اس میںکوئی شک نہیں کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان، افتخار محمد چوہدری کی فعالیت کی وجہ سے ہر کسی کی توقعات کا دامن پھیلتا جارہا تھا کہ اب ملک میں بدعنوانی کا ارتکاب کرنے والوںکو گرفت میںلیا جائے گا۔ اپنے ہنگامہ خیز دور میں، اُنھوںنے اپنے اختیارات کا بھر پور استعمال کیا ، لیکن اس دوران ان قوتوں کی بھی کمی نہیں تھی جو ان کی کاوشوں کو ناکام بنانے کے لیے کمربستہ رہیں۔۔۔ اور ان قوتوں کو ہم سب بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ ان کی طرف سے بدعنوانی کی سرکوبی کے خلاف سب سے بڑا جواز یہ پیش کیا جاتا تھا کہ ملک میں جاری جمہوری عمل کو پٹری سے نہیں اترنا چاہیے۔ اس کاسادہ الفاظ میں یہی مفہوم تھا کہ حکمران طبقے کوجی بھر کے لوٹ مار کرنے دیں، بس جمہوریت کالبادہ نہ اترنے پائے۔ آج بھی بہت سے کیسز کو جمہوریت سے محبت کی نذر کردیا جاتا ہے۔
دراصل سیاست دان وہ مقدس گائے ہیں جنہیں اخلاقی قربان گاہ پر ذبح نہیں کیا جانا چاہیے۔ وہ کچھ بھی کرکے بچ نکلنے کا ہنر سیکھ گئے ہیں۔ چنانچہ اس پر کسی کوحیرت نہیںہونی چاہیے کہ ہر سال ایک ادارے کی طویل رپورٹیں ہمیں خبردار کرتی ہیں کہ پاکستان دنیا کے بدعنوان ترین ممالک کی درجہ بندی میںمزید گرگیا، لیکن ہم جمہوریت کے سچے عاشق ہیں، اس لیے ہمیں شفافیت سے کیا لینا دینا؟تاہم ان رپورٹوں سے دوغلے پن کی بو بھی آتی ہے کیونکہ اس کے سربراہ اگرچہ سابق اور موجودہ حکومتوں پر بدعنوانی کے الزامات لگاتے رہے ہیں لیکن ان کا اپنا دامن کیسا ہے‘ یہ بھی تو معلوم ہونا چاہیے۔ ایک انگلش اخبار میں شائع ہونے والے ایک کالم کے مطابق۔۔۔ ''یہ صاحب پاکستان اور برلن، جہاں اس ادارے کا صدر دفتر ہے، میںکچھ منفی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے‘‘۔ اگر اُن کے خلاف لگائے جانے والے الزامات میں کچھ صداقت ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قوم میں ہم کس پر اعتماد کریں؟جیفری چوسر نے کہا تھا۔۔۔''اگر سونے کو بھی زنگ لگ جائے تو پھر لوہے کا کیا بنے گا۔‘‘ ہمارے ہاں ادارے کمزور اور نااہل ہیں۔ سب ہی ناقابلِ اعتماد ہیں تو پھر ہم کس طرف دیکھیں؟ کیا مسٹر اسحاق ڈار پر اعتماد کیا جاسکتا ہے جو دعویٰ کررہے ہیں کہ وہ بیرون ِ ملک چھپائے گئے ملکی خزانے کے دو سو بلین ڈالر واپس لائیں گے؟ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان وزیر صاحب کے اپنے خاندان کے کچھ افراد کی زیادہ دولت بیرونِ ملک محفوظ ہے لیکن ان کو اصرار ہے کہ قوم ان پر اعتماد کرلے کہ وہ سوئس حکام کے ساتھ ایسا کوئی معاہد ہ کرنے جارہے ہیں جس کی رو سے وہ ناجائز طور پر چھپائی گئی دولت کو بازیاب کرا سکیںگے۔ پرامید رہنے میں کوئی حرج نہیں لیکن دل کے شکوک رفع نہیںہوتے۔
فی الحال ہم اگست تک دیکھیں گے کہ کیا مسٹر ڈار کا وعدہ وفا ہوتا نظر آتا ہے یا نہیں ؟ہو سکتا ہے کہ ان کا ارادہ ٹھیک ہو لیکن شک ہے کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکیںگے کیونکہ پی ایم ایل (ن) کی قیادت کی دولت کا ایک بڑا حصہ بیرون ِ ملک بینک اکائونٹس، قیمتی جائیداد اور بزنس کی صورت میں ہے۔ اس لیے اس کہانی کو اگست سے پہلے ہی تمام سمجھیں۔ اس لیے ایک اور کہانی سنیں۔ ایران نے اپنے امیرترین شخص مہا فرید عامر خسروی (Mahafarid Amir Khosravi) کو سزا ئے موت دی کیونکہ اُس پر رشوت، دھوکے دہی اورمنی لانڈرنگ کے ذریعے 2.6 بلین ڈالر جمع کرنے کا الزام تھا۔ پاکستان میں ان تینوں جرائم پر کوئی باز پرس نہیںچہ جائیکہ ان کی پاداش میں کسی کو سزائے موت دی جائے۔اس ارب پتی کو وارننگ دینے کی بجائے تہران جیل میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہاں بدعنوانی کو سیاست یا جمہوریت سے محبت کی آڑ میں نہیں چھپایا جاتا۔
ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ خسروی کوسیاسی پشت پناہی حاصل تھی۔ وہ سابق ایرانی صدر احمدی نژاد کے قریب تھا۔۔۔ اتنا قریب کہ تفتیش کے دوران سابق صدر سے بھی خسروی کے کاروبار کی بابت پوچھ گچھ ہوئی۔ ایرانی حکام نے پتہ چلالیا کہ خسروی نے 2.6 بلین ڈالر بینک سے حاصل کرنے کے لیے بوگس ڈاکو منٹ استعمال کیے اور جہاں ضرورت پڑی بینک افسران کو رشوت بھی دی۔ دورانِ تفتیش اس نے اعتراف کیا کہ اس نے ایرانی بینکو ں کے ایگزیکٹو ز کو تین ملین امریکی ڈالر رشوت دی تھی۔
کچھ عرصہ پہلے پاکستانی اخبارات میں ان بااثر افراد کی طویل فہرست شائع ہوئی تھی جنھوںنے بینکوں کے بھاری قرضے واپس نہیں کیے۔ اس فہرست میں کچھ سابق وزرائے اعظم اور ان کے اہل ِ خانہ کے نام بھی شامل تھے۔ نیب ان کو چھونے سے بھی قاصر دکھائی دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایران کے برعکس نیب کے سربراہ کی تقرری سیاسی بنیادوں پر کی جاتی ہے۔ اس لیے اس نے سب سے پہلے اس سیاسی جماعت کے مفادات کا تحفظ کرنا ہوتا ہے جو اسے مقرر کرے۔
موجودہ چیئرمین نیب قمرالزماں چوہدری ہیں۔ عمران خان ان کی تقرری کے خلاف عدالت میں گئے کیونکہ ان پر این آئی سی ایل کیس میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔ یہ چھ بلین روپوں کے غبن کا کیس ہے۔ تاہم ایک تین رکنی بنچ نے مسٹر چوہدری کو بری کردیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں ایسا کوئی شخص نہیں جو نیب جیسے اہم محکمے کا سربراہ مقرر کیا جاسکے؟ اس سے پہلے نیب کے چیئرمین ایڈمرل فصیح بخاری آصف زرداری کے قریبی تھے اور ان کے بعض کیسز میں شراکت دار بھی۔جب ایسے افراد کے ذمے بدعنوانی کے خاتمے کی ذمہ داری ہوگی تو انجام سامنے ہے۔ انقلاب کی ضرورت نہیں، ہم ایک بزدل قوم ہیں۔ ایران کے خسروی جیسی دوتین مثالیں کام کرجائیںگی۔ لمبی گردن والے گردن کے لمبا ہونے سے بہت ڈرتے ہیں۔
درحقیقت پاکستان کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔۔۔ توانائی کا بحران ، جرائم، لوڈ شیڈنگ ۔۔۔ لیکن بدعنوانی ایک ایسی خرابی ہے جس کے ہوتے ہوئے یہ مسائل حل نہیں ہوسکیںگے۔ موجودہ حکمران ان مسائل کو ترجیحی بنیادوںپر ختم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے لیکن جب تک بدعنوانی کا خاتمہ نہیں ہوگا، ان منصوبوںکی رقم عوامی فلاح کے لیے استعمال ہونے کی بجائے کسی اور کی جیب میں چلی جائے گی۔ گزشتہ اٹھارہ برسوں سے نیب، جس کی سربراہی فصیح بخاری، نوید احسان، سیف الرحمان اور جنرل شاہد عزیز کے ہاتھ رہی ، ایران کے خسروی کی سی ایک مثال بھی پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یا تو پاکستان بدعنوانی سے پاک ملک ہے، یا پھر نیب ہی بدعنوان ہے۔ درحقیقت اس محکمے کو درست کیے بغیر ترقی ایک خواب ہی رہے گی۔ اگر سڑکیں اور پل تعمیر کرنے کا نام ترقی ہوتا تو کیا بات تھی۔ ہم رشک ِ لند ن بننے والے ہیں، لیکن ہمیں سب سے زیادہ ضرورت خسروی مثال کی پیروی کی ہے۔ اس کے بغیر کچھ ہوسکے گا؟
گزشتہ دنوں کراچی کی انسداد ِ بدعنوانی کی ایک عدالت نے یوسف رضا گیلانی اور مخدوم امین فہیم کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں۔ یہ دونوں پی پی پی کے سرکردہ رہنما ہیں۔ دیکھنا ہے کہ کیا حقیقی کارروائی عمل میں آتی ہے یا یہ معاملہ بھی سیاست کی نذر ہوجاتا ہے۔