بسنت گزر گئی مگر بیانوں اور پیش گوئیوں کی گڈیاں اب اونچی اڑ رہی ہیں۔ کلیوں کے چٹکنے اور پھول بننے کا موسم کیا بیتا کہ بیانات کے شگوفے چھوڑنے اور پیش گوئیوں کے ذریعے گل کھلانے کی رُت آ دھمکی۔ قیاس کے گھوڑے دوڑانے والے یہ بھی نہیں دیکھ رہے کہ میدان چھوٹے پڑتے رہے ہیں۔
اسلام آباد کا موسم شاید کھچڑی پکانے کے لیے سازگار نہیں اِس لیے یاروں نے لندن پہنچ کر شب دیگ چڑھا دی ہے۔ کینیڈا والے ڈاکٹر طاہرالقادری اور گجرات والے چودھری برادران نے ولایت میں ڈیرا ڈال کر حکومت مخالف اتحاد کی بنیاد ڈالی ہے۔
لال حویلی فیم شیخ رشید فرماتے ہیں کہ اِس بار قربانی عیدالاضحیٰ سے قبل ہوگی۔ ہم اُن کے مَدّاح سہی مگر اختلاف کا حق تو رکھتے ہیں۔ شیخ صاحب میں شاید اگلے وقتوں کی تھوڑی سی مَروّت باقی ہے اِس لیے قربانی اور ذبیحے کی بات کر رہے ہیں، ورنہ سچ تو یہ ہے کہ ذبیحے والی عید سے قبل جَھٹکے کی تیاری کی جارہی ہے۔
حکومت کے مشکل میں ہونے کا سب سے توانا اشارا مولانا فضل الرحمن نے دیا ہے۔ مولانا کو اللہ نے خطرے کی بُو سُونگھنے کی غیر معمولی صلاحیت عطا فرمائی ہے۔ جب بھی کوئی حکومت جانے والی ہوتی ہے یا خطرے میں پڑچکی ہوتی ہے تب سب سے پہلے فضل الرحمن اُس سے الگ ہوتے ہیں۔ فضل الرحمن اِس مرحلے سے گزر چکے ہیں۔ ؎
یہ اِک اشارا ہے آفاتِ ناگہانی کا
کسی جگہ سے پرندوں کا کوچ کر جانا!
لندن میں طاہرالقادری اور چودھری برادران کا مل بیٹھنا بہت خطرناک نہ ہو تب بھی تشویشناک تو ہے ہی۔ جنوری 2013ء میں بھی طاہرالقادری خاصی تیاری کے ساتھ کینیڈا سے تشریف لائے تھے اور اپنے مُریدوں اور مَدّاحوں کو درشن دینے کے ساتھ ساتھ حکومت کو پریشانی کے درشن کرائے تھے۔ وہ شاید اب اُس درشن کی دوسری قسط پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اسلام آباد کے یخ بستہ موسم میں طاہرالقادری اینڈ کمپنی نے جو شب دیگ تیار کی تھی اُس میں کئی آنچوں کی کسر رہ گئی تھی۔ طاہرالقادری تو کنٹینر میں بیٹھ کر کافی پیتے ہوئے ہدایات دیتے رہے اور جسم میں سُوئی کی طرح چُبھنے والی اسلام آبادی سردی سہتے ہوئے اُن کے کارکنوں اور مُریدوں نے شب دیگ تیار کی مگر اُن کی محنت اکارت گئی کیونکہ کھانے والوں کو خاک برابر بھی ذائقہ محسوس نہ ہوا۔ قوم ایسی گئی گزری بھی نہیں کہ سامنے کی بات نہ سمجھ سکے۔ جاننے والے جان گئے کہ وہ ٹوپی ڈرامہ تھا۔اب ڈاکٹر صاحب جُھلسانے اور پگھلانے والی گرمی میں اپنے چاہنے والوں کے جذبوں کی گرمی آزمانا چاہتے ہیں!
عمران خان کو اِس ڈرامے میں قَصّاب کا کردار ادا کرنا تھا مگر ہائے ری کم نصیبی کہ اُن کا تو اپنا جَھٹکا ہوچکا ہے۔ اور وہ بھی کُند چُھری سے! نہایت باریکی اور ہوشیاری سے اُنہیں ٹرک کی بَتّی کے پیچھے لگادیا گیا ہے۔ ایک طرف تو وہ چار نشستوں پر دھاندلی کا ڈھول پیٹ رہے ہیں اور دوسری طرف ایک میڈیا گروپ کے پیچھے ہاتھ دھوئے بغیر پڑے ہوئے ہیں۔ یاروں نے اُنہیں میڈیا کے ہوش ٹھکانے لگانے کا ٹاسک سونپا ہے۔
دھاندلی کے راگ میں ڈھول پیٹنے کی سرگم بھی شامل ہوگئی ہے۔ معاملہ اگرچہ ایسا ہے کہ مزا دو آتشہ ہوکر رہے مگر عمران خان کے لیے عجیب الجھن پیدا ہوئی ہے۔ عمران دو پاٹن کے بیچ میں پھنسے ہیں۔ شیخ رشید اور اُنہی کے قبیل کے دیگر افراد نے تحریک انصاف کے چیئرمین کو مخالفت کے قطب مینار پر چڑھاکر سیڑھی ہٹالی ہے۔ عمران خان کے ذہن میں اُن کے نام نہاد خیر خواہوں اور پرستاروں نے بہت پہلے سے یہ بات بٹھا رکھی ہے کہ نظام بدلنا ہے تو اُنہیں بدلنا ہے اور اگر نیا پاکستان بنانا ہے تو اُنہی کو بنانا ہے۔ نئے پاکستان کے چکر میں ہم پُرانے عمران سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں! تحریک انصاف کو خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے کا موقع ملا مگر عمران کو غیر متعلق معاملات میں ایسا الجھایا گیا کہ اب وہ اپنے حصے کی حکومت پر دھیان دینے کے قابل ہی نہیں رہے۔
جس حکومت کے ذبیحے کی بات ہو رہی ہے اُس کی مخالفت پر کمر کَس کے بہت سوں نے کم از کم اپنا جَھٹکا تو یقینی بنالیا ہے۔ پارلیمنٹ میں طاہرالقادری ہیں نہ اُن کی جماعت۔ سیاسی افق پر اُن کی پوزیشن کسی بھی نوع کے سِِتارے کی سی نہیں۔ ہاں، وہ بہت حد تک بلیک ہول سے تعبیر کئے جاسکتے ہیں جس کی طرف شکست خوردہ عناصر زیادہ کھنچتے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ چودھری برادران سیاسی اعتبار سے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی سَکت تو رکھتے ہی ہیں، پھر کیوں طاہرالقادری کا سہارا لینے پر آمادہ ہیں؟ شیخ رشید پارلیمنٹ میں ایک نشست رکھتے ہیں۔ ایک نشست سے وہ کیا کرسکتے ہیں، اِس کا اندازہ کوئی بھی لگا سکتا ہے۔ عید الاضحیٰ سے قبل جھٹکے کی بات کی جارہی ہے۔ اُس سے بہت پہلے یعنی چند دنوں کے بعد شب برأت بھی ہے۔ مقبول عقیدہ ہے کہ اِس مبارک شب کے دوران بہت سے فیصلے ہوتے ہیں، زندگی کے پَتّے جَھڑتے ہیں۔ اب یہ تو اللہ جانے کہ اگر واقعی پَتّے جَھڑتے ہیں تو اب کے شب برأت میں سیاسی پیڑ سے کِس کِس کے پَتّے جَھڑیں گے۔
رمضان سے قبل ہی میڈیا کو چُپ کا روزہ رکھنے کا پیغام دیا جارہا ہے۔ اہم ترین ریاستی اداروں کے درمیان کشیدگی اور تناؤ کو دیکھتے ہوئے اور اِس معاملے میں میڈیا کے کردار کا جائزہ لینے سے خیال آتا ہے کہ اب میڈیا کو بھی بولنے اور بہت (یعنی غیر متعلق اور بلا جواز) بولنے کا فرق سمجھنا ہوگا۔ ریاستی اداروں اور میڈیا کی لڑائی کا جو بھی نتیجہ برآمد ہوگا وہ بھگتنا عوام کو ہے۔ وہ بے چارے ''ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم‘‘ کی تصویر بنے یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ وہ اِس بات سے کچھ غرض نہیں رکھتے حکومت کے گلے پر چُھری کون اور کیوں پھیر رہا ہے۔ اُنہیں تو بس اُس دن کا انتظار ہے جب اُن کے بُنیادی مسائل کا جَھٹکا ہوگا اور وہ سُکون کا سانس لینے کے قابل ہوسکیں گے۔ اور کِسے خبر کہ اُس دن کے آنے تک عوام ہوں گے بھی یا نہیں!