بجٹ ہمیشہ طوفان کی طرح آتا ہے اور جاتے ہوئے طوفان جیسے اثرات چھوڑ جاتا ہے۔ بجٹ کو ہندسوں کی بازی گری اور اعداد و شمار کی شاعری کہیں تو زیا دہ بہتر ہو گا۔ اس شاعری اور بازی گری کا حقائق کے ساتھ اگر کوئی تعلق ہوتا بھی ہے تو بس اتنا ہی جتنا دور پار کے کسی رشتہ دار کا ۔۔۔ جونہی کوئی نیابجٹ قومی اسمبلی میں پیش ہوتاہے تو ساتھ ہی دو طرح کے ماہرین کے بیانات ، تقریریں اور تحریریں ہمیں اپنی طرف متوجہ کرنے لگتی ہیں۔ ایک طرف ہمیں اس کے خوفناک اثرات سے ڈرایا جاتا ہے تو دوسری طرف ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اس دنیا میں آج اگرپاکستان کے بیوقوف اور جاہل عوام کا کوئی مخلص، ہمدرد اور دکھ سکھ محسوس کرنے والا ہے تو وہ یہ بجٹ تیار کرنے اور اس کو قومی اسمبلی میں پیش کرنے والے ہیں۔ ''بجٹ کے ماہرین‘‘ اور مخالفین کے شور و غوغا میں ہمیں کچھ لوگ یہ کہتے ہوئے سنائی دیں گے کہ ان حالات میں اس طرح کا متوازی اور دانشمندانہ بجٹ کوئی پیش کر ہی نہیں سکتا تھا۔ یہ سب کچھ کہتے ہوئے ہم عوام جنہیں بجٹ پیش کرنے والے اور اس بجٹ کے بخئے ادھیڑنے والے'' طاقت کا سرچشمہ‘‘ کہہ کر بلاتے اور پکارتے ہیں‘ ان سے بجٹ کے بارے میں کوئی بھی رائے نہیں لے گا۔ اگر ان سے پوچھا جائے کہ ہمیں جو طاقت کا سرچشمہ کہتے ہو تو بجٹ بناتے ہوئے کبھی ہماری بات بھی تو سن لیا کرو تو وہ کہنے لگتے ہیں کہ ہم تمہیں طاقت کا سرچشمہ اس لیے کہتے ہیں کہ تمہارے خون اور ہڈیوں سے ہم نے اس بجٹ کے سارے سال کے خسارے پورے کرنے ہوتے ہیں۔ تم طاقت کے سرچشمے ہوتبھی تو ہم تمہارا خون نچوڑتے ہیں۔ تم میں طاقت ہے تو ہی تمہاری ہڈیوں کی کڑکڑاہٹ اور پسینے سے سال بھر کے اس پیاسے بجٹ کی پیاس بجھائی جاتی ہے۔
ابھی بجٹ پیش بھی نہیں ہوا کہ '' اپو زیشن لیڈر‘‘ خور شید شاہ نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ۔۔۔۔ حکمران بھی آخر انسان ہوتے ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ان کا شمار اشرف المخلوقات میں ہوتا ہے وہ کب تک اس قسم کی بے سروپا اور بے تکی تنقید برداشت کرتے رہیںکیونکہ کسی بھی چیز کی کوئی حد ہوتی ہے۔ اس لئے کبھی کبھی تو طاقت کے ان سر چشموں پر انہیںاس قدر غصہ آنے لگتاہے کہ نہ تو یہ بیوقوف اور جاہل لوگ بجٹ میں دیئے گئے اعداد و شمار کو دیکھتے ہیں اور نہ ہی اس میں بیان کی گئی حالات کی نزاکت اور حکومتی مجبوریوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بس جیسے ہی کسی نے انہیں آواز دی تو نعرے مارتے ہوئے سڑکوں پر آ جاتے ہیں۔ کبھی بجلی تو کبھی پانی اور گیس کے بلوں کے خلاف سڑکوں پر شور مچاتے رہتے ہیں اور مفت میں اپنی توانائیاں ضائع کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ یہ بیوقوف اور کم عقل لوگ شائد نہیں جانتے کہ وہ ہماری حکومت کے وہ سر چشمے ہیں جن سے ہر بجٹ میں ایک نئی نہر نکالی جاتی ہے جس سے اس بجٹ کی سوکھی اور بنجر زمینوں کو حکمرانوں نے سیراب کرنا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے یا وہ لوگ جنہیں بجٹ بنانے والی حکومت کسی وجہ سے گھاس نہیں ڈالتی‘ ان پر اس وقت تو سخت غصہ آتا ہے جب وہ یہ کہتے ہیں کہ اس بجٹ کی حقیقت کا پتہ عوام کو اس وقت لگے گا جب ان کی چادر اور چھوٹی ہو جائے گی۔ اگر یہ اپنے گھٹنے ٹھوڑی کے ساتھ لگا کر سوئیں گے تو بھی چادر ان کا تن ڈھانپنے کیلئے چھوٹی پڑ جائے گی۔ اس طرح کی فضول باتیں کرنے والے کم بخت وہ لوگ ہوتے ہیں جو نہ خود اچھی طرح کھاتے ہیں اور نہ ہی ہمیں پیٹ بھر کر کھاتا ہوا دیکھ سکتے ہیں۔
بجٹ کے اعداد و شمار اور تقریروں پر نکتہ چینی کرنے والے
جب کہتے ہیں کہ یہ بجٹ محض الفاظ کا گورکھ دھندا ہے تو وہ در اصل پاکستانی عوام کی فہم و فراست کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ان عقل کے اندھوں کو شائد علم نہیں کہ۔۔۔۔ اس بجٹ میں جو نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں یا پہلے سے موجود ٹیکسوں کی شرح کو بڑھا یا گیا ہے‘ ان کا بوجھ عوام پر کبھی بھی نہیں پڑے گابلکہ اس کا بوجھ تو رکشا، ٹیکسی، بسوں اور ویگنوں پر پڑے گا اور امیر لوگ جب ان پر سفر کریں گے تو بجٹ میں پٹرول اور ڈیزل کی بڑھنے والی قیمتوں کی وجہ سے زائد کرائے ان امراء سے ہی وصول کئے جائیں گے۔ بجٹ کی وجہ سے اگر سیمنٹ اینٹ یا دوسرا تعمیری سامان مہنگا ہوتا ہے تو اس کا غریب سے کیا تعلق؟ یہ اثر تو مکانات بنانے والوں کیلئے ہے اور مکان ظاہر ہے آج کے دور میں امیر ہی بنا سکتا ہے۔ گوشت ،سبزی ،دودھ اور کپڑا اگر اس بجٹ میں مہنگا ہوتا ہے یا ماں ،باپ ،بہن ،بھائی یا اولاد کی بیماریوں کے علاج کیلئے خریدی جانے والی مہنگی دوائوں اور کئی کئی ٹیسٹوں پر اٹھنے والے اخراجات کیلئے اگر گھر کا سامان بیچا جا رہا ہے تودرست ہے کیونکہ ان غریبوں کے پاس بیچنے کیلئے اور ہے ہی کیا۔
جون 2014ء کابجٹ پیش ہوئے چند روز گزریں گے تو یقینی طور پر کسی کونے میںدیوار سے لگے ہوئے شیروانی اور جناح کیپ پہنے ایک بوڑھا شخص ہمیشہ کی طرح کمزور اور روندھی ہوئی آواز میں کہنا شروع کر دے گا''میرے پاکستانیوں کو جنہیں میں نے یہ آزاد ملک لے کر دیا تھا‘ مظلوم بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ میرے پاکستان کو ہر کوئی نوچ نوچ کر کھا رہا ہے لیکن یہ پھر بھی ابھی مرا نہیں‘ اس کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں۔ اس کی ہلکی ہلکی سی نبض لگتا ہے کہ چل رہی ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ اس کی بوٹیاں نوچنے کے بعد اب کھال بھی ادھیڑی جا رہی ہے اور اس کے ارد گرد بیٹھے ہوئے چمگادڑ اس کا باقی ماندہ خون چوسنے میں لگے ہوئے ہیں۔ لیکن اب بھی اس کے جسم میں کچھ نہ کچھ حرکت ابھی باقی ہے کیونکہ یہ بہت ہی سخت جان واقع ہوا ہے کہ لاکھ کوششوں کے با وجود یہ مرنے کا نام ہی لیتا۔۔۔۔
یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اس بوڑھے کے پیرو کار ہمیں اس بات پر تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں کہ ''طاقت کے سرچشموں‘‘ یعنی عوام کا پیٹ بھرنے کیلئے ہم بھارت سے آلو کیوں در آمد کر رہے ہیں؟ جب انہیں کہا جاتا ہے کہ کم بختو پھر کھائو گے کہاں سے؟ تو یہ کہنا شروع ہو جاتے ہیں کہ دیکھو دھیان کرو بھارت جو آلو دے رہا ہے وہ کوئی مفت میں تو نہیں دے رہا نا۔۔۔۔ پیسے بھی جی بھر کے لے رہا ہے لیکن آلو کاٹنے والی چھری اس نے اپنی بغل میں ہی رکھی ہوئی ہے...!