آج کا بنگلہ دیش کیا ایک آزاد حکومت اور کلی طور پر خود مختار مملکت کے طور پر کام کر رہا ہے؟کیا بنگلہ دیشی عوام اپنی قسمت کے فیصلے کرنے میں خود مختار ہیں؟۔ کیا بنگلہ دیشی عوام اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ ان کے اور بھارت کے درمیان بہنے والے54 دریائوں کے ان کے وسائل اور حقوق کوبھارت سرکار ایک ایک کر کے غصب کررہی ہے ؟ کیا بنگلہ دیشی عوام اس حقیقت سے با خبر ہیں کہ صرف دریائے ٹیسٹا کو خشک کرتے ہوئے ان کا آقا نما دشمن ان کی 309کلومیٹر پر محیط زراعت کو ان سے اچکنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے؟۔اگر بنگلہ دیشی عوام سو گئے ہیں تو کیا وہ اس وقت جاگیں گے جب'' چڑیاںدھان اور پٹ سن کے سب کھیت اور ان کے با غات کو چن کر اڑ جائیں گی‘‘؟۔ عالمی ماہرین حیرت سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا بنگلہ دیش نے اپنے عوام اور ان کی آنے والی نسلوں کو بھوک کے جبڑوں میں پھینکنے کیلئے دریائے ٹیسٹا کا پانی بھارت کو ''دان‘‘ کردیا ہے؟ وہ پانی جو بنگلہ دیشی عوام کی زندگی ہے‘ وہ پانی جو بنگلہ دیشی عوام کی جھیلوں اور ندی نالوں کی خوبصورتی ہے‘ اسے ان سے کون اور کیوں چھین کر کہیں اور لے جا رہا ہے؟کیا بنگلہ دیشی عوام کبھی عوامی لیگ کی سربراہ حسینہ واجد سے پوچھنے کی کوشش کریںگے کہ محترمہ جب آپ ستمبر2011ء میں بھارت کے وزیر اعظم من موہن سنگھ کے ساتھ طے پا جانے والا دریائے ٹیسٹا کے پانی کا معاہدہ کرنے لگی تھیں تو بھارت نے یک لخت یہ معاہدہ کرنے سے انکار کیوں کیا؟ پھر جب مئی2012ء میں بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ دیپو مونی بھارت کے ایس ایم کرشنا سے اس مسئلے پر بات کرنے گئے
تو خالی ہاتھ کیوں آئے۔ حسینہ واجد اپنے عوام کو بیوقوف بنانے کیلئے کہتی ہیں کہ بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینر جی نے مرکزی حکومت کو یہ معاہدہ کرنے سے روک دیا ہے؟ بنگلہ دیشی عوام اگر حسینہ کی سنگینوں اور گولیوں سے خوف زدہ ہیں تو وہ عالمی عائے عامہ کی اس بات کو کیسے جھٹلائیں گے کہ دو ملکوں کے درمیان ہونے والے کسی بھی معاہدے کی تیاری کئی ماہ پہلے شروع ہو جاتی ہے او ر اس پر تمام متاثرہ فریقین کی رضامندی اور صلاح مشورے کے بعد کسی بھی دوسری حکومت سے معاہدے کرنے کی تاریخ اور وقت طے کیا جاتا ہے۔ اگر تین سال قبل ممتا بینر جی کا اعتراض تھا تو وہ اب تک دور کیوں نہیںکیا گیا؟ اور بنگلہ دیشی عوام کے حقوق کی ترجمان ہونے کے ناتے آپ اس پر ابھی تک خاموش کیوں ہیں؟ بھارت کے حکم پر حسینہ واجد پاکستان سے ہمدردی رکھنے والوں کو تو ایک ایک کر کے پھانسی کے تختے پر کھینچے جا رہی ہیں تو وہ بھارت سے اپنے عوام کی زندگیاں بچانے کیلئے اپنے ہی پانی کے چند گھونٹ مانگتے ہوئے کیوں گھبرا جاتی ہیں؟ بنگلہ دیشی عوام کب پوچھیں گے کہ محترمہ حسینہ واجد صاحبہ! آپ ہماری وزیر اعظم ہیں‘ آپ کے سامنے بھارت اگر آپ کو خارجہ پالیسی پر، داخلی معاملات پر، تجارتی تعلقات پر دبائو ڈال کر اپنی مرضی کے فیصلے کروا رہا ہے تو آپ اس سے اتنی سی گزارش کرنے کی جرأت کیوں نہیں رکھتیں کہ حضور والا‘ ان سب کے بدلے میں بنگلہ دیش کو اس کے حصے کا ہی تھوڑا سا پانی کیوں نہیں ملتا۔
آپ پاکستان کی ایجنسیوں پر تو الزام لگا دیتی ہیں کہ وہ عوامی لیگ کی مخالف جماعتوں کو سپورٹ کرتی ہیں پھر ان سے یہ سوال بھی کیا جا سکتا ہے کہ محترمہ کیا بھارتی حکومت کو بھی یہ ایجنسیاں مجبور کر رہی ہیں کہ وہ بنگلہ دیشیوں کا پانی بند کر دے؟ کیا یہ بھارت پر دبائو ڈال کر بنگلہ دیش کی تجارت کو بھی کنٹرول کر رہی ہیں؟ بنگلہ دیشی عوام جو بھارت کی جانب سے کئے جانے والے اس سلوک کے تباہ کن اثرات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کیسے بھول جائیں کہ بنگلہ دیش کے شمالی علاقے میں دریائے ٹیسٹا سے نکلنے والی20 tributaries اب تقریباً خشک ہونے کے قریب پہنچ چکی ہیں۔ ماحولیات کے ماہرین وزیر اعظم بنگلہ دیش حسینہ واجد کو بار بار خبردار کر رہے ہیں کہ بنگلہ دیش کے پانیوں کے بہائو میں کمی ہوجانے کی وجہ سے ان کے دریائوں میںSilt بڑھتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے مقامی کاشتکاروں کی فصلیں اور ان کے پھلوں کے با غات پر انتہائی برا اثر پڑ رہا ہے۔ کیا بنگلہ دیش اور دنیا بھر کے آبی ماہرین کی لکھی جانے والی یہ سب رپورٹس حسینہ واجد کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی نہیں؟ کیا وہ بنگلہ دیش کو وارننگ نہیں دے رہے کہ اگر بھارت کو پانی کا بہائو بند کرنے سے روکا نہ گیا تو اگلے دس سالوں میں بنگلہ دیش کے دریائوں کی صورت حال وہی ہو جائے گی جو ا س وقت پاکستان کے راوی، ستلج اور بیاس کی ہو چکی ہے ۔عوامی لیگ تو بھارت کی نا راضگی کے ڈر سے خاموش بیٹھی ہے لیکن بنگلہ دیش کی کسان تنظیمیں بھارت کی طرف سے زبردستی اور غنڈہ گردی سے ان کے پانی کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے خلاف شدید احتجاج کرنے پر مجبور ہو چکی ہیں۔ بنگلہ دیش کمیونسٹ پارٹی اور بنگلہ دیش سماج تانترک دل نے مشترکہ طور پر22 اپریل کو جاتیہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی ریلی نکالنے کے بعد ٹیسٹا بیراج تک تین روزہ لانگ مارچ کیا۔ ان کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنل پارٹی نے بائیس اپریل کو رنگ پورہ سے دریائے ٹیسٹا بیراج تک دو روزہ لانگ مارچ کر تے ہوئے بنگلہ دیش کو ٹیسٹا سے اس کا مقررہ پانی نہ دینے پر شدید احتجاج کرتے ہوئے اسے حکومت کی نا اہلی اور بھارت سے ملی بھگت قرار دیا ۔
آج اگر بنگلہ دیش کی داخلہ خارجہ، سیا سی ،سماجی اور تجارتی پالیسیوں کی طرف دیکھیں تو لگتا ہی نہیں کہ بنگلہ دیش میں کوئی آزاد حکومت ہے۔ بھارتیوں کی دیدہ دلیری اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ بھارت بنگلہ دیش سرحد پر ہندو زمیندار جب چاہتے ہیں کھیتوں میں کام کرنے والی بنگالی عورتوں کو اٹھا لے جاتے ہیں اور اس کے خلاف احتجاج کرنے والے بنگالیوں کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنانا ایک معمول بن چکا ہے اور جب بنگلہ دیشی عورتوں کے اغوا پر مقامی سیاسی اور ہیومن رائٹس کی تنظیموں کی جانب سے احتجاج زور پکڑ جاتا ہے تو ان لٹی پٹی عورتوں کو اس حالت میں واپس کر دیا جاتا ہے کہ نہ ان کے والدین ان سے نظریں ملانے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی یہ نظریں اٹھا کر اپنے والدین اور بہن بھائیوں کو دیکھنے کی ہمت کرتی ہیں۔۔۔۔ بنگلہ دیشی حکومت کی کمزوری تو ایک طرف‘ بھارت بنگلہ دیش سرحد پر موجود بنگلہ دیشی سرحدی فورس کے اہل کار بھی ان ہندو زمینداروں اور بھارت کی ملٹی فورس کے ہاتھوں اس قدر بے بس ہو چکے ہیں کہ جب یہ بنگلہ دیش کے علاقے سے ان کی ہی عورتوں کو اٹھاکر لے جا رہے ہوتے ہیں تو ان کی طرف دیکھ کر یہ منہ پھیر لیتے ہیں۔ اگر حسینہ وا جد اپنے عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہی ہیں تو بنگلہ دیشی عوام کو اس مضمون کے ذریعے وارننگ دے رہاہوں کہ تمہارے اور بھارت کے درمیان بہنے والے تیس دریائوں میں سے '' ٹیسٹا دریا پر بھارت اگلے دس سالوں میں50,000 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کیلئے 30 ہائیڈرو الیکٹرک پاور ڈیم بنانے جا رہا ہے جن کی فزیبلٹی تیار ہو چکی ہیں‘‘۔۔۔۔۔ عالمی رائے عامہ اور میڈیا تو اب یہاں تک کہنا شروع ہو گیا ہے کہ لگتا ہے حسینہ واجد نے اپنے اقتدار کے بدلے میںبنگلہ دیش کو بھارت کے ہاتھوں مکمل طور پر رہن رکھ دیا ہے...!!