تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     01-06-2014

چین کے سمندر سے

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے قادر آباد (ساہیوال) میں جب دو چینی کمپنیوں کے تعاون سے تعمیر کئے جانے والے کول پاور پلانٹ کا سنگ ِ بنیاد رکھنے کے بعد یہ کہا کہ پاکستان اور چین کی دوستی دنیا کی بلند ترین چوٹی سے زیادہ بلند، گہرے ترین پانیوں سے زیادہ گہری اور میٹھے ترین شہد سے زیادہ میٹھی ہے، تو اُن کے سامنے بیٹھے ہوئے ہزاروں افراد نے پُرجوش تالیاں بجا کر اس پر مہرِ توثیق ثبت کی۔ کوئلے سے 1320میگاواٹ بجلی پیدا کرنے والے دو پلانٹ یہاں30ماہ میں مکمل ہونا ہیں۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کا اصرار تھا کہ اس مدت میں چھ ماہ کمی ہو جانی چاہئے۔ وزیراعظم نے جب بتایا کہ دو ماہ پہلے دورۂ چین کے موقع پر چینی سرمایہ کاروں کے سامنے موجود گروپ سے بات چیت کا آغاز ہوا تھا، دو ماہ کے اندر اندر یہ معاملہ ایک ٹھوس منصوبے کی شکل اختیار کر چکا ہے اور آج اس کا سنگ ِ بنیاد رکھا جا رہا ہے، تو سننے والے حیرت سے ارد گرد دیکھ رہے تھے۔ شہباز شریف اور ان کی اَن تھک ٹیم نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا تھا۔ ان کا اعلان تھا کہ وہ ہر ماہ دو بار قادر آباد آئیں گے، تاکہ تکمیل کے راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ ہونے پائے۔
ایک دن قادر آباد میں سنگِ بنیاد رکھا گیا، تو دوسرے دن نندی پور میں425 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے منصوبے کے پہلے مرحلے کا افتتاح ہوا۔ دسمبر 2014ء میں مکمل ہونے والے اس پلانٹ سے 95 میگاواٹ بجلی کا حصول شروع ہو چکاہے۔7ماہ کی ریکارڈ مدت میں پیداوار کا آغاز کر کے ایک اور معجزہ کر دکھایا گیا ہے، اس کا سہرا بھی وزیراعلیٰ اور اُن کے چینی دوستوں کے سر ہے۔ اس منصوبے کا آغاز2008ء میں اس وقت ہوا تھا، جب لیسکو اور چین کی ڈونگ فانگ الیکٹرک پاور کمپنی کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط ہوئے اور 10فیصد کی ''ڈائون پیمنٹ‘‘ بھی کر دی گئی تھی۔ دو سال بعد عمارت کی تعمیر مکمل کر لی گئی اور امید تھی کہ اپریل2011ء سے بجلی کی پیداوار شروع ہو جائے گی۔ مشینری کراچی پہنچ چکی تھی، اس کی کلیئرنس کے لئے فائل وزارتِ قانون کو بھجوائی گئی، لیکن دو سال تک اس نے کوئی جنبش نہیں کی۔ 85ملین ڈالر مالیت کی مشینری کراچی پورٹ پر سڑتی رہی، لیکن اسے نندی پور پہنچنے کی اجازت نہ مل سکی، دو سال انتظار کے بعد چینی کمپنی نے معاہدہ منسوخ کر دیا، نقصان کے ازالے کے لئے4کروڑ ڈالر ہرجانہ کا مطالبہ بھی کر دیا گیا۔ جون2013ء میں نئی حکومت کے قیام کے بعد ڈونگ فانگ کمپنی سے از سر نو مذاکرات کا آغاز ہوا اور کسی نہ کسی طور اس کو دوبارہ کام شروع کرنے پر رضا مند کر لیا گیا۔ اس دوران لاگت میں کئی ارب روپے کا اضافہ ہو چکا تھا۔ وزارتِ قانون نے اس منصوبے کے لئے معاونت فراہم کرنے کے معاملے کو کیوں روکا، اس کی تفصیل واپڈا کے اُس وقت کے لیگل ایڈوائزر منیر احمد خان کے سینے میں محفوظ ہے، لیکن مناسب ہو گا کہ اُس وقت کے وزیر قانون اور ہمارے آج کے کالم نگار بھائی ڈاکٹر بابر اعوان اپنے قلم کو حرکت میں لا کر پوزیشن واضح کریں۔ بہرحال جو بھی کہا جائے اور جو بھی لکھا جائے، اس منصوبے کا پہلا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے۔
پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کے کئی منصوبوں پر تیزی سے کام جاری ہے،چینی حکومت کی بے مثال معاونت نے اس رفتار کو ممکن بنایاہے۔ پاکستان کے پاس اس وقت ایسے وسائل موجود نہیں جنہیں بجلی کی پیداوار کے لئے مختص کیا جا سکے۔ عالمی اداروں کی طرف سے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، ایسے میں چین نے آگے بڑھ کر تعاون پیش کیا اور آنے والے سات برسوں کے لئے 30ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضمانت فراہم کر دی۔ ایک کے بعد ایک منصوبہ بنایا جا رہا ہے اور امید کی بجلی چمک رہی ہے۔
پاکستان اور چین کی دوستی دنیا میں مثالی سمجھی جاتی ہے۔ یہ ایک دن میں بلندی تک نہیں پہنچی، اس کے پیچھے گزشتہ64سال کا تسلسل ہے۔ جب دنیا میں چین کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے کا مطلب امریکی ناراضی کو مول لینا تھا اور اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں چین کی مستقل نشست پر تائیوان کے چھوٹے سے جزیرے تک محدود حکومت قابض تھی، اُس وقت پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے چین کو تسلیم کیا۔ گزشتہ64 برسوں میں پاکستان نے چین کے ساتھ اپنے تعلق کو نبھایا ہے اور چین نے بھی پاکستان کی قدرافزائی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ ایک زمانہ تھا کہ دنیا ''ہندی چینی بھائی بھائی‘‘ کے نعروں سے گونجتی تھی اور پنڈت نہرو چو این لائی کے بھائی سمجھے جاتے تھے۔ پاکستان اس موقع پر خاموش تھا، اس کے پالیسی سازوں کو یقین تھا کہ چو این لائی کی اُبھرتی ہوئی شخصیت پنڈت نہرو کے خبط عظمت کو ٹھیس پہنچائے گی اور دونوں ملکوں کے درمیان مصنوعی دوستی کی فضا قائم نہیں رہ پائے گی۔1962ء کی چین بھارت جنگ نے اس خطے، کی سیاست کو بدل کر رکھ دیا اور نئی دہلی اور بیجنگ کے درمیان وہ خلیج پیدا ہوئی جو آج تک پاٹی نہیں جا سکی۔ اسلام آباد اور بیجنگ ایک دوسرے کے قریب آتے گئے،1965ء کی جنگ کے دوران پوری قوت کے ساتھ چین نے پاکستان کی آواز میں آواز ملائی اور تعلقات سرکاری سطح سے نکل کر عوام تک پہنچ گئے۔ دونوں ملکوں کے درمیان ایک دوسرے کے لئے موجود گرم جوشی اب ایک ایسی حقیقت بن چکی ہے، جس پر دنیا بھر میں رشک کیا جاتا ہے اور حاسدوں کی بھی کمی نہیںہے۔
شریف برادران کو پاک چین دوستی ورثے میں ملی ہے، لیکن وہ پاکستان کی معاشی ترقی کے لئے اس سے جس طرح فائدہ اُٹھا رہے ہیں، اس سے پہلے اس کا تصور نہیں کیا گیا تھا۔ صدر آصف علی زرداری نے بھی چین کے ساتھ تعلق کو بہت اہمیت دی تھی۔ انہوں نے بار بار وہاں کے دورے کئے، مفاہمت کی متعدد یادداشتوں پر دستخط کئے، لیکن انہیں وہ حکومتی معاونت میسر نہ آ سکی، جو خاکوں میں رنگ بھر سکتی۔ چین کی دوستی ایک سمندر ہے، اس سے کیا حاصل کرنا ہے یہ پاکستان کے کشتی رانوں اور غوطہ خوروں پر منحصر ہے۔ موجودہ کشتی ران اس حقیقت کا سراغ پا چکے ہیں۔
(یہ کالم روزنامہ '' دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے) 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved