تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     01-06-2014

بس کرو‘ خدا کے لیے اب بس کرو

ہوش کی دوا کرو، اللہ کے بندو، ہوش کی دوا کرو۔ کوئی تو اٹھ کر پکارے کہ بس کرو، خدا کے لیے اب بس کرو ؎ 
کوئی پکارو کہ اک عمر ہونے آئی ہے 
فلک کو قافلۂ صبح شام ٹھیرائے 
آدمی ایک اندازہ قائم کرتا اور پھر دعا کرتاہے کہ وہ غلط ثابت ہو ۔ عاقبت نااندیش لیڈروں اور اس سے زیادہ سنسنی پسند میڈیا کے طفیل صورتِ حال ایسی ہوگئی کہ اندیشہ پھوٹتاہے ۔ 
کتاب کہتی ہے ''بحر و بر فساد سے بھر گئے اور یہ انسان کے اپنے ہاتھ کی کمائی ہے‘‘ کراچی سے وزیرستان تک ، ہر کہیں خرابی ہے ۔ دھڑے بندی اور تصادم ۔ حکومت کو قانون کی کوئی پروا ہے اور نہ اپوزیشن کو۔ عدالت ہو کہ انتظامیہ، اخبار یا ٹیلی ویژن، سیاسی پارٹیاں یا تاجر، سب اپنی حدود سے تجاز کرنے پر تلے رہتے ہیں۔ 
جمعہ کو رات گئے تک ٹی وی چینلوں پہ ایک ہنگامہ برپا رہا کہ شریف حکومت کے خلاف ایک بہت بڑا اتحاد بن رہاہے۔ عمران خان کے سیکرٹری برادرم نعیم الحق نے پوچھا :کیاکپتان کو ڈاکٹر طاہر القادری سے ملنا چاہیے؟ عرض کیا، اس میں حرج کیا ہے ۔ اگر ملاقات سے قبل میڈیا کووہ بتادیں کہ یہ معمول کی ایک ملاقات ہے ۔ بات چیت کے بعد واضح کردیں کہ کوئی اتحاد نہیں بن رہا۔ معلوم ہوا کہ جاوید ہاشمی نے شدید مخالفت کی ہے ۔ اتنے میں افواہ اڑی کہ ملاقات ہوگئی۔ شیخ رشید اس پہ برہم تھے کہ انہیں بتایا ہی نہیں ۔ شیخ صاحب تو خیر کسی بھی بات پہ برہم ہو سکتے ہیں ۔ ان کی ساری سیاست اپنی ذاتِ گرامی کے لیے ہوتی ہے ۔ الیکٹرانک میڈیا ان کے سستے نعروں کا خریدار ہے ۔
معلوم ہوا کہ خود تحریکِ انصاف کے کارکنوں میں ردّعمل ہے ۔ از سرِ نو غور کیا تو احساس ہوا کہ عمران خان کو گریز ہی کرنا چاہیے۔ شیخ 
رشید کی طرح ،ڈاکٹر طاہر القادری بھی ان لوگوں میں سے ایک ہیں، جو ملک ہی نہیں ، پوری کائنات کو اپنی ذات اور مفاد کے حوالے سے دیکھتے ہیں ۔اندازہ یہ تھا اور ٹی وی پر یہی عرض کیا کہ کوئی بڑا محاذ بنتا نظر نہیں آتا۔ ہر چند کہ حکومت سے لوگ بیزار ہیں۔ مزید یہ کہ جیسی بھی بری بھلی حکومت یہ ہے ، اسے اکھاڑپھینکنے سے حاصل کیا؟ متبادل کیا ہے؟ تحریکِ انصاف ؟ اسے تشکیلِ نو کی ضرورت ہے ۔ عہدیدار بدل ڈالنے کی کہ بعض تو باقاعدہ جرائم پیشہ ہیں ۔ پولیس ، عدالت، سول سروس ، ایف بی آر اور پٹوار کی تعمیر نو کے لیے پوری سنجیدگی کے ساتھ منصوبہ بندی کی۔ دہشت گردی پہ اس کا موقف بچگانہ ہے ۔ ان حالات میں اقتدار اسے مل بھی جائے تو بے سود اور نتیجہ ناکامی ۔ ہنگامہ بڑھا تووہی ہوگا، جو ہوتا آیا ہے ۔سول ادارے تعمیر کرنے اور ان اداروں کے ذریعے آئینی حکمرانی قوم کا اصل مسئلہ ہے ، جس کی پروا کسی کو نہیں۔ 
چوہدری صاحبان پہ حیرت ہے کہ وہ تنکوں کے سہارے ڈھونڈ رہے ہیں ۔ طاہر القادری کی مدد سے ہنگامہ اٹھایا جا سکتاہے ۔ فرض کیجیے ، تحریکِ انصاف بھی شامل ہو جائے تو آخری نتیجہ کیا؟ افواہ تھی کہ ایم کیو ایم بھی شریک ہو سکتی ہے مگر ان کی طرف سے تردید آگئی کہ کوئی رابطہ ہی نہیں ؛اگرچہ دروازہ کھلا رکھنے کا انہوں نے اشارہ دیا۔ شب ڈیڑھ بجے کپتان کافون آیا۔ کہا : کسی سے ملاقات نہیں ہو رہی ۔ بچّوں سے ملنے آیا ہوں اور تمام وقت انہی کے ساتھ بِتانا چاہتا ہوں۔ گزارش کی کہ بالکل بجا۔ اپنی پارٹی پر توجہ دو۔ کہا: منصوبہ مکمل ہے۔ تفصیل تمہیں بتائوں گا۔
نون لیگ دھاندلی سے جیتی ہے ۔ اس کی فتح داغدار ہے اور آسانی سے ہضم نہ کی جائے گی ۔ صاف ستھرے الیکشن میں وہ 70، 75سے زیادہ سیٹیں نہ لے سکتی ۔آئندہ بھی وہ شفاف انتخابات کا نظام بنانے کی راہ میں مزاحم رہے گی۔ کارکردگی اور بھی ناقص ، دہشت گردی ، مہنگائی ، بے روزگاری، امن و امان کے مسائل سلجھانے اورسیاسی استحکام پیدا کرنے کی بجائے وہ شعبدے بازی میں لگی ہے ۔ نمائشی اور چمکتے دمکتے منصوبوں پہ روپیہ لٹانے میں مصروف۔ مسلم لیگی اخبار کی خبر ہے کہ سالِ گذشتہ پنجاب کے ترقیاتی بجٹ کا 40فیصد لاہور پہ صرف ہو گیا۔ باقی وسطی پنجاب اور راولپنڈی شہر پہ کہ شیخ رشید اور عمران خان دوبارہ نہ جیت سکیں۔ وزارتِ اعلیٰ عملاً حمزہ شہباز کے سپرد ہے ۔ شہباز شریف مرکز میں براجمان ہونے کے آرزومند لگتے ہیں ۔ اپنی پسند کے افسروں کاایک دستہ پہلے ہی بھیج چکے۔ 
پیہم کنفیوژن ، مشکوک میڈیا گروپ کی حمایت۔ فوج سے بے وجہ تصادم، منصوبہ بندی اور قانونی تقاضے پورے کیے بغیر بھاری شرح سود پر چینی اداروں سے قرضوں کے سمجھوتے ، جو دنیا بھر میں رشوت ستانی کے لیے بدنام ہیں ۔ نعمت اللہ خاں نے بی او ٹی (بنائو، چلائو او ر حوالے کرو ) کی بنیاد پر کراچی ریلوے کا منصوبہ بنایا تو شوکت عزیز حکومت نے مسترد کر دیا۔ شہباز شریف کو کس نے ایک ارب ساٹھ کروڑ ڈالر کے منصوبے کی اجازت دی ہے ؟ کون یہ قرض اتارے گا اور اس سکیم کی ضرورت کیا ہے ؟ طالبان سے بے معنی مذاکرات، جن کے نتیجہ خیز ہونے کا کوئی امکان نہیں ۔ احمق ہیں ، جو ''اچھے‘‘ طالبان کی تلاش میں ہیں ۔ گل بہادر کے اعلان سے واضح ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانا کرتے۔ طاقت کے سوا کوئی دلیل وہ نہیں مانا کرتے۔ اقتدار کا خون جن کے منہ کو لگ جائے، روپے کی فراوانی ہو اور ہر طرح کے سرپرست آسانی سے مہیا، وہ کیونکر دستبردار ہوں گے ۔ خالد سجنا کا بھروسہ بھی کوئی نہیں ۔ اپنے کتنے ہی حریف اس نے قتل کیے ۔ اللہ کا عذاب بالآخر ان پہ نازل ہوا ہے اور باہم وہ دست و گریبان ہیں ۔ تخریب کاری میں اگر کمی آئی ہے تو باہمی جنگ و جدل کی وجہ سے ۔ 
چوہدری نثار علی خان سے برطانوی قونصل جنرل کی ملاقات میں فیصلہ ہو اکہ عمران فاروق قتل کیس میں حکومتِ پاکستان قانونی ذمہ داریاں پوری کرے گی ۔ مطلب یہ کہ دو برس سے آئی ایس آئی کی تحویل میں موجود ممکنہ قاتل برطانوی پولیس کے حوالے کر دیے جائیں گے ۔ 
الطاف حسین کے بینک اکائونٹ منجمد کرنے پہ ایم کیو ایم پہلے ہی ناراض ہے ۔ سوال یہ ہے : کیا شواہد کے بغیر ہی اتنا بڑا قدم اٹھا لیاگیا ؟ برطانوی نمائندے نے کھلے عام وزیرِ داخلہ سے ملاقات کی ضرورت کیوں محسوس کی۔ چوہدری صاحب نے اعلان کیوں جاری کیا؟ نتائج کا اندازہ کیا جا سکتاہے ۔ کراچی میں ہنگامہ بڑھ سکتاہے اور ہم جانتے ہیں کہ بھارت ہی نہیں ، ایم آئی سکس بھی اسے مہمیزکرنے کی کوشش کرے گی ۔ پاکستانی لیڈروں کے ذہنی اور اخلاقی افلاس کا عالم یہ ہے کہ وہ بھارت کے خلاف بات نہیں کرتے ، خواہ وہ کیسی ہی تباہی لائے ۔ یہ واشنگٹن اور دہلی کا مشترکہ بندوبست ہے ۔ اسی دن کے لیے این جی اوز پالی گئیں ۔ میڈیا میں سرمایہ کاری ہوئی اور بھارت نے ایک طے شدہ پالیسی کے تحت پاکستانی سیاستدانوں سے روابط استوار کیے ۔ بلوچستان کی تخریب کاری میں وہ شامل و شریک ہے ۔ طالبان کا پشت پناہ۔ پانی ہمارا اس نے روک رکھا ہے ۔ کشمیر میں قتلِ عام ۔ بھارتی میڈیا ہی نہیں ،ممبئی فلم انڈسٹری تک میں طوفانِ بدتمیزی ۔ ملّا فضل اللہ کو پناہ دینے والے حامدکرزئی کی امداد و اعانت، افغان سکیورٹی اہلکاروں کی تربیت۔ بھارتی جارحیت کے جواب میں ہماری سب سیاسی پارٹیاں گنگ ہیں ۔ رہی حکومت تو وقت بے وقت وہ امن کا گیت گاتی ہے ۔ آزاد پاکستانی میڈیا؟ کسی چینل کا کوئی نیوز بلیٹن بھارتی ڈوموں، میراثیوں اور نقّالوں کے بغیر مکمل نہیں ۔ کوئی اخبار مکمل نہیں ۔ 
پارٹیاں ہیں اور گروہ ہیں ۔اپنی لڑائی وہ لڑتے ہیں، پاکستان کا مقدمہ لڑنے والا کوئی نہیں ۔ معیشت برباد، ٹیکس وصولی کی پروا ہے اور نہ امن و امان کی ۔ غریب کی زندگی دو بھر تھی، اب ناقابلِ برداشت ہوئی جاتی ہے۔ کب تک وہ چین سے بیٹھا رہے گا؟ کب تک جمہوریت کو شہد لگا کر وہ چاٹے گا؟ ہوش کی دوا کرو، اللہ کے بندو، ہوش کی دوا کرو۔ کوئی تو اٹھ کر پکارے کہ بس کرو، خدا کے لیے اب بس کرو۔ 
کوئی پکارو کہ اک عمر ہونے آئی ہے 
فلک کو قافلۂ صبح شام ٹھیرائے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved