بعض شخصیات ایسی ہوتی ہیں کہ وہ صرف زمانہ حال ہی میں جینا پسند کرتی ہیں۔ ماضی کا تو آپ کچھ نہیں کرسکتے مگر مستقبل کے بارے میں بالکل بے فکر رہنا ایک ایسی ذہنی کیفیت ہے جس کا سمجھنا مشکل ہے۔ تخلیقی صلاحیتوں کے مالک کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو اپنے ہنر کے علاوہ کسی شے کی پروا نہیں ہوتی اور پھر جب عمر رسیدہ ہوجاتے ہیں تو بے بسی کی تصویر بن جاتے ہیں۔ حکومت بھی ایسے بے مثال فنکاروں کے لیے کچھ نہیں کرپاتی۔ اس کے ہاں مایہ ناز کارکردگی پر اعزازات سے نوازنا ایک روایت تو ہے، جس طرح قومی دنوں پر اکیس یا اکتیس توپوں کی سلامی یا پھر قومی ترانے کے احترام میں کھڑے ہوجانا وغیرہ جیسی روایات ہماری قومی زندگی میں رچ بس چکی ہیں؛ تاہم جو چیز نہیں رچ بس سکی وہ ہے قابل قدر کارکردگی کے حامل اپنے ہم وطن افراد کا خیال رکھنا، خاص طور پر جب وہ عمر رسیدہ ہوجائیں اور ان کے پیچھے ان کا ڈھول بجانے والی کوئی Lobby بھی نہ ہو۔یہ Lobbiesاگرچہ محض اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کی خاطر ایسا کرتی ہیں تاہم اس سے کچھ اہم شخصیات اپنا بڑھاپا آرام سے گزار لیتی ہیں۔ اکثریت ہمارے ہاں اپنے درخشاں ماضی کی یاد میں روتے دھوتے ہی اپنا بڑھاپا گزارتی ہے۔
ہمارے ملک کے ایک مایہ ناز میوزک ڈائریکٹر ہوتے تھے بابا جی اے چشتی، موسیقی کی دنیا میں ان کے ریکارڈ پر نظر ڈالی جائے تو آپ کو حیرت ہوگی کہ مرحوم کس قدر Talentedتھے ۔ تقسیم ہند سے پہلے موسیقی کے میدان میں شہرت رکھتے تھے اور پاکستان میں تو فلمی صنعت کے ستون شمار ہوتے تھے۔ جب عمر رسیدہ ہوئے تو حالت یہ تھی کہ ایک روز مال روڈ لاہور پر میں نے ان کو دیکھا کہ فٹ پاتھ پر کھڑے ہیں اور سڑک کراس نہیں کرپارہے۔میں نے ان کا ہاتھ پکڑا تو ان کو کچھ اطمینان ہوا۔ بولے یہ ایک چیک ہے، سامنے الفلاح بلڈنگ میں بینک سے کیش کرانا ہے۔ رکشے والا سڑک کے دوسری طرف اتار گیا ہے۔ دکھائی بہت کم دیتا تھا، وگرنہ ہوسکتا ہے مجھے پہچان لیتے۔ برسوں پہلے میں ان سے کئی مرتبہ مل چکا تھا۔ ان کا بیٹا تسکین چشتی میرا دوست ہوتا تھا اور پھر ریڈیو سٹیشن پر بھی بابا چشتی سے کئی بار ملاقات ہوچکی تھی۔
سڑک پار کروانے کے بعد میں ان کو بینک تک لے گیا، چیک جو کہ معمولی رقم کا تھا ، کیش کروا دیا اور پھر ہم ان کی واپسی کے لیے رکشے کا انتظار کررہے تھے کہ میں نے پوچھا ''بابا جی اتنا کچھ زندگی میں کمایا، کہاں گیا؟‘‘ بولے '' یہ فلمی دنیا کی کمائی بہتا ہوا نل ہوتی ہے، جب تک نل چل رہا ہو آپ نہاتے رہیں جب نل بند ہوجائے تو بدن پر چند قطرے ہی رہ جاتے ہیں‘‘۔ رکشا آیا اور وہ چلے گئے۔
یہ حقیقت ہے کہ بابا جی اے چشتی نے اپنی کمائی کو چلتا ہوا نل ہی سمجھا تھا۔ بابا چشتی کا ان دنوں معمول یہ ہوتا تھا کہ صبح ہوتے ہی ایک کالی پیلی ٹیکسی میں بیٹھ جاتے اور پھر رات گئے تک وہ ٹیکسی ان کے ساتھ رہتی تھی اور اس کا میٹر چلتا رہتا تھا۔ زیادہ وقت چونکہ فلم سٹوڈیو میں گزرتا تھا؛ لہٰذا وہ بآسانی ٹیکسی سٹوڈیو پہنچ کر چھوڑ سکتے تھے اور رات کو واپسی پر دوسری ٹیکسی لے سکتے تھے، مگر ایسا کبھی نہیں کرتے تھے۔ تسکین چشتی کے لیے وہ ایسا کرتے تھے کہ اپنے کچھ گانوں میں اس کو اپنا معاون بنالیتے تھے ریکارڈنگ والے دن تسکین سٹوڈیو جاتا تھا اور اسسٹنٹ کی فیس وصول کرکے آجاتا تھا۔ ہم لوگ اس کا مذاق اڑاتے تھے کہ سارا کام تو بابا چشتی کرتے ہیں اور یہ بس چھڑی ہلاتا رہتا ہے اور فیس لے کر آجاتا ہے۔ بہرحال وہ زمانہ گزر چکا تھا اور اب بابا چشتی کی وہی حالت تھی جو میں نے اوپر بیان کی ہے اور غالباً مرتے دم تک یہی حالت رہی۔
میں اکثر سوچتا تھا کہ اگر بابا جی اے چشتی نے زندگی میں اپنی کمائی کا پانچ فیصد بھی کسی کاروبار میں لگادیا ہوتا تو آج ان کی صورتحال یکسر مختلف ہوتی۔ اسی طرح مجھے استاد سلامت علی خان یاد آتے ہیں۔ جب وہ اپنے بڑے بھائی استاد نزاکت علی خان کے ہمراہ کماتے تھے اور پھر جب وہ تنہا گانے لگے۔ کلاسیکی موسیقی کے بے مثل فنکار تھے ۔استاد سلامت علی خان بھی جوانی کے دور کی اپنی کمائی کا اگر کچھ حصہ کسی کاروبار میں لگادیتے تو ان کے خاندان کے مالی وسائل اس قدر بڑھ سکتے تھے کہ کثیر الادلاد ہونے کے باوجود پورا گھرانہ امیرانہ طور طریقوں سے زندگی گزار سکتا تھا۔ خان صاحب کے بچوں نے اپنا اپنا مستقبل سنوارنے کے لیے کیا کیا جتن کیے ہیں، اس کی تفصیل بیان کرنا میرا موضوع نہیں ہے۔
موسیقی کے دلدادہ لوگوں کی نظر میں سلامت علی خان کی کس قدر قدرو منزلت تھی، اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ امریکہ جیسے ملک میں ان کو بعض ان کے چاہنے والے مہینوں اپنے وہاں مہمان ٹھہرائے رکھتے تھے اور ان کے ماتھے پر شکن نہ آتی تھی۔
میں 1980ء کے عشرے میں امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن میں مقیم تھا۔ وائس آف امریکہ کی اردو سروس میں ملازم تھا اور وہاں ہندی سروس میں ایک صاحب ہوتے تھے جن کا نام جواہر کلسی(Jawahr Kalsi)تھا۔ تقسیم ہند سے پہلے آل انڈیا ریڈیو دہلی پر یہ صوتی اثرات کے ماہر کے طور پر بہت معروف تھے مگر موصوف کی موسیقی میں دیوانگی کی حد تک دلچسپی تھی۔ استاد سلامت علی خان کے عاشق تھے۔ ایک اطالوی خاتون جواہر کلسی کی بیوی تھی اور گھر میں بالکل مغربی طرز کا ماحول تھا مگر اس میں بھی جواہر کلسی استاد سلامت علی خان کو ان کے ایک بیٹے کے ہمراہ گھر میں ٹھہراتے تھے اور خان صاحب ہفتوں وہاں قیام کرتے تھے۔
جواہر کلسی کو بھی یہ شکوہ تھا کہ سلامت علی خان مستقبل کی منصوبہ بندی پر کوئی توجہ نہیں دیتے اور بس حال ہی میں جیتے ہیں۔ پھر خود ہی کہتے تھے کہ خان صاحب تو بھگوان ہیں اور بھگوان تو بے غرض ہوتے ہیں۔ کلسی صاحب کے گھر میں استاد سلامت علی خان کی میں نے ایسے تعظیم ہوتے دیکھی جیسے کوئی اوتار ان کے گھر آگیا ہو اور خان صاحب کی آئو بھگت میں کلسی صاحب کی اطالوی بیوی بھی شامل ہوتی تھی۔
خان صاحب کے طویل قیام کا جواہر کلسی نے کبھی شکوہ نہ کیا، ہاں البتہ سلامت علی خان کے بیٹے کے بارے میں ایک مرتبہ کہنے لگے کہ وہ صبح اٹھ کر ہم سب گھر والوں پر ایسے حکم چلاتا ہے جیسے وہ مالک ہو اور ہم سب ملازم ہوں۔ پھر بولے ' خان صاحب کے بیٹے کا مزاج گویوں والا نہیں ہے‘ سازندوں والا ہے۔ اب گویوں اور سازندوں کے مزاج میں کیا فرق ہوتا ہے یہ بہت تفصیل طلب موضوع ہے۔ اس پر پھر کبھی بات ہوگی تاہم جو لوگ موسیقی کی دنیا سے واقفیت رکھتے ہیں وہ جواہر کلسی کے اس جملے کا مطلب اچھی طرح سمجھ گئے ہوں گے۔
بابا جی اے چشتی بھی چلے گئے ، سلامت علی خان بھی اس دنیا میں نہیں لیکن ایسے مزاج کے لوگ اب بھی پائے جاتے ہیں جو بابا چشتی کے بقول جب تک نل چلتا رہتا ہے نہاتے رہتے ہیں۔ جب نل بند ہوجاتا ہے تو بدن پر چند قطروں کے سوا ان کو پانی کہیں دکھائی نہیں دیتا۔