خلیل مامون کی ادارت میں شائع ہونے والے کوئی ساڑھے چھ سو صفحات کو محیط اس رسالے کا یہ دوسرا شمارہ ہے۔ اس پر تفصیلی بات بعد میں ہوگی فی الحال ریکارڈ کی درستی کے لیے ایک مغالطہ رفع کرنا ضروری ہے۔ اس جریدے میں میرا گوشہ بھی لگا یا گیا ہے جس میں سب سے پہلے میرا انٹرویو ہے جو ریاض ہانس نے لیا تھا۔ اس کے آخر سے پہلے جو دو تین جملے سید وقار حسین اور شمس الرحمن فاروقی کے حوالے سے واوین میں درج کیے گئے ہیں‘ وہ میرا نہیں بلکہ ڈاکٹر شمیم حنفی کا بیان ہے جو انہوں نے پچھلے سال اپنے قیامِ کراچی کے دوران ایک نشست میں دیا تھا جس میں میرے اور ان کے علاوہ انتظار حسین اور مبین مرزا بھی موجود تھے۔
یہ انٹرویو تو میں دے چکا تھا لیکن بعد میں فاروقی صاحب نے اپنے خبرنامۂ شب خون میں یہ لکھ دیا کہ انہوں نے یہ بات کبھی کہی ہے نہ لکھی ہے اور نہ وہ ایسا سمجھتے ہیں۔ اسی دوران میں نے ان کی کتاب ''لفظ و معنی‘‘ جس کا حوالہ حنفی صاحب نے دیا تھا‘ منگوا کر دیکھی تو اس میں واقعی ایسی کوئی بات نہیں تھی، ماسوائے کچھ دیگر انداز سے لکھے گئے میرے بارے میں کچھ تعریفی جملوں کے ۔میں نے حنفی صاحب کو فون کر کے اس کی وضاحت چاہی تو انہوں نے بتایا کہ سید وقار حسین کے حوالے سے جو بات میں نے کہی تھی وہ تو مجھے اچھی طرح سے یاد ہے البتہ یہ مجھے یاد نہیں ہے کہ میں نے کہا تھا ۔ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ وہ عمرے پر جا رہے ہیں اور واپسی پر سید صاحب کا مضمون بھی تلاش کر کے مجھے بھجوائیں گے۔ میں نے بعد میں لکھا کہ وہ ایک نیک سفر پر جا رہے ہیں‘ ہو سکتا ہے ان کی یادداشت لوٹ آئے۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ جب میں نے سید صاحب کا مضمون منگوا کر دیکھا تو اس میں بھی وہ بات موجود نہ تھی جو حنفی صاحب نے بیان کی تھی! اگر اصلیت کا پتہ مجھے پہلے چل جاتا تو میں انٹرویو میں اس کا ذکر ہرگز نہ کرتا۔
جہاں تک فاروقی صاحب کے بیان کا تعلق ہے تو یہ محض کسی کی اڑائی ہوئی ہوائی نہیں تھی بلکہ یوں تھا کہ دہلی سے محمد صلاح الدین پرویز کی ادارت میں شائع ہونے والے جریدے ''استعارہ‘‘ کے پہلے شمارے ہی میں زینب علی نامی کسی خاتون کا مضمون شائع ہوا تھا جو آغاز ہی اس جملہ سے ہوا تھا کہ کیسا زمانہ آ گیا ہے۔ ظفر اقبال کو غالب سے بڑا شاعر قرار دیا جا رہا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ بھارت جیسے ملک میں جہاں غالب کو ایک عقیدے کی حیثیت حاصل ہو چکی ہو‘ کوئی بے سروپا بات تو شائع نہیں ہو سکتی۔ اور یہ وہ زمانہ تھا جب فاروقی اپنی تحریروں میں میری تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملایا کرتے تھے۔ مجھ پر ایک اردو اور ایک انگریزی زبان میں تعریفی مضمون لکھنے کے علاوہ اپنی مشہورِ زمانہ تصنیف ''شعر شور انگیز‘‘ کی چاروں جلدوں میں میرؔ کے ساتھ ساتھ میرے شعر بھی جگہ جگہ ٹانک رکھے تھے۔ اب ظاہر ہے کہ اتنی بڑی اور ''خطرناک‘‘ بات موصوف کے علاوہ اور تو کوئی کہہ ہی نہ سکتا تھا۔ پھر اس شبے کو تقویت اس بات سے بھی ملتی ہے کہ اس کا نوٹس ''استعارہ‘‘ میں لیا گیا جس کے پیچھے ذہنِ ناطق کے طور پر گوپی چند جیسی ہستی موجود تھی اور یہ بات کس کو معلوم نہیں کہ فاروقی اور نارنگ بہت عرصے سے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے چلے آ رہے تھے‘ اور ماشاء اللہ اب تک ہیں۔ اس لیے اگر یہ بات واقعی فاروقی نے کہی تھی تو وہاں اس کا نوٹس لیا جانا ویسے بھی بے حد ضروری تھا۔ اگرچہ بہت بعد میں آ کر میری ایک مسئلے پر ناراضی کی وجہ سے ہم دونوں کے درمیان مکمل مقاطعہ رہا اور دو سال تک میں نے شب خون کو کوئی چیز نہیں بھیجی۔
ایک اور دلچسپ واقعہ جو کچھ اتنا غیر متعلق بھی نہیں ہے۔ جب صدر جنرل پرویز مشرف بھارتی وزیراعظم کے ساتھ مذاکرات کے لیے آگرہ گئے تو چند صحافیوں کو بھی ساتھ لے گئے تھے جن میں عبدالقادر حسن کے علاوہ میرا بیٹا آفتاب اقبال بھی شامل تھا۔ ان دنوں معلوم ہوا تھا کہ فاروقی کی طبیعت قدرے زیادہ ہی ناساز رہتی ہے تو میں نے اس سے کہا کہ فاروقی سے فون کر کے ان کی خیریت ضرور دریافت کر لیں۔ ویسے بھی میرے اور ان کے تعلقات اس وقت تک بحال ہو چکے تھے۔ آفتاب نے آ کر بتایا کہ جب اس نے فاروقی صاحب سے فون ملایا تو اسے شرارت سوجھی اور اس نے کہا کہ کیا آپ ظفر اقبال کو جانتے ہیں؟ فاروقی اس پر لمحہ بھر کے لیے خاموش رہے اور پھر بولے کہ بھائی‘ ظفر اقبال کو کون نہیں جانتا‘ اور آپ کون ہیں؟ جس پر آفتاب نے اپنا تعارف کرایا تو کہنے لگے‘ آفتاب‘ یہاں تم نے کسی کو نہیں بتانا کہ تم ظفر اقبال کے بیٹے ہو‘ لوگ تمہاری بوٹیاں نوچ لیں گے۔ کوئی کہے گا میرے ساتھ کھانا کھائو‘ کوئی مووی دیکھنے کے لیے ساتھ چلنے کو کہے گا اور کوئی سیر سپاٹے کے لیے‘ پھر کہا کہ میرؔ کے بعد ظفر ا قبال ہیں اور جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ 35 سال سے ظفر اقبال کے رنگ میں ہی غزل کہنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یہ بات بطور خاص نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ موصوف نے بیچ میں سے غالبؔ اور اقبالؔ سمیت سارے ہی صاف کر دیئے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ ان کا خاص انداز تھا اور جوش جذبات میں وہ کچھ بھی کہہ جانے پر قادر تھے۔ علاوہ ازیں میرے پاس مُشفق خواجہ (مرحوم) کا اُن کے لیٹر پیڈ پر لکھا ہوا ایک خط موجود ہے جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ شمس الرحمن فاروقی نے آپ کو غالب سے بڑا شاعر قرار دیا ہے جس سے میں اتفاق نہیں کرتا۔ اب لطف یہ ہے کہ میرے یہ دونوں گواہ مشکوک ہو گئے۔ ایک کا تو انتقال ہو گیا اور دوسرا میرا بیٹا ہے جس کی گواہی کو غیر جانبدار خیال نہیں کیا جا سکتا‘ حالانکہ میں اپنی قسم تو نہیں دیتا‘ میرا بیٹا کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔
چنانچہ یہ ہے وہ سارا پس منظر جس میں اس معاملے کا آغاز ہوا۔ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اگر فاروقی نے یہ بات کہی بھی ہو تو بھی میں غالب سے بڑا نہیں ہو سکتا بلکہ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ میں غالب کی خاکِ پا کے برابر بھی ہوں یا نہیں۔ دوسرے یہ کہ صاف مُکر جانے کی بجائے فاروقی یہ کہہ سکتے کہ کبھی میرا یہ خیال ضرور تھا لیکن اب میں ایسا نہیں سمجھتا‘ کیونکہ ہر شخص کو اپنے بیان سے رجوع کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ اس کے بعد لاہور اور جدہ میں فاروقی سے میری ملاقات بھی ہوئی لیکن میں نے اس کی تصدیق نہیں چاہی کیونکہ یہ بات بجائے خود اتنی معتبر نہ تھی‘ البتہ اصل تنازع تب شروع ہوا جب میں نے ایک بار کہیں اس کا ذکر کردیا تو ہمارے بزرگ دوست انتظار حسین نے یہ بات پلے ہی باندھ لی اور جگہ جگہ بتکرار یہ کہنا شروع کردیا کہ شمس الرحمن فاروقی نے ظفر اقبال کو غالب سے بڑا قرار دیا تو ظفر اقبال کا ہاضمہ اتنا تیز تھا کہ وہ اسے ہضم کر گیا۔ چنانچہ مجھے اس معاملے پر ایک وضاحتی مضمون لکھنا پڑا جو چند برس پہلے ''دنیا زاد‘‘ میں شائع ہوا جہاں فاروقی خود بھی شائع ہوتے ہیں لیکن تب بھی انہوں نے اس کی وضاحت کرنا مناسب نہ سمجھا۔ چنانچہ اس مسئلے پر انتظار حسین سمیت ہماری چھیڑ چھاڑ جاری رہتی ہے لیکن کچھ لوگوں نے اسے سنجیدگی ہی سے لینا شروع کردیا... خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را۔
آج کا مطلع
خاص ہونا بھی ہمارا عام رہ جانے سے ہے
پختگی ساری یہ اپنے خام رہ جانے سے ہے