گزشتہ روز وزیراعظم کی زیرصدارت اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت کا اجلاس ہوا۔ جس میں فیصلہ کیا گیا کہ حکو متی رٹ تسلیم نہ کرنے والے طالبان کے خلاف فوجی کارروائی جاری رہے گی۔ بات چیت صرف ہتھیار ڈالنے والوں سے کی جائے گی۔ جنوبی وزیرستان میں معاملات بہتر ہوئے تو مذاکرات ہو سکتے ہیں۔ لیکن شمالی وزیرستان میں کسی بھی کارروائی کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ قارئین کو یاد ہو گا‘ جب طالبان سے مذاکرات کا اعلان کیا گیا‘ تو میں نے اسی وقت رائے دی تھی کہ طالبان نے یہ فیصلہ‘ موسم کی مناسبت سے جنگی حکمت عملی کی خاطر کیا ہے۔ پاکستانی فوج بھی وقت کے انتظار میں تھی۔ شمالی وزیرستان میں شدید سردی اور بعض مقامات پر برف موجود تھی۔ طالبان جووقت حاصل کر رہے تھے‘ اس میں وہ اپنے زیادہ سے زیادہ ساتھیوں کو دوسرے محاذوں کی طرف منتقل کرنا چاہتے تھے اور پاک فوج لڑائی کے لئے سازگار حالات کی خاطر وقت گزارنا چاہتی تھی۔ مئی کا مہینہ گزر گیا ہے۔ دونوں نے مذاکرات کی وجہ سے ہونے والی جنگ بندی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا اپنا مقصد حاصل کر لیا ہے۔ فاٹا سے قریباً 8 ہزار کے قریب دہشت گرد چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں وزیرستان سے نکل کر دوسرے علاقوں میں منتقل ہو چکے ہیں۔ بڑی تعداد شمالی وزیرستان سے گئی ہے۔ وہاں پر اب اتنے ہی طالبان باقی ہیں‘ جتنے حکمت عملی کے تحت وہاں رکھے گئے۔ انہی پر بمباری ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شدید بمباری کے باوجود صرف پچاس ساٹھ طالبان کی ہلاکت کی خبر آئی۔ جس نوعیت کے یہ حملے تھے اگر وہاں طالبان کی فورس موجود ہوتی‘ تو مرنے والوں کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہوتی اور ان کے ساتھ کئی بڑے لیڈر بھی ختم ہو جاتے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سب کچھ ان کے منصوبے کے مطابق ہو رہا ہے۔میڈیا میں طالبان کے آئندہ منصوبوں کے بارے میں‘ طرح طرح کی خیال آرائیاں ہو رہی ہیں۔ لیکن مجھے نہیں لگتا کہ ان کے اصل منصوبے کسی کو معلوم ہوں۔ صرف آئی ایس آئی کے پاس خبر ہو گی۔ لیکن وہ کبھی ظاہر نہیں کرے گی۔ اصل جنگی منصوبے‘ میڈیا میں اسی وقت آتے ہیں‘ جب ان پر عملدرآمد شروع ہو چکا ہو۔
ان چند ماہ کے دوران‘ کچھ ایسی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیںکہ طالبان کے جہاد اور جدوجہد کا نظریہ خطرے میں پڑ گیا ہے۔ ان کے جہاد کی بنیاد‘ افغانستان میں غیرملکی فوجوں کا تسلط تھا اور پاک فوج کے خلاف وہ اس الزام کی بنیاد پر لڑ رہے تھے کہ یہ امریکہ کی اتحادی ہے اور پختون عوام کے خلاف اس کی مدد کر رہی ہے۔ افغانستان سے بیرونی افواج کے انخلا کے بعد‘ اس جہاد کا جواز باقی نہیں رہ گیا۔ یہ سوال خود افغان مجاہدین کے لئے بھی تکلیف دہ ہو جائے گا۔ جتنے مجاہدین‘ وارلارڈز اور ہیروئن کے تاجروں سے وابستہ ہو چکے ہیں‘ ان کی جہادی طاقت‘ ڈرگ بزنس میں صرف ہونے لگے گی۔ جبکہ مقامی افغان فورسز اور بے گناہ شہری آبادی کے خلاف جنگی کارروائیاں کرنے کے لئے ان کے پاس کوئی جوازرہے گا‘ نہ جذبہ۔ پرامن افغان آبادی36 سالہ طویل جنگ سے بیزار ہو چکی ہے۔ ہر ایک کی تمنا اب امن ہے۔ نئے ممکنہ صدر‘ آدھے تاجک اور آدھے پختون ہیں۔ مگر ان کی سیاسی شناخت بطور تاجک ہوتی ہے۔ امریکیوں کے خلاف 10 سال تک ایک ہی جنگ میں شریک رہ کر ‘پرانی لسانی تقسیم کے اثرات میں کافی کمی آئی ہے۔ امید یہی ہے کہ استحکام اور تعمیر نو کے لئے سارے لسانی گروہ مل کر کام کرنے کی کوشش کریں گے۔ عبداللہ عبداللہ جانتے ہیں کہ وہ صرف تاجک ووٹوں سے منتخب نہیں ہو سکتے تھے۔ اگر انہیں کامیابی حاصل ہوئی‘ تو اس میں پختون ووٹوں کا بھی حصہ ہو گا۔ اس وجہ سے وہ اپنی حکومت میں‘ سب کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کریں گے۔ حالات ان کے حق میں سازگار نظر آتے ہیں۔ مگرملاعمر کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ القاعدہ کے عالمی مشن اور اپنا جہاد جاری رکھنے کے لئے‘ ہر طرح کے حربے اختیار کریں گے۔ پاکستان میں ان کی طاقت آج بھی موجود ہے‘ جو جنگ کے نئے دور میں ان کے کام آ سکتی ہے۔ شمالی وزیرستان سے نکلنے والے دہشت گرد‘ ایک ہی سمت میں نہیں گئے۔ ان میں سے کچھ افغانستان کی طرف نکلے ہیں۔ کچھ پاکستان میں محسودوں کے علاقے میں چلے گئے اور کچھ ڈیرہ غازی خان اور وہاں کے گردونواح میں منتقل ہوئے۔ ٹھکانے بدلنے کی یہی حکمت عملی ٹی ٹی پی میںباہمی محاذ آرائی کی وجہ بن گئی۔محسود قبائل جن کا بڑا حصہ خالد محسود عرف سجنا کو اپنا امیر مانتا ہے‘ وہ پاکستان میں رہ کر یہاں طاقت حاصل کرنے کا خواہش مند ہے۔ ملا فضل اللہ سے الگ ہونے کی جو وجوہ سجنا گروپ کے ترجمان اعظم طارق نے بتائی ہیں‘ ان کے مطابق تحریک
طالبان اپنے بانی رہنما بیت اللہ محسود کے مقرر کردہ اہداف سے ہٹ گئی تھی۔ اسی وجہ سے وہ علیحدگی پر مجبور ہوئے۔ انہوں نے ٹی ٹی پی کی قیادت پر شدید الزامات عائد کرتے ہوئے‘ انہیں ڈاکہ زنی‘ بھتہ خوری‘ علماء کی شہادتوں‘ مدارس سے بھاری رقوم کی وصولی اور عوامی مقامات پر دھماکے کرنے کا ذمہ دار قرار دیا۔ ایک دلچسپ الزام یہ بھی سامنے آیا کہ ٹی ٹی پی نے امارت اسلامی افغانستان کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے کی گھنائونی سازش پر عمل کیا۔ جسے وہ باربار کی کوششوں کے باوجود نہیں روک سکے۔ انہیں 2009ء میں مولوی عمر کی گرفتاری کے بعد‘ ٹی ٹی پی کا مرکزی ترجمان مقرر کیا گیا تھا۔ بعد میں ہٹا دیا گیا۔ سجنا کے نئے گروپ نے انہیں دوبارہ یہ عہدہ دے دیا ہے۔ انہوں نے اس لڑائی کی وجہ یہ بتائی کہ ہمارا اختلاف عہدوںنہیں‘ بلکہ نظریات کی بنیاد پر ہوا۔ اصل میں یہ اختلاف اسی وقت شروع ہو گیا تھا‘ جب ملاعمر کے دبائو پر‘ حکیم اللہ محسود کی جگہ خالد سجنا کی بجائے‘ ملا فضل اللہ کو امیر مقرر کیا گیا۔ محسود قبیلے سے تعلق رکھنے والے طالبان‘ جو بڑی تعداد میں ہیں‘ یہ سمجھتے تھے کہ قیادت ان کا حق ہے‘ کیونکہ اس تنظیم کے بانی بیت اللہ محسود کا تعلق اسی قبیلے سے تھا اور بعد میں تحریک کو زندہ رکھنے اور منظم کرنے میں حکیم اللہ محسود نے بنیادی کردار ادا کیا‘ اس لئے قیادت کا حق دار بھی یہی قبیلہ ہے۔ اب انہوں نے اپنا علیحدہ گروہ قائم کر لیا ہے۔ محسود قبائل میں شہریار محسود کا گروپ آج بھی پرانی قیادت سے وابستہ ہے۔
طالبان میں اس تقسیم پر مختلف قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اب طالبان میں مزید دھڑے بنیں گے‘ جو حکومت کی مشکلات میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ سجنا کا دھڑا‘ محسود علاقے میں زیادہ اثرورسوخ رکھتا ہے اور محسود قبیلے کی بڑی تعداد اپنے علاقوں سے باہر متاثرین کی زندگی گزار رہی ہے۔وزیرستان کو طالبان کا مرکز سمجھا جاتا ہے‘ لیکن اس میں آباد وزیرقبیلے سے تعلق رکھنے والے طالبان کی پالیسیاں مختلف رہی ہیں اور وہ حکومت کے زیادہ قریب سمجھے جاتے ہیں۔ حکومت بار بار مذاکرات بحال ہونے کی بات‘ اسی وجہ سے کر رہی ہے کہ وزیرستان سے تعلق رکھنے والے طالبان امن کی طرف زیادہ مائل ہیں۔ سب سے زیادہ تباہی کا سامنا انہی قبائل کو کرنا پڑا اور آج بھی جنوبی وزیرستان کے 5لاکھ سے زیادہ لوگ کیمپوں میں زبوں حالی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
تاریخی طور پرطالبان کی اٹھان کا زمانہ گزر چکا ہے۔ اب ان کے سامنے ایسی کوئی منزل نہیں رہ گئی‘ جسے حاصل کرنے کی خاطر وہ متحد رہ کر ''جہاد‘‘ جاری رکھ سکیں۔ امریکی‘ افغانستان سے نکلنے والے ہیں۔ وہاں انتخابات کے ذریعے نئی حکومت قائم ہونے جا رہی ہے۔ اس کے خلاف جہاد کا کوئی جواز نہیں رہ جائے گا۔ اسی وجہ سے افغان طالبان کو ملنے والی بیرونی امداد بھی ختم ہو جائے گی‘ جو صرف امریکہ کی مخالفت میں ملتی آ رہی ہے۔ اسی صورتحال کا سامنا پاکستانی طالبان کو کرنا پڑے گا۔ انہیں بھی پاکستانی ہمدرد اور خلیجی ریاستوں کے امرا جو امداد دیتے آ رہے ہیں‘ ان کے پاس بھی پاکستانی فوج کے خلاف چندہ دینے کا کوئی جواز نہیں رہ گیا۔ وہ ‘ ہماری حکومت کو امریکی فوجوں کا مددگار سمجھتے ہوئے‘ طالبان کو مالی وسائل مہیا کرتے تھے۔ یہ الزام اب نہیں لگایا جا سکے گا۔ ان کی آمدنی کے بڑے ذرائع بھی ختم ہو جائیں گے اور مزید مشکل یہ آئے گی کہ پاکستانی طالبان میں مختلف دھڑے بن جانے کے بعد‘ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جائے گا کہ ان میں سے کون سے دھڑے کی مدد کی جائے اور کس کو چھوڑا جائے؟ اب طالبان کا بڑا حصہ‘ افغانستان کے ڈرگ ٹریڈ میں روزگار تلاش کرے گا یا چین میں کارروائیوں کے لئے‘ امریکیوں سے مدد لے گا۔افغانستان اور پاکستان میں جہاد کے لئے‘ ان کے پاس کوئی جواز نہیں رہ گیا۔ پاکستانی حکومت نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے‘ ہتھیار پھینکنے والوں کے لئے‘ پرامن زندگی کی امید پیدا کر دی ہے۔ صرف ایک مثال قائم ہونے کی ضرورت ہے۔ مراد یہ ہے کہ جو بھی پہلا گروپ ہتھیار پھینک کرمحفوظ شہری زندگی گزارنا شروع کرے گا‘ اسے دیکھ کر دوسرے طالبان اپنے فیصلے کریں گے۔ اگر ان کی زندگی اچھی ہوئی‘ تو وہ جوق در جوق ہتھیار پھینک کر نارمل زندگی کی طرف لوٹ آئیں گے۔ شکوک و شبہات باقی رہے‘ تو یا لڑتے ہوئے جانیں دیتے رہیں گے یاپہاڑوں میں بھوکے ننگے بھٹکتے پھریں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ حکومت ‘ہتھیار ڈالنے والوں سے بات کرنے کی بجائے‘ انہیں غیرمشروط معافی کی پیشکش کرے‘ تو نتائج زیادہ بہتر ہوں گے۔کم از کم پاکستان کی حد تک میں کہہ سکتا ہوں کہ طالبان کی کتاب بند ہونے والی ہے۔