سٹیٹس رکھتے ہیں، اُنہیں سرکاری اہل کاروںکو ادائیگی نہیںکرنا پڑتی۔۔۔ ورنہ سٹیٹس کس چڑیا کا نام ہے؟ یہ وہ افراد ہیں جو ایئرپورٹس پر وی آئی پی لائونج استعمال کرتے ہیں اور ان کا بکھیرا ہوا گند صاف کرنے کے لیے ان کے ملازمین موجود ہوتے ہیں۔ 
پاکستان میں سٹیٹس کی ایک اور علامت یہ ہے کہ آپ کے گرد کتنے پولیس گارڈ گھیرا ڈالے رہتے ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کراچی جیسے شہر میں، جہاں پرائیویٹ گارڈز کی تعداد پولیس کی تعداد سے دگنی ہے، آپ کو اپنا سٹیٹس ظاہر کرنے کے لیے پولیس گارڈ کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ پتہ چلے کہ جب آپ محو سفر ہیں تو پولیس موبائل راستے سے ٹریفک ہٹا رہی ہے۔ اگر آپ کے روابط اعلیٰ افراد کے ساتھ ہیں تو آپ کا بیٹا ٹریفک حادثے میںکسی بھی عمدہ اور ذہین شہری، جیسا کہ مصطفی نورانی، کو ہلاک کر سکتا ہے۔ پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں، چند ایک فون کالز اور صاحبزادے جیل سے باہر۔۔۔ آخر اولاد کی محبت بھی تو کوئی چیز ہے، لوگوں کا کیا ہے، حادثات میں ہلاک ہونا ان کی تو عادت بن چکا ہے۔ پتہ نہیں ایسے لوگ تاک کر تیز 
رفتار کار کے سامنے کیوں آ جاتے ہیں؟ پاکستان میں قتل کی سزا سے بچ جانا دوسرا آسان ترین کام ہے۔۔۔ پہلا آسان ترین قتل کرنا ہے۔ اس ضمن میں سہولت یہ ہے کہ اس کے لیے بہت بااثر ہونے کی ضرورت نہیں، عام شہری بھی ایسا کر سکتے ہیں۔ 
اگلے دن لاہور ہائی کورٹ میں ایک حاملہ عورت کو اس کے اہل خانہ نے سر عام، پولیس والوں کی موجودگی میں اینٹیں مار مار کر ہلاک کر دیا کیونکہ اس نے انتہائی سنگین گناہ، پسند کی شادی، کا ارتکاب کیا تھا۔ اس بدقسمت عورت کے باپ نے فوراً ہی جرم کا اعتراف کر لیا اور امید کی جانی چاہیے کہ وہ جلد ہی رہا ہو جائے گا کیونکہ اس پاک سرزمین کو عزت کے نام پر ناہنجار لڑکیوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والوں کو سزا دینے کی روایت موجود نہیں۔ ان معاملات میں ہم عفو و درگزر سے کام لینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ہر سال ہزاروں لڑکیوں کو عزت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔ اسی فعل نے عالمی برادری میں ہمارے ملک کی ''توقیر‘‘ بلند کر رکھی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے واقعے نے تو اسے ہمالیہ آسا کر دیا۔ 
حال ہی میں ایک احمدی ڈاکٹر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایسے معاملات میں ہم صبر کا دامن تھامے کاہلوںکی طرح ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کے قائل نہیں۔ ایسی ہلاکتوں میں ایک ''پلس پوائنٹ‘‘ یہ ہوتا ہے کہ پولیس محض دوسرے درجے کے شہریوں کے لیے طاقتور افراد کی مخالفت مول لینے کی روادار نہیں ہوتی۔ طاقتور افراد کی طاقت کا اندازہ لگانا ہو تو 2007 میں اسلام آباد میں سرگرم اس مسلح اور ڈنڈا بردار دستوں کو ذہن میں لائیے‘ جنہوں نے کئی ماہ تک ملکی دارالحکومت میں قانون کو اپنے ہاتھ میں لیے رکھا اور جن کی سرگرمیوں کی وجہ سے حکومت کو مجبور ہو کر مداخلت کرنا پڑی۔ آپریشن والی جگہ سے برقع پہن کر فرار ہونے والے مولانا صاحب بھی یاد کیجیے جو اس کوشش میں گرفتار کر لیے گئے تھے؛ تاہم جلد ہی وہ مظلوم ہونے کا درجہ پا گئے اور انہیں بری کر دیا گیا۔ اب خود کش حملہ آوروں سے پاکستانیوں کو ڈرایا جا رہا ہے۔
اگر آپ مذہب کے نام پر کسی کو قتل کرتے ہیں تو کوئی آپ کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا۔ ذرا دیکھیں کس طرح جہادی قبیلے نے پچاس ہزار پاکستانیوںکے خون سے ہاتھ رنگے، لیکن سزا دینا تو درکنار، ان میں شاید ہی کسی کو گرفتار کیا گیا۔ جن کو گرفتار کیا گیا تھا، ان کو بھی ان کے ساتھیوں نے جیل توڑ کر رہا کرا لیا۔ دنیا میں کہیں بھی کسی مسجد کو نقصان پہنچ جائے تو مسلمان مشتعل ہو جاتے ہیں لیکن انتہا پسندوں نے درجنوں مساجد اور ہزاروں نمازیوںکو شہید کر دیا اور ان کی طرف سے بعض حلقوں کا دل بھی میلا نہ ہوا۔ اسی دوران ہندوئوں کے مندروں، سکھوں کے گردواروں اور عیسائیوں کے گرجا گھروں کی بے حرمتی کرنے یا انہیں تباہ یا نذرِ آتش کرنے میں کوئی خفت محسوس نہ کی گئی۔ 
شرفا، جن میں دولت مند اور طاقت ور سیاست دان بھی شامل ہیں اور مذہب کے ٹھیکیدار بھی، ایسے جرائم کا ارتکاب کیوں کرتے ہیں؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ انہیں سزا کا کوئی خوف نہیں۔ دنیا کے ہمارے حصہ میں طاقتور ہونے کا مطلب قانون سے بالاتر ہونا ہے۔ اس ضمن میں جاگیردار طبقہ ہمارے لیے ''مشعل راہ‘‘ ہے۔ 
درحقیقت ہماری ذہنیت قدیم دور کے اخلاقی سبق۔۔۔ ''مالک کو سب اختیار ہوتا ہے‘‘۔۔۔ سے باہر نہیں آ پائی۔ بہرحال ہمارے ملک میں عام شہری کو بھی اختیارات حاصل ہیں۔ ان تمام غیر انسانی افعال کو ہم نے روایات اور غیرت کا درجہ دے رکھا ہے۔ یہی ہمارے سٹیٹس کی علامت ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved