چودھری برادران اور پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری کوایک ساتھ لندن میں دیکھ کر نون لیگ کی حکومت کا ماتھا ٹھنکنا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چودھری پرویزالٰہی اورچودھری شجاعت حسین نے اپنے '' سپیشل مٹی پائو پروگرام‘‘کے تحت قوم کو ایک بار پھر گرینڈالائنس کی خوشخبری سنائی ہے۔
وطن عزیزمیں دوقسم کے سیاسی اتحاد معرض ِوجود میں آتے رہے ہیں۔اول، آمروںکے خلاف جمہوری اتحاد اوردوم جمہوریتوںکے خلاف آمروںکی پروردہ سیاسی جماعتوںکے اتحاد۔ جمعے کی شام لندن میںگرینڈالائنس کے ٹریلر یا پرومو کو دیکھ کراندازہ ہواکہ ایک نیا اتحاد معرض ِوجود میں لایاجایا جا رہا ہے۔ ہمارے ہاں یہ رواج رہاہے کہ دریائوں اور چھوٹے موٹے ندی نالوں کو اکٹھا کرکے 'سمندر‘ بنایا جاتاہے اورپھر اس کے جوار بھاٹوں سے جمہوریت کی کشتی کو ڈبو دیا جاتا ہے۔ اندرونی طور پرتوکہانی یہی ہوتی ہے مگر اسے 'حب الوطنی‘ ، 'قومی سلامتی‘ اور 'سیاست نہیں ریاست بچائو‘ جیسے خوش آہنگ انقلابی عنوانات دیے جاتے ہیں۔ایسے مواقع پراحمدندیم قاسمی کا شعری خیال اکثر مستعارلیاجاتاہے جس میں دریائوں کے سمندر میں اتر جانے کی کہانی بیان کی گئی ہے:
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مرجائوں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جائو ں گا
حیرت انگیز امر یہ ہے کہ حب الوطنی اورریاست بچانے کے لئے جتنے بھی اتحاد بنائے گئے ان کی ''پیکنگ‘‘ کو مذہب کے مختلف رنگ دیے جاتے رہے جبکہ آمروں کے خلاف بنائے گئے اتحادوں کے پلیٹ فارم سے عوام کے بنیادی حقوق کی بات کی جاتی رہی ۔ 2 جنوری 1965ء کو ہونے والا صدارتی انتخاب فیلڈ مارشل ایوب خان اورمحترمہ فاطمہ جناح کے مابین لڑا گیاتھا۔ حزب ِمخالف کی پانچ جماعتوںکی امیدوار مادرملت فاطمہ جناح کی طرف سے مطالبہ کیاگیاتھاکہ بیسک ڈیموکریٹک ممبرز جنہیں اس زمانے میں( بی ڈی ممبر ز) کہاجاتاتھا،کے بجائے براہ راست عوام کو ووٹ کا حق دیاجائے۔ اس کے علاوہ مادر ِملت عورتوں کے لئے بھی ووٹ کا حق مانگ رہی تھیں مگر فیلڈمارشل کی حکومت کی طرف سے دونوں مطالبات کو نامنظورکرتے ہوئے میدان مارلیاگیا۔ یہ وہ موقع تھاجب انتخابات اوران کے نتائج کواپنے حق میں کرنے کے لئے دھاندلی 'ایجاد‘ کی گئی تھی۔ الیکشن جیتنے کے لئے ایوب خان نے اپنے تمام اختیارات استعمال کئے، بیوروکریسی اوراس وقت کے کاروباری طبقے نے کھل کرجرنیل کا ساتھ دیااورمادر ملت کوان ہتھکنڈوں سے ہرادیاگیا۔ فوجی حکمران کے ہوتے ہوئے اس وقت کے ذہین مدیرظہور عالم شہید نے اس دھاندلی زدہ جیت کا اعلان یوںکیاتھا : ''الیکشن کمیشن نے ایوب خان کوکامیاب قراردے دیا‘‘۔
ایوب خان کے دھاندلی زدہ انتخابات کے لگ بھگ 5سال بعد جب شفاف انتخابات کرانے پڑے تو بنگالیوں نے ہم سے علیحدگی اختیارکرتے ہوئے اپنا الگ ملک بنگلہ دیش بنالیا۔ ایوب خان ایک حقیقی عوامی تحریک کے نتیجے میں اپنے عہدے سے علیحدہ ہوئے مگر جاتے ہوئے اقتدار جنرل آغا محمد یحییٰ خان کے حوالے کرگئے۔ جنرل یحییٰ نے 25مارچ 1969ء کو اقتدار سنبھالااور 20دسمبر 1971ء تک اقتدار سے چمٹے رہے،یہاں تک کہ مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش بن گیا۔جنرل یحییٰ نے اپنے دورِحکومت میں جوکچھ کیا اس کے سامنے عشرت کی ہزارداستان معمولی قصہ کہانی لگتی ہے۔ حمودالرحمان کمیشن رپورٹ کے صفحہ 342 پر درج ہے: ''مشرقی اورمغربی پاکستان کے درمیان سیاسی تصفیے کا آغاز سربراہان مملکت کی بے لگام خواہشِ اقتدار اورمفاد پرست سیاستدانوں کی سازشوں کے لازمی نتیجے کے طور پرہوا جو فیلڈ مارشل ایوب خان کے مارشل لاء کے زمانے میں اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا۔ مشرقی پاکستان کے عوام میں یہ احساس عام ہوچکا تھاکہ جب تک ملک میں فوجی حکومت موجود رہے گی مشرقی پاکستان ملکی امورومعاملات میں شرکت سے محروم رہے گا۔ 6 نکاتی پروگرام جو پہلی مرتبہ جنوری 1966ء میں منظر عام پر آیا، دراصل علیحدگی کامطالبہ تھا؛ تاہم اس کے باجود یحییٰ حکومت ہوس اقتدار میں مبتلا ہوکر اسی احمقانہ سوچ میں مبتلا رہی کہ سخت قسم کے فوجی ایکشن کے ذریعے مشرقی پاکستان کے عوام کو جھکنے پر مجبورکیا جاسکتا ہے۔ بہرحال، جس طریقے اورانداز سے فوجی ایکشن کیاگیا وہ نہ صرف انتہائی غیر اخلاقی تھابلکہ سیاسی فہم وفراست سے بھی قطعاً عاری تھا ‘‘۔
حمودالرحمان کمیشن رپورٹ میں بیان کردیاگیاہے کہ کس طرح آمروں نے مفاد پرست سیاستدانوں کی ملی بھگت سے ملک کے مقدر میں اندھیرے بھرے ،آئین کو پامال کیا اور ہوس اقتدارکو
طول دے کر ملک اورریاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا مگر افسوس کہ اس سبق آموز رپورٹ کو منظر عام پر نہیں لایاگیا۔ آئین شکنی کے بعد قانون کے کٹہرے سے بچ نکلنے کی روایات ایک ساتھ پنپتی رہیں۔1947ء میں پاکستان معرض وجود میں آیا۔ اپنی سلور جوبلی مکمل کرنے سے قبل ہی دسمبر 71ء میں بنگالی ہم سے علیحدہ ہوگئے جنہوں نے مسلم لیگ قائم کی تھی اورسب سے پہلے پاکستان کے قیام کا نعرہ بلندکیاتھا۔ بنگالیوں نے جب اپنے حقوق مانگے تو غدارکہہ کرانہیں علیحدگی پر مجبورکردیا گیا ۔ آج 43 سال بعد ہم پھر اپنی منتخب قیادت کو غیر محب وطن قرار دے رہے ہیں۔ لاہور سے لندن میں براجمان ہونے والے چودھری برادران اورکینیڈا سے لندن لنگر انداز ہونے والے قادری صاحب نے قومی سلامتی کے سُروں میں سُر ملاتے ہوئے کہا: ''وہ وقت آگیا ہے جب ملک کی تمام محب وطن جماعتیں غیر محب وطن حکومت کے خلاف متحدہوجائیں‘‘۔ لندن سے ''دنیا نیوز‘‘ کے نمائندہ اظہرجاوید نے کہاہے کہ لندن میں بیٹھے لوگوں کا ایجنڈا نون لیگ کی حکومت کوگرانا ہے۔ یہ لوگ لندن میں موجود ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین اورعمران خان سے رابطے میں ہیں۔ دکھائی دے رہاہے کہ نون لیگ کی حکومت کے خلاف کوئی گرینڈالائنس بننے والا ہے۔
ماناکہ نون لیگ کی حکومت یا میاں برادران کا دور نوشیرواں عادل کا زمانہ نہیں ، لیکن اتنا سمجھ لینا چاہیے کہ گرینڈالائنس اورآئی جے آئیاں بنانے والوں کا ایجنڈا عوام کا سکھ چین ہرگز نہیں ہے۔ لیاقت علی خان سے لے کرذوالفقارعلی بھٹواورپھرمحترمہ بے نظیر بھٹو شہید سے لے کر میاں نوازشریف تک کی حکومتوںکے دھڑن تختے سے عوام کو بربادکیاگیا۔ صدرجنرل محمد ضیاء الحق کواپنے ہاتھوں سے' مینوفیکچر‘ کیا گیا وزیر اعظم محمد خان جونیجو پسند نہ آیاکیونکہ جب جونیجو نے عوام کے دکھ محسوس کرتے ہوئے سچ مچ کا وزیر اعظم بننا چاہاتواسمبلی توڑکر ایک بار پھر غیر سیاسی انتخابات اورقومی سلامتی کے نام پر جمہوریت کا جھٹکاکردیاگیا۔
ذاتی طور پر میں نوازشریف کو مائوزے تنگ،نیلسن مینڈیلا اور قائد اعظم ؒ کے پائے کا لیڈر ہرگزقرار نہیں دیتا، لیکن میاں صاحب کی حب الوطنی پر شک بھی نہیںکرتا۔ چودھری برادران، پروفیسر قادری،ایم کیوایم اورعمران خان کو حکومت کے خلاف اتحاد ضرور بناناچاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ خیال بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ محترمہ اورنوازشریف کی چارحکومتوں کے دھڑن تختوں اور چارانتخابات سے وطن عزیزکے مسکین عوام کے ہاتھ کچھ نہیں آیا تھا۔کوئی بھی حکومت اپنی ٹرم کے 'شارٹ کورس‘ سے عوام کی بھلائی کا کارنامہ انجام نہیں دے سکتی۔ چودھری پرویزالٰہی بالترتیب سپیکر، وزیر اعلیٰ پنجاب اور 'چھوٹا‘ وزیر اعظم تعینات رہ چکے ہیں۔ چودھری شجاعت نے بھی'حلالہ وزیر اعظم‘ کے طور پر اپنی سیاسی ازدواجی زندگی انجوائے کررکھی ہے۔ شیخ رشید نے اپنے کیرئیر میں وزارتوںکی ڈبل ہیٹرک مکمل کی ہوئی ہے‘ لہٰذا اب انہیں 'نروان‘ لے لینا چاہیے۔ باقی بچے عمران خان، انہیں اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے ایمانداری سے اپوزیشن کا بھرپورکردار ادا کرتے رہناچاہیے۔ اگر عمران خان چاہتے ہیںکہ قوم ان کی کوششوںکو خالص اورایماندارانہ خیال کرے تو پھروہ دودھ اورشہد سے بنی اپنی خالص کھیرکو'اتحادی مکھیوں‘ سے محفوظ رکھیں۔ انہیں عوامی خدمت کا موقع ضرور ملے گا۔۔۔۔ کپتان کو اپنی باری کا انتظار کرناچاہیے۔