بھارت میں کافی عرصے کے بعد ایک مستحکم حکومت قائم ہوئی ہے۔ نریندر مودی نے ایک پرعزم رہنما کی طرح اپنی انتخابی مہم چلائی اور نمایاں کامیابی حاصل کی۔ وہ پراعتماد ، '' ہندو توا ‘‘ کے نظریات پر راسخ العقیدہ اور اپنے معاشی پروگرام اور ویژن کے اعتبارسے یکسو ہیں ۔ ان کی سَمت اس قدر واضح ہے کہ ایک ہی جست میں کابینہ تشکیل دے دی، انہیں بیساکھیوں کی بھی ضرورت نہیں ، ان کی حمایت اور اُن پر نظریاتی چیک رکھنے کے لئے ''وشوا ہندو پریشد‘‘ اور'' راشٹر یہ سیوک سنگھ‘‘ جیسی انتہا پسند تنظیمیں موجود ہیں ۔ کہا جاتاہے کہ بھارت کی مضبوط سرمایہ دار اشرافیہ نے سائنٹفک طریقے سے ان کا امیج بنایا اور بتدریج ایک کامیاب قومی رہنما بنادیا۔ اس طبقے نے بھارت کے قومی اور اپنے طبقاتی مفادات کے نقطۂ نظر سے یقیناً اُن کی امکانی استعداد اور بہتر نتائج دینے کی صلاحیت کا خوب تجزیہ کیا ہوگا ۔
دوسری طرف ممکنہ طور پر ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ افغانستان میں صدارت کے منصب پر فائز ہوتے دکھائی دیتے ہیں، اُن کا جھکاؤ ہمیشہ انڈیا کی طرف رہا ہے۔ اس پر ستم یہ کہ پاک ایران تعلقات بھی بے اعتمادی کا شکار ہیں اور ایران کی خارجہ پالیسی ماضی کی طرف مراجعت کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس طرح پاکستان اپنے گرد وپیش کے اعتبار سے سینڈوچ سا بنتاجا رہا ہے ۔
اس کے برعکس پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے اجزائیِ ترکیبی ایک دوسرے کے بارے میں بے اعتمادی کا شکار ہیں، نواز شریف حکومت کا بمشکل ایک سال مکمل ہواہے کہ سیاسی منظر نامے پر ایک اِرتعاش ہے اور سیاسی مُہم جُونہایت عجلت میں ہیں ۔
قرآن مجید نے انسان کی ایک فطری کمزوری کو بیان فرمایا ہے: ''اور (بعض اوقات) انسان برائی کے لئے( ایسی چاہت کے ساتھ) دعا کرتا ہے جیسی بھلائی کے لئے کرنی چاہئے، (درحقیقت) انسان بڑا ہی جلدباز ہے‘‘۔ (بنی اسرائیل:11) اس آیتِ مبارَکہ کا ایک مفہوم رئیس المفسرین امام فخرالدین رازی نے یہ بیان کیا ہے : ''بعض اوقات انسان اپنی دانست میں کسی چیزکو خیر سمجھتے ہوئے اُس کے حصول کے لئے نہایت مبالغے کے ساتھ دعا کرتاہے حالانکہ انجامِ کارکے اعتبار سے وہ اس کے لئے باعثِ ضَرر اور شَر ہوتی ہے، لیکن وہ نفعِ عاجِل (Prompt Benefit)کا حریص اُس چیزکی حقیقت اورانجام سے بے خبر ہوتاہے، یعنی اُس کے پاس انجام پر غورکرنے کی فرصت ہی نہیں ہوتی کیونکہ وہ ظاہری علامات وآثار سے دھوکاکھا جاتاہے اور حقائق واَسرارکی جستجو کے بکھیڑے میں نہیں پڑتا‘‘۔ دوسرے مقام پر اللہ عزّوجلّ نے فرمایا: ''ہر گز نہیں ! تم جلد ملنے والی چیز سے محبت رکھتے ہو اور تم آخرت کو چھوڑ دیتے ہو‘‘۔ (القیامہ:20-21) ہم اس کے یہ معنی بھی مراد لے سکتے ہیں کہ تم دنیا کے عارضی فائدے پر فریفتہ ہو جاتے ہو اور آخرت کے دائمی فائدے سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہو۔اپنے حالات کے مطابق ہم یہ معنی بھی مراد لے سکتے ہیں کہ بعض اوقات دنیاوی امور میں ہم جلدبازی اور بے صبری کا شکار ہوکرانجام کار نقصان اٹھاتے ہیں اورجب آنکھ سے پردہ اٹھتا ہے تو چڑیاںکھیت چُگ چکی ہوتی ہیں اور ہم کف افسوس مل کر رہ جاتے ہیں ۔ ہماری سیاسی زندگی میں1977ء کی ''تحریکِ نظامِ مصطفیٰ‘‘ اس کی واضح مثال ہے۔ علامہ اقبال کا یہ شعر ہمارے حسبِ حال ہے ؎
شاطر کی عنایت سے تُو فرزیں، مَیں پیادہ
فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطرکا ارادہ
جلدبازی چونکہ ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے اس لئے ہم ملک میں کسی نظام کو تسلسل کے ساتھ چلانے میں ناکام رہے ہیں ۔ اگر کسی نہ کسی طور پرکوئی جمہوری ڈھانچہ وجود میں آجائے تو ہم بہت جلد اُس سے اکتا جاتے ہیں۔ 1988ء تا1999ء کا دور اس کی نمایاں مثال ہے۔ اس کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے کسی حدتک یہ ذہن بنایا کہ سسٹم کو پٹڑی سے اتارنے اور ایک دوسرے کی حکومت کوگرانے میںہم کسی نادیدہ سازش کا حصہ نہیں بنیں گے، مخالفین ان کے اسی میثاق اورتجربے کو'مُک مُکا‘سے تعبیر کرتے ہیں۔ مگر اب دوسرے پرعزم رہنما میدان میں آگئے ہیں جوہتھیلی پہ سرسوں جمانے کے لئے بے چین ہیں،گویا ع ''میں سربکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے‘‘۔ اسی طرح ہم نے فوجی حکومتوں کے بھی تجربے کئے، ابتدامیں انہیں خوش آمدیدکہا مگر چند برسوں میں ان سے بھی اکتا گئے اور پھر'بی بی جمہوریت‘کی یاد ستانے لگی، یہی ہماری رام کہانی ہے اور یہی ہمارا قومی مزاج !
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے وزیراعظم اپنے حال میں مست رہتے ہیں اور وہ اپنی اُفتادِ طبع کے سبب سب کو ساتھ لے کر چلنے کا مزاج نہیں رکھتے، جبکہ حال یہ ہے کہ ان کا مکمل اقتدار صرف پنجاب میں ہے اور سیاسی مہم جوؤں کی جولانیِ طبع کا میدان بھی پنجاب ہی ہے۔ موجودہ دورانیے میں وہ قوتِ فیصلہ سے بھی عاری نظر آتے ہیں، اس کی نمایاں مثال وفاقی کابینہ کا اب تک مکمل نہ ہونا اور بہت سے اہم اداروںکاسربراہوں سے خالی رہنا ہے۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ میگاپروجیکٹس شریف برادران کی ترجیحات میں سرِ فہرست ہیں۔ اس میں شک نہیںکہ مضبوط معیشت کے لئے مستحکم ڈھانچہ ضروری ہے اور یہ کہ بڑے اور دیر پا بنیادی نوعیت کے منصوبوں کے لئے وقتی طور پر قوم کو قربانی دینی پڑتی ہے، جیسے تربیلا ڈیم اور منگلا ڈیم وغیرہ ۔
لیکن اس وقت عوامی اضطراب ہے اوردبی ہوئی چنگاری کوشعلۂ جوّالہ بنانے کے لئے متحرک اپوزیشن بھی موجود ہے، اس کا تقاضا ہے کہ ایسے معاشی منصوبے شروع کئے جائیں جن کا فائدہ عام آدمی کوجلد مل سکے، اس لئے کہ ہوشربا گرانی اور بے روزگاری نے عوام کی کمر دہری کر رکھی ہے۔ لہٰذا حکومت کو چاہئے کہ اپنی سیاسی حمایت کے مضبوط مرکز فیصل آباد میں بڑے جلسے کے کامیاب انعقادکو ایک وارننگ سمجھے، منڈی بہاؤالدین کے ضمنی انتخاب سے بھی کسی حد تک عوامی رُجحان کی عکاسی ہوتی ہے، اگرچہ یہ بھی تسلیم ہے کہ کوئی ایک حلقہ پورے سیاسی منظرکا آئینہ دار نہیں ہوتا، بہت سے دیگرعوامل بھی ہوتے ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ جس طرح بھی سہی حکومت نے معیشت کو سنبھا لا دیا ہے اور ملک کو دیوالیہ پن کی کیفیت سے نکال لیا ہے، زرِ مبادلہ کے بحران پربھی قابو پایا ہے، پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ڈالر پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں بلند سطح پر جاکر نیچے آیا ہے؛ تاہم معیشت کی اٹھان کے ابھی کوئی آثارنمایاں نہیں ہیں۔شاید اس کا ایک سبب توانائی کے بحران ہے، نئے منصوبوں کی تکمیل سے اس میں ضرور فرق پڑے گا۔
شروع میں عمران خان صاحب کا موقف متوازن تھاکہ انتخابی نتائج کو تسلیم کیا ہے،دھاندلی کو نہیں،لیکن آئندہ انتخابات کی شفافیت کولازمی طورپر یقینی بناناچاہتے ہیں ،اس میں بائیو میٹرک سسٹم لانے کا مطالبہ بھی شامل تھا۔ ہماری معلومات کے مطابق اس لفظ کے معنی ''حیاتی شماریات‘‘ہیں،کوئی صاحب اس سے بہتر اور سہل اردو متبادل بتاسکیں تو مہربانی ہوگی تاکہ اس لفظ کے سنتے یا پڑھتے ہی مفہوم سامع اور قاری کے ذہن میں آجائے۔ یعنی ووٹر الیکٹرانک مشین پر انگلی رکھے گا اور اس کی شناخت ہوجائے گی، پھر وہ اپنے پسندیدہ امیدوارکے انتخابی نشان کو ٹِک کرکے ووٹ دے دے گا۔
اُس وقت ہم نے لکھاتھا کہ وزیر اعظم نواز شریف کو اس مسئلے میں اُن کے ساتھ ورکنگ سیشن رکھنا چاہئے اور معاملے کو سنجیدگی سے لیناچاہئے کیونکہ انتخابات کا شفاف ہونا سب کے مفاد میں ہے۔ اب چونکہ یہ مسئلہ زیادہ گمبھیر شکل اختیارکرتا جارہا ہے، اس لئے لازم ہے کہ اس کے لئے ایک کمیشن بنے اور اُس کا ٹائم فریم طے ہو۔اس کے ساتھ ساتھ بڑی سیاسی جماعتوں کے نمائندوں اور ٹیکنوکریٹس پر مشتمل وفدکو بھارت کے انتخابی نظام کا بھی گہرائی سے مطالعہ کرکے اس امرکا جائزہ لیناچاہئے کہ آیا بھارت کے تجربے سے استفادہ کرتے ہوئے ہم کم ازکم تین مرحلوں میں انتخابات کا انعقاد کراسکتے ہیں تاکہ الیکشن کمیشن بہتر حکمتِ عملی سے انتخابات کوکنٹرول کرسکے۔ اسی طرح الیکشن کمیشن کی تشکیل نو اور اختیارات کا مسئلہ بھی حل ہوناچاہئے۔(جاری)