تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     03-06-2014

افواہ سازی کی صنعت

وطن عزیز میں افواہ سازی کی صنعت عرصے سے دن دگنی رات چوگنی ترقی کررہی ہے۔ باقی صنعتیں لوڈشیڈنگ سے متاثر ہوسکتی ہیں لیکن بجلی کی قلت افواہ سازی کے کارخانوں کا پہیہ نہیں روک سکتی۔ افواہ سازی میں حسد، نفرت اور رشک سب ہی برابر کے حصہ دار ہوتے ہیں۔ خواہشات بھی اس عمل میں اپنا حصہ ڈال لیتی ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 1971ء کی جنگ میں یہ افواہ کئی دن گردش کرتی رہی کہ امریکی بحری بیڑہ چٹاگانگ کی بندر گاہ پر لنگر انداز ہونے ہی والا ہے اور مقصد یہ ہے کہ مشرقی پاکستان علیحدہ نہ ہونے پائے۔ اصل میں جو ہوا وہ قارئین کو بہت اچھی طرح معلوم ہے۔
گورنمنٹ کالج لاہور میں طالب علمی کے زمانے میں ہمارے سوشیالوجی کے پروفیسر ایک دلچسپ تجربہ کیا کرتے تھے۔ وہ سٹوڈنٹس کو فاصلے پر بٹھا کر کسی ایک کے کان میں کچھ کہتے تھے اور وہ اگلے کلاس فیلو کے کان میں آہستہ سے وہی بات دہراتا تھا۔ جب یہ عمل مکمل ہوجاتا تھا تو وہ آخری طالب علم سے پوچھتے تھے کہ تمہیں جو بات کہی گئی ہے وہ بلند آواز سے بتائو۔ ہم سب حیران ہوتے تھے کہ بات چلتے چلتے خاصی بدل گئی ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ سننے والا وہی سننا چاہتا ہے جو وہ سننا چاہتا ہو یا وہ وہی معانی نکالتا ہے جو وہ نکالنا چاہتا ہو ؎
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
اب میں آپ کو اپنی زندگی سے دو ایسے واقعات بتاتا ہوں جو افواہ سازی کی صنعت سے متعلق ہیں۔ میں یونان میں چار سال سفیر رہا۔ اس دیومالائی سرزمین کا تفصیل سے ذکر آئندہ کسی کالم میں آئے گا۔ بحیرہ روم کے آس پاس کے ممالک مثلاً لبنان ، یونان ، اٹلی ، سپین اور مراکش وغیرہ سفارتی پوسٹنگ کے اعتبار سے مقبول ہیں۔ ان تمام ممالک کا موسم معتدل ہے۔ مچھلی زیتون اور پنیر کا کثرت سے استعمال کھانوں کو صحت مند بناتا ہے۔ انواع و اقسام کے پھل ملتے ہیں۔ یونان میں جو انجیر اور چیری ہوتی ہے ویسی دیگر ممالک میں کم کم ہوتی ہے۔
میرا یونان میں چوتھا سال تھا جبکہ عموماً پوسٹنگ تین سال کی ہوتی ہے ۔ کئی دیگر کولیگ میری جگہ آنے کی کوشش کررہے تھے لیکن بات نہیں بن رہی تھی۔ جنرل پرویز مشرف کا زمانہ تھا اور جنرل منیر حفیظ نیب کے چیئرمین تھے۔ وہ مجھے جانتے بھی نہ تھے ۔رشتہ داری تو دور کی بات ہے۔ یار لوگوں نے یہ خبر اڑا دی کہ یونان میں سفیر جنرل منیر حفیظ کا سگا بھائی ہے اور ناموں میں لگے لاحقے کو دلیل کے طور پر پیش کیا۔ میں یہ بے تکی سن کر خوب محظوظ ہوا ،کئی سال بعد جنرل منیر حفیظ سے دوحہ قطر میں زندگی میں پہلی ملاقات ہوئی۔ میں وہاں دورے پر گیا ہوا تھا۔ اصغر آفریدی سفیر تھے۔ انہوں نے دعوت کا اہتمام کیا۔ جنرل صاحب بھی کسی کام کے سلسلہ میں قطر گئے ہوئے تھے ۔ ان سے تعارف ہوا اور میں نے کہا کہ جنرل صاحب آپ سے ملاقات تو پہلی ہورہی ہے لیکن ہم سگے بھائی ہیں۔ پھر میں نے انہیں یونان کی چار سالہ پوسٹنگ والا قصہ سنایا کہ یار لوگوں نے اڑا دی تھی کہ اس سفیر کو کون ہلاسکتا ہے۔ ایک اہم جرنیل اس کا بھائی ہے۔ جنرل منیر حفیظ نے قصہ بلکہ لطیفہ سنا اور خوب ہنسے۔ دوسرا واقعہ مسقط کا ہے۔ سینما میں ایک مشہور انڈین فلم لگی ہوئی تھی ۔ہم میاں بیوی فلم دیکھنے چلے گئے۔ ظاہر ہے کہ فلم بین زیادہ تر بھارتی اور پاکستانی تھے۔ مسقط چونکہ اسلام آباد کی طرح درمیانی آبادی والا شہر ہے لہٰذا سفراء کو اکثر لوگ جانتے ہیں۔ ہاف ٹائم میں مجھے احساس ہوا کہ کچھ لوگ ہماری طرف اشارے کرکے کھسر پھسر کررہے ہیں۔ شاید بھارتی اس بات پر حیران تھے کہ پاکستانی سفیر ہماری فلم دیکھ رہا ہے اور پاکستانی اس بات پر ناخوش تھے۔ حالانکہ اس '' گناہ ‘‘ میں وہ بھی برابر کے شریک تھے لیکن اس سے بھی دلچسپ خبر بعد میں سنی جو مسقط میں کئی روز تک گردش کرتی رہی۔ ہوا یوں کہ میری بیوی کو ان کی کسی خاص ہمدرد نے بڑی راز داری سے فون کیا کہ شہر میں عجیب سی خبر پھیلی ہوئی ہے کہ ہمارے سفیر صاحب کسی خاتون کے ساتھ فلم دیکھنے گئے تھے ۔ میں آپ کو یہ خبر صرف مخلص ہمدرد کے طور پر دے رہی ہوں تاکہ آپ کی ازدواجی زندگی پر برے اثرات مرتب نہ ہوں۔ بیگم بڑے صبرو تحمل سے ہمدرد خاتون کی بات سنتی رہیں اور آخر میں قہقہہ لگاکر بولیں کہ سفیر صاحب کے ہمراہ خاتون میں ہی تھی۔ 
سابق وزیراعظم شوکت عزیز کو میں1985ء سے جانتا ہوں۔ میں ریاض میں سفارت خانہ میںقونصلر تھا اور شوکت صاحب سعودی امریکن بینک کے سربراہ تھے۔ تھوڑے سے عرصے میں وہ ریاض کی واقعی ہر دل عزیز شخصیت بن گئے۔ شاہی خاندان کے کئی اہم ا فراد ان کو بخوبی جانتے تھے۔
شوکت صاحب 2004ء میں نئے نئے وزیراعظم بنے تھے۔ عام لوگوں کو ان کے بارے میں زیادہ معلومات نہ تھیں اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ موصوف زیادہ عرصہ پاکستان سے باہر رہے تھے ۔ ان دنوں میں چند روز کے لیے لاہور گیا اور ایک دوست نے لنچ کے لیے جمخانہ کلب بلا لیا۔ اور دوست بھی مدعو تھے ۔ ہمارے ہاں یہ پرانی روایت ہے کہ ہر اہم شخصیت کے ماضی کو کھنگالنا ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ہم جمخانہ پہنچے تو یار لوگوں میں بحث چھڑی ہوئی تھی کہ شوکت صاحب ہیں کون؟ ایک صاحب مصر تھے کہ وہ اردو سپیکنگ ہیں ۔دوسرے کہہ رہے تھے کہ دراصل وہ کشمیری نژاد ہیں ۔میں خاموشی سے سنتا رہا۔ جو بات قابل غور تھی وہ یہ تھی کہ تین آراء دی جارہی تھیں اور ان میں سے ہر ایک مصرتھا کہ میری ہی رائے صائب اور حتمی ہے۔ میزبان کو معلوم تھا کہ میں شوکت صاحب کو عرصے سے جانتا ہوں ۔چنانچہ میچ کا فیصلہ کرنے کے لیے مجھے کہا گیا ۔ میں نے کہا کہ تینوں آرا کچھ کچھ درست ہیں۔ موصوف کے والد اردو سپیکنگ تھے ۔1947ء کے آس پاس وہ ریڈیو پاکستان لاہور میں متعین تھے کہ ان کی شادی ایک لاہوری کشمیری گھرانے میں ہوئی۔ لہٰذا اردو شوکت صاحب کی پدری اور پنجابی مادری زبان ہے۔ میری تشریح کے بعد تمام فریق مطمئن ہوگئے۔
ایک محترمہ جنہیں میں برسوں سے جانتا ہوں۔ ان کے پاس ہر خبر ہوتی ہے لہٰذا انہیں علم تھا کہ شوکت عزیز صاحب کو عرصے سے جانتا ہوں۔ 2005ء کی بات ہے کہ گویا ہوئیں۔ جاوید بھائی مبارک ہو۔ آپ کے وزیراعظم حنا ربانی کھر سے شادی کررہے ہیں۔ میں نے کہا بی بی خدا کا خوف کرو شوکت صاحب اپنے بچوں کی شادیوں سے بھی فارغ ہوچکے اور حنا ربانی شادی شدہ اور اچھی شہرت والی خاتون ہیں۔ کہنے لگیں، اب آپ ذرا انتظار کریں۔ بات جلد طشت ازبام ہوجائے گی۔ لیکن وہ شادی آج تک نہیں ہوئی۔ پھر حنا ربانی کے '' خیر خواہوں‘‘ نے بے پرکی اڑائی کہ ان کا بلاول بھٹو زرداری سے افیئر چل رہا ہے۔ دونوں باتیں بالکل غلط اور لغو تھیں۔
زندگی کی دوڑ میں جو ہم سے آگے نکل جائے اس کی ٹانگ کھینچنا اور کردار کشی کرنا ہمارا محبوب مشغلہ ہے۔ وہ افسر جو میرٹ پر فیصلے کرتے ہیں سنا ہے کہ انہیں آرام سے دھمکی دے دی جاتی ہے۔ کام کرو ورنہ تمہارے بارے میں مشہور ہوجائے گا کہ فلاں فرقے سے تعلق رکھتے ہو ۔پھر باقی عمر صفائیاں پیش کرتے رہنا۔ ہمارے دین میں بہتان تراشی گناہ ہے۔ لیکن ہمارے ہاں افراد ہوں یا ٹی وی چینل ،بہتان تراشی عام ہو رہی ہوتی ہے۔ افواہ سازی وطن عزیز میں خوب ترقی کررہی ہے کہ اسے بجلی نہیں صرف کینے اور حسد کا خام مال درکار ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved