تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     31-05-2014

جُنید کی واپسی

جانوُ جنید کو بالآخر امریکہ سے نکال دیا گیا ۔ اب وہ ڈھاکہ میں ہے ' بنگالی زبان سیکھ رہا ہے ' اپنے بھولے بسرے رشتہ داروں کے ساتھ سر چھپا رہا ہے اور روزگار کی تلاش میں ہے جب کہ اس کی گوری بیوی ریاست کنسس کے شہر لارنس میں پڑی ہے۔ دونوں نے تین سال پہلے ایک سہانے مستقبل کا جو خواب دیکھا تھا وہ چکنا چور ہو چکا ہے ۔شادی خواہ محبت کی ہو یا کا غذ کے ٹکڑے پر‘ deportation کے خلاف ضمانت نہیں ہے ۔جنید کی طرح ہر سال کم و بیش ایک لاکھ غیر ملکی نکالے جاتے ہیں اور ان کے بچے اوربیویاں ( یا شوہر)‘ جو امریکی شہری ہوتے ہیں‘ تڑپنے کے لئے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ بنگلہ دیش یا بھارت اور پاکستان سے تو خال خال لوگ ایسا کرتے ہیں لیکن میکسیکو یا اس سے بھی آگے جنوبی امریکہ کے ملکوں سے روزگار کے لئے ترک وطن کرنے والے اکثریت میں ہوتے ہیں۔ سینتیس سالہ جنید اور پینتالیس سالہ مڈینا سلیٹی نے 2009ء میں سوچ سمجھ کر شادی کی تھی۔ ان کے ہاں کوئی بچہ نہیں تھا مگر ایک امریکی شہری سے اس کا ازدواجی رشتہ ناکافی ثابت ہوا اور اسے آبائی وطن کو لوٹنا پڑا ۔
چند سال پہلے‘ جب میں نے ایک حاملہ عورت کے اسلام آباد سے واشنگٹن آنے پر اٹھنے والے بھاری اخراجات کے حوالے سے حیرت کا اظہار کیا تو ایک صحافی کی اہلیہ نے‘ جو امریکی شہری ہیں‘ یہ بتا کر میری حیرت کو دور کیا کہ یہ تو ایک سرمایہ کاری ہے۔ جو بچہ امریکہ میں پیدا ہو گا وہ لازماً امریکی شہری ہوگا اور بالغ ہو کر امریکی پاسپورٹ کی درخواست کر سکے گا۔یہ درست ہے کہ قانون کی رو سے کوئی ہسپتال‘ وضع حمل یا کسی اور ہنگامی حالت کے مریض سے انشورنس کا پوچھے بغیر داخلہ دینے پر مجبور ہوتا ہے اور پاکستان کے لوگ اس مجبوری سے شاذ ونادر ہی استفادہ کرتے ہیں لیکن کیلی فورنیا کی سرحد پر اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنے والی حاملہ میکسیکن عورتوں کی قطار ہر وقت دیکھی جا سکتی ہے ۔وہ بھاگ کر سرحد عبور کرتی اور سین ڈیاگو یا کسی دوسرے امریکی شہر میں ایک عدد بچے کو جنم دے کر اور اس کی پیدائش کا سرٹیفکیٹ لے کر واپس چلی جاتی ہیں ۔
جنید نے شہریت کا جو راستہ اختیار کیا وہ بظاہر قانونی تھا مگر اس کے کام نہ آیا۔ وہ 1994ء میں سٹوڈنٹ ویزا پر امریکہ آ یا تھا اور یونیورسٹی آف کنسس میں پٹرولیم مصنوعات کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتا تھا ۔ اس کا باپ مرگیا اور ٹیوشن فیس آنی بند ہو گئی۔یونیورسٹی سے اس کا نام کٹ گیا اور اس نے شراب شروع کر دی ۔ ویزے کی میعاد ختم ہو گئی مگر وہ وطن واپس نہ گیا۔ اس نے الیکٹرانکس کا سامان فروخت کرنے والی ایک کمپنی میں ملازمت کی اور رفتہ رفتہ اس کے ایک سٹور کا منیجر بن گیا۔ وہ ساٹھ ہزار ڈالر سالانہ کما رہا تھا جو اس کے گزارے کے لیے کافی تھا ۔2009ء میں پولیس نے اسے نشے کی حالت میں گاڑی چلانے کے شبہ میں روکا اور تفتیش کے دوران پتہ چلا کہ وہ ایک غیر قانونی تا رک وطن (undocumented immigrant) ہے۔ یہ سارا وقت اس کے اخراج کی قانونی کارروائی میں صرف ہوا ۔ اس دوران اس نے غالباً قانونی مشکلات پر قابو پانے کے لئے اپنی محبوبہ سے‘ جو کم سن بچوں کے ایک سکول میں دیکھ بھال پر مامور تھی‘ شادی کی اور خاتون نے اپنی شادی بچانے کی خاطر دس ہزار ڈالر وکلا کی نذر بھی کئے‘ اپنے کانگرسی نمائندوں سے ملاقاتیں کیں اور متعدد عوامی تحریکیں چلائیں لیکن آخر کار اسے شوہر کو خدا حافظ کہنا پڑا ۔بیس سال میں دنیا بدل جاتی ہے ۔جنید کو بنگلہ دیش بھی عجیب لگتا ہو گا ۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ وہ رشتہ داروں کے لئے جو الیکٹرانی گیجٹس لے جا رہا ہے وہ اس کے آبائی ملک میں چلیں گے یا نہیں۔ اس کی ماں نے بڑی مشکل سے اسے پہچا نا۔ چچا اور بھتیجیوں‘ جن کے لئے وہ کئی تحفے خرید کر لے گیا ہے‘ نے اس کی اچانک واپسی پر حیرت کا اظہار کیا ۔ وہ بنگالی زبان تقریبا ً بھول چکا تھا ۔
گزشتہ سال واشنگٹن میں نام نہاد پیپر میرج کے ہولناک نتائج دیکھے گئے ۔پیزا شاپ کے ایک پاکستانی امریکن مالک نے کا روبار کو فروغ پذیر پاکر اپنے بھائی کو بلایا اور جلدی سیٹل (Settle) کرنے کی خاطر ایک ضرورت مند سیاہ فام عورت سے اس کی شادی کرا دی ۔اس شخص نے بیعانہ کے طور پر ایک خطیر رقم خاتون کو پیش کی اور ماہانہ اس کا وظیفہ مقرر کیا ۔کچھ عرصے کے بعد جب اسے پتہ چلا کہ عورت کا ایک بوائے فرینڈ ہے اور وہ اس سے ملتی ہے تو اس کا وظیفہ بند کر دیا ۔وہ عورت اپنے بھائی اور دوست کو ساتھ لے کر دکان پر آئی اور مالک کو قتل کرا دیا ۔اب مقتول کا کاروبار‘ گھر اور بچے سب خلفشار کا شکار ہیں۔ جنید اور سلیٹی کا معا ملہ دوسرا ہے ۔انہوں نے عام امریکیوں کی طرح گھر بسا یا ہے ۔وہ اپنی عمر بھر کی بچت‘ بیوی کے حوالے کر کے گیا اور امید کرتا ہے وہ اس رقم سے تین ماہ تک مکان کی قسطیں (مارگیج) ادا کرے گی ۔دونوں نے OKرہنے کی قسمیں کھائی ہیں اور باور کیا جاتا ہے امریکی بیوی اپنے غیر ملکی شوہر کوsponsor کرے گی اور وقت مقررہ کے بعد وہ دونوں یکجا ہوں گے ۔
ایک افسانہ اکثر سنا جاتا ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکہ‘ غیر قانونی نو واردوں پر زیادہ سختی کر رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس واقعہ سے برسوں پہلے صدر ریگن کے دور میں تارکین وطن کی ریل پیل کے پیش نظر انہیں عام معافی دے دی گئی تھی۔ ایک عشرہ بعد ملک میں نو واردوں کی تعداد پھر بڑھ گئی تو کانگرس نے پولیس کو یہ اختیار دیا کہ ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی میں پکڑے جانے والوں سے پوچھ گچھ کے دوران وہ ان کے امی گریشن سٹیٹس کا تعین کر سکتی ہے؛ چنانچہ 1994ء میں پولیس نے تفتیش کا دائرہ وسیع کیا اور روکے جانے والے افراد سے ان کی قانونی حیثیت کے بارے میں بھی سوال کرنے لگی ۔ تیس کروڑ کی آبادی میں کوئی ایک کروڑ غیر قانونی آبادکاروں کا تعین محال ہے‘ اس لئے صرف ان لوگوں کا محاسبہ ہوتا ہے جو ٹریفک یا دوسرے جرائم کی بنا پر پکڑے جاتے ہیں ۔جنید کی گرفتاری اسی طرح عمل میں آئی تھی۔ اس کا جہاز‘ جو دبئی کے راستے ڈھاکہ جا رہا تھا‘ کینسس سٹی سے اڑ کر واشنگٹن پہنچا تو حقائق منظر عام پر آئے ۔
امی گریشن کے قوانین میں اصلاحات کے بِل ایک عرصے سے کانگرس میں پڑے ہیں اور دونوں پارٹیوں میں فٹ بال بنے ہوئے ہیں صدر اوباما کہتے ہیں کہ نومبر کے (درمیانی مدت کے) انتخابات ان کا فیصلہ کریں گے ۔ ان کو امید ہے امیگریشن میں اصلاحات کے حامی ڈیموکریٹ‘ ایوان نمائندگان کے بعد سینٹ میں بھی اکثریت حاصل کرلیں گے‘ جب کہ ریپبلیکن سینٹ پر بھی قبضہ کرنے کا عزم ظاہر کر رہے ہیں ۔صدر اوباما نے امی گریشن حکام پر زور دیا ہے کہ وہ غیر قانونی نو واردوں کو ڈی پورٹ کرنے کے ''انسانی‘‘ پہلو پر نظر ثانی کر یں۔ بلاشبہ یہ اگلے الیکشن کا ایک بڑا موضوع ہوگا۔حکومت کے سامنے دو ترجیحات ہیں: وہ ان قانون شکن غیرقانونی غیر ملکیوں کو نکالے گی یا ان شہریوں کو تحفظ دے گی جن کی وہ کفالت کر رہے ہیں ؟ قوم دو لخت ہے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved